بلوچستان نوحہ کناں

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان قلات، مکران، لسبیلہ اور خاران کی ریاستوں پر مشتمل علاقہ تھا ان ریاستوں پر مختلف قبائلی سردار حکمران تھے ۔ان سرداروں میں سے خان قلات میر احمد یار خان علاقے میں بہت اثر و نفوذ رکھتے تھے اور دیگر قبائلی سردار ان کی بات کو اہمیت بھی دیتے تھے۔ قیام پاکستان سے دو روز قبل خان آف قلات نے آزاد بلوچ ریاست کا اعلان کیا تھا ۔ یاد رہے کہ بلوچستان کبھی بھی تاج برطانیہ کی کالونی نہیں رہا تھا بلکہ برطانیہ کے زیر انتظام اپنی الگ حیثیت میں رہا تھا۔ خان آف قلات نے بھی اپنی اسی الگ اور جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اور بلوچ قوم کی امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک آزاد ریاست کا عندیہ دیا مگرچونکہ پاکستان ایک اسلامی مملکت کے طور پر ابھر رہا تھااس لیے میر احمد یار خان نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کرنے کو اہمیت دی۔

بدقسمتی سے خان آف قلات اور دیگر بلوچ عمائدین کی اس نیک نیتی کو اس وقت کی پاکستانی حکومت نے بغاوت سے تعبیر کیا اور بات چیت کے بجائے فوجی آپریشن کر کے بلوچستان کو اپنے زیر انتظام کر لیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچوں کو پہلا تحفہ نفرت کا ملا جس کے نتیجے میں میر احمد خان کے بھائی میر عبدالکریم نے مسلح بغاوت کی او ر بالآخرافغانستان کو فرار ہوگیا۔ اس سانحے کے بعد سے پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے بلوچ قبائل کے ساتھ متعصب رویہ رکھا جس کے نتیجے میں بلوچ قوم کی وفاق اور دیگر صوبوں سے نفرت بڑھتی چلی گئی۔بلوچ عوام میں احساس محرومی اس وجہ سے بھی شدید تر ہوتا چلا گیا کہ1972تک بلوچستان میں عوامی حکومت نہیں تھی۔1972 میں بلوچ قوم پرست پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا مگر جونہی اس سیاسی قیادت نے اپنی عوام کی امنگوں کے مطابق داخلی خود مختاری کے لیے وفاقی حکومت کا دروازہ کھٹکھٹایا اس وقت کے وزیر اعظم نے ایک دفعہ پھر بلوچوں کی حق تلفی کرتے ہوئے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی برطرف کر کے اسمبلی توڑ دی اور صوبے میں گورنر راج نا فذ کر دیا۔ اس کے بعد سے جنرل ضیا ءالحق کے دور تک بلوچ عوام اپنے سرداروں کے ساتھ مل کر فوج کے خلاف مسلح بغاوت میں پیش پیش رہے۔ جنرل ضیا ءالحق نے بلوچ قوم پرست لیڈروں سے اپنے تعلقات استوار کیے اور یہ بغاوت ختم ہوئی۔

یاد رہے کہ مسلح جارحیت اور بغاوت کے دنوں میں بلوچ لیڈر افغانستا ن آتے جاتے رہتے تھے اور عین ممکن ہے اس بغاوت میں افغان حکومت ان قبائل کی سر پرستی کرتی رہی ہو۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے ، اس کی پسپائی اور وہاں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے بلوچوں کے لیے افغانستان سے تعلقات استوار کرنا آسان نہیں رہا تھا۔

90 ءکی دہائی میں بلوچ قبائل میں ایک دفعہ پھر بغاوت نے سر اٹھانا شروع کیا اور یہ سلسلہ 2001 ءمیں شدت اختیار کر گیا یہاں تک کہ 2006 میں بلوچ علیحدگی پسند افراد نے بلوچستان کے باہر سے آئے افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی ۔ 26 اگست 2006 کو فوجی آمر پرویز مشرف نے بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں واقع ان کی پناہ گاہ میں پاکستان ایئر فورس کے گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد سے ہلاک کر دیا اور یکم ستمبر کو انتہائی سخت فوجی پہرے میں ان کی تدفین کروائی ۔یاد رہے کہ نواب اکبر بگٹی بلوچ قبائل میں انتہائی اہمیت کے حامل تھے، بلوچوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے تھے اور اہم حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے تھے۔ نواب اکبر بگٹی کو قائد اعظم سے بھی ملاقات کا شرف حاصل رہا۔نواب اکبر بگٹی آزادی پسند تحریکوں کی سرپرستی کر رہے تھے اور سابق ڈکٹیٹر نے مذاکرات کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کرنا زیادہ مناسب سمجھا جس کے نتیجے میں بلوچ سردار نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کی اور حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا۔ سابق فوجی ڈکٹیٹر پر اس بارے میں آج تک تنقید کی جاتی ہے نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد سے بلوچ قوم پرست رہنماؤں کے پاکستان سے آزادی کے مطالبات زور پکڑنے لگے ہیں۔

بلوچستان معدنیات سے مالا مال سر زمین ہے یہاں سوئی کے مقام پر قدرتی گیس کے سب سے زیادہ ذخائر پائے جاتے ہیں ۔ مگر حکومت پاکستان اور بلوچ سرداروں کے درمیان بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کی رائلٹی کے بارے میں آج تک معاملات طے نہیں پائے جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام میں غربت اور پسماندگی پاکستان کے دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر حکومت پاکستان بلوچ سرداروں کو یہاں سے نکلنے والی معدنیات کی رائلٹی دیتی بھی ہے تو بدقسمتی سے بلوچ سردار اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کرتے ۔ ایک طرف تو حکومت پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے حقوق سلب کیے جاتے رہے ہیں تو دوسری جانب سردارانہ نظام نے بھی بلوچستان کے عوام کی حالت بہتر بنانے کی جانب کبھی توجہ نہیں کی ۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم پرست رہنماؤں کی پشت پناہی کرنا شروع کر دی ہے اور مذہبی فرقہ واریت کو بھی بلوچ سرزمین پر پروان چڑھا رہا ہے تا کہ پاکستان کی اس معدنیات سے مالا مال سرزمین میں مذہبی گروہ بندیاں اور فرقہ واریت سے یہاں کے عوام کا سکون چھین لیا جائے۔ بلوچستان میں آئے دن بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی، کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں قتل و غارت گری ، بے روزگاری، مذہبی منافرت، داخلی خود مختاری کا ناپید ہونا اور بلوچستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق کی عدم دستیابی نے بلوچ عوام کو وفاقی حکومت سے شدید متنفر کر دیا ہے ۔

ان تمام مسائل کی وجہ سے بلوچ قوم کے دل و دماغ میں وفاق اور پاکستان کے باقی تینوں صوبوں سے شدید نفرت پائی جاتی ہے ۔ اس بات کا مجھے تجربہ اس وقت ہوا جب میں داؤد انجینئرنگ کالج کراچی میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا۔ داؤد انجینئرنگ کالج وفاق کے زیر اہتمام ایک کالج ہے جس میں وفاق، چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ جات کے طلبہ کو شہری اور دیہی آبادی کی مناسبت سے کوٹہ پرنشستیں دی جاتی ہیں۔یوں سمجھ لیجئے کہ داؤد انجینئرنگ کالج کو حقیقی معنوں میں منی پاکستان کہا جا سکتا ہے ۔اس کالج کی یہ روایت ہے کہ یہاں ہر صوبے سے آنے والے نئے طلبہ کو اس صوبے سے تعلق رکھنے والے سینئر طلبہ نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ نئے آنے والے طلبہ کو کالج کی روایات سے متعارف بھی کرواتے ہیں ۔ اس سلسلے میں تمام صوبوں سے آئے ہوئے طلبہ کالج کے مین ہال میں ایک فیئر ویل پروگرام کا اہتمام کیا جاتاجس میں باقی صوبوں سے آئے طلبہ کو بھی خیر سگالی کے جذبے کے طور پر مدعو کیا جاتا اور ہر صوبے کی ثقافت، وہاں کے رسم و رواج، لباس اور مخصوص کھانوں سے متعارف کروایا جاتا۔ میں چونکہ جونیئر طالب علم تھا اور میرا کالج میں پہلا سال تھا اور پہلی ہی دفعہ میں دیگر صوبوں کے طلبہ کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھ رہا تھا تو میں غیر معمولی طوربہت فعال تھا اوراس طرح کے تمام پروگراموں میں شرکت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ جب ہم بلوچ سینئر طلبہ کی طرف سے دی گئی ویلفیئر پارٹی میں پہنچے تو اس پارٹی میں کسی بلوچ نے اردو زبان میں بات نہ کی۔ 1993 میں بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی نے بھی بلوچوں کی احساس محرومی اور نفرت کا اظہار قومی اسمبلی میں اردو زبان کے بائیکاٹ سے ہی کیا تھا۔

یہی نہیں بلوچ طلبہ نے دیگر صوبوں سے آئے طلبہ کے ساتھ کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور ہال میں صرف بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ رہ گئے ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حال ہی میںمیرے ساتھ پیش آیا جب یونی ورسٹی میں ایم بی اے کے دوران ایک معلمہ تمام طلبہ سے متعارف ہورہی تھیں ایک بلوچی اسٹوڈنٹ گلاب چانڈیو نے بھری پری کلاس میں یہ کہا کہ وہ بلوچ دھرتی کا بیٹا ہے اور اسے اپنے ملک سے پیار ہے وہ اسلام آباد میں کسی کو بھی اپنا مخلص نہیں پاتا۔یہ دونوں واقعات دیکھنے میں بہت چھوٹے اور غیر اہم معلوم ہوتے ہیں مگر یہ بلوچستان کی آواز ہے ہمارے حکمرانوں کو بلوچ عوام کے مطالبات کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا اور زبانی جمع خرچ کرنے کی پرانی عادت کو ترک کرنا ہوگا۔

حالیہ حکومت کی جانب سے آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان ایک خوش آئند اقدام ہے مگر بلوچ لیڈر اور عوام ابھی بھی اس پیکج کی عملداری کے بارے میں شش و پنج اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ سب سے پہلے حکومت وقت کو تمام بلوچ سرداروں سے مذاکرات کرنے ہوں گے تاکہ بلوچ سردار اور وہاں کے عوام ما ضی کی تلخیوں کو بھلا کر اعتماد باہمی کے تحت حکومت پاکستان کا ساتھ دینے پر رضا مند ہوں۔1973کے آئین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس خطے کو داخلی خود مختاری دی جائے ۔بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات سے ہونے والی آمدن پر بلوچستان کے حق کو قبول کیا جائے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیان جس میں انھوں نے کہا تھا بلوچستان سے نکلنے والی تمام معدنیات پر بلوچستان کا اختیار ہے ، کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ بلوچ عوام کے بڑے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بلوچ گم شدہ افراد کی عدم دستیابی ہے ۔ حکومت وقت کو اپنی اولین ترجیحات میں یہ بات رکھنی چاہئے کہ جلد از جلد گم شدہ افراد کے بارے میں ان کے لواحقین کو معلومات مہیا کرے اور گم شدہ افراد تک رسائی دے۔ آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت وفاقی حکومت کو بلوچ صوبائی حکومت کی جانب سے 922 افراد کی فہرست مہیا کی گئی ہے ۔

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے بارہا اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ اور ان کی حکومت بلوچستان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت مسلم لیگ (ق) اور دیگر بلوچ قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کربلوچستان کے عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تویقیناً یہ ایک مستحکم پاکستان کی جانب احس اقدام ہوگا۔
Syed Zaki Abbas
About the Author: Syed Zaki Abbas Read More Articles by Syed Zaki Abbas: 22 Articles with 31894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.