اس ڈیجیٹل مردم شماری میں ان دیکھے ہاتھوں نے کس کہ کہنے
پر حیدرآباد ڈیویزن کو کراچی ڈویزن کے پیچھے جس رفتار سے لگایا کہ دماغ کی
کھڑکیاں بھی سٹپٹاگیں ہیں . کراچی ڈویزن اور حیدرآباد ڈویزن کی آبادی اس
طرح کی جھرلو مردم شماری میں آبادی میں فرق صرف 29 لاکھ کا رہے گیا ہے. اگر
اس ہی طرح کی ٹھنڈ آئندہ ادواروں میں کراچی رہی تو حیدرآباد ڈویزن و کراچی
ڈویزن کو ٹوٹل آبادی میں پیچھے چھوڑدیگا اور لاڑکانہ ڈویزن کراچی ڈویزن سے
آبادی سے مقابلہ کے لیے کمر کس لیگا اور ان دیکھے ہاتھوں سے رجوع یا سر
بسجود حاضر ہوکے حیدرآباد ڈویزن کا مقابلہ کو ترجیح دیگا. شاید کراچی کے
آبادی گزشتہ ادواروں میں جو کراچی میں ٹھنڈ کا مقابلہ نہ کرسکی اور سُکڑ کر
محدود ہوگئی اور آئندہ آنے والی مردم شماری میں بھی ٹھنڈ بڑھنے سے اور سُکڑ
جائے اس کا حل تو اب کراچی کے اسٹیک ہولڈر بھی کیا کریں وہ بھی اس ٹھنڈ سے
سُکڑ کر اپنے اپنے گھروں میں خیمہ زن ہیں. ہمیشہ سے سندھ کے وڈیرے ہر مردم
شماری میں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کراچی کی آبادی اندرون سندھ سے کم رہے
کیونکہ آبادی پورا گننے سے کراچی کی نمائندگی بڑھے گی اور وزارت اعلیٰ
وڈیروں کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ امریکی بین الاقوامی ادارہ نے اپنی حالیہ
رپورٹ میں کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد بتائی ہے. مگر اب تو 2017 کی
آبادی سے بھی کم دکھایا گیا ہے۔ اس ڈیجیٹل مردم شماری سے کراچی کی 2 قومی
اور 4 صوبائی نشستیں کم ہونے جا رہی ہیں ، جو بلوچستان کو مل جائینگی اس پر
خاموشی متحدہ پاکستان اور خاص کر مہاجر قومی موومنٹ کے چیرمین کی خاموشی
معنی خیز و حیران کُن نظر آرہی ہے. متحدہ پاکستان کو اگر اپنے سیاسی فیصلوں
پر اظہار شرمندگی کی آزادی نہیں حاصل ہے. تو انہیں کراچی کی مردم شماری میں
بطور احتیجاج قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور وزارتوں سے فورا استعفی دیکر
اپنا احتیجاج ریکارڈ کرانا چاہیے. اس وقت استعفی اس جماعت کے لیے بھی اور
کراچی کے شہریوں کے لیے بھی بہترین ٹائمنگ ہے. حکمران جماعت کی قیادت کبھی
بھی صدر سے اسمبلی توڑنے کا مطالبہ کرسکتی ہے. اس لیے متحدہ پاکستان کی
قیادت کو بروقت فیصلہ کرکے عوام کو یہ بھی باآور کراسکتی ہے. وہ خود بھی
فیصلہ کرنے میں آزاد و خود مختیار ہے وہ اپنی عوام اور کراچی شہر کے لیے
کچھ بھی کرسکتی ہے. مگر جس طرح سے گزشتہ 5 برسوں کے دوران کراچی کے تمام
ساتوں اضلاع شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، کورنگی، کیماڑی اور ملیر میں آبادی
میں اضافہ رجسٹر نہیں ہوا۔ دنیا کہ آٹھویں نمبر پر آنے والے شہر کراچی کے
ساتھ مردم شماری میں اس طرح کی بے حرمتی اس پر پیپلزپارٹی کی مرکزی اور خاص
کر کراچی کی قیادت کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے یہ کُھلی منافقت نہیں تو
کیا ہے ؟ متحدہ کو سوچنا چاہیے پاکستان کی مرکزی سیاسی و مذہبی جماعتیں ہوں
یا کوئی سماجی تنظیمیں یا این جی اوز یا آئے دن چینلوں پر بیٹھ کر نواز
نامہ یا عمران نامہ و حکومت نامہ کے علاوہ کراچی کی مردم شماری پر پیپلز
پارٹی ، مسلم لیگ ن، انصاف تحریک یا پی ڈی ایم کے مرکزی عہدیداروں کو میڈیا
میں ایک ساتھ بیٹھا کر ان کے دور حکمرانی میں کراچی کی مردم شماری کو کم
گننے میں کیا کیا مسئلہ درپیش ہے. کس آئین کے تحت کسی شہر کے ساتھ یہ
امتیازی سلوک کیا جاتا ہے. اور اس کی وجہ کیا ہے اور ایسا کون کرنا چاہتا
ہے. اور کون کروارہا ہے. اور کیوں اس سے کیا پاکستان آگے جائیگا. جب دنیا
کے آٹھویں بڑے شہر کے ساتھ یہ سلوک وہ بھی اس کمپیوٹر دور میں یہ تو دور
جہالیت میں دنیا میں اس کی مثال بھی نہیں ملتی. جس طرح کی کُھلی دھاندلی اس
مردم شماری میں کی گئی اس پر مردم شناری ادارہ کے سربراہ بھی بول اُٹھے.
حالیہ مردم شماری پر اپنے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پر پاکستان ادارہ شماریات
(پی بی ایس) کی مردم شماری کے سربراہ ڈاکٹر نعیم الظفر کا کہنا تھا کہ
اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے عدم توجہ کا مظاہرہ کیا گیا جس سے مردم شماری کے
عمل اور نتائج میں اثر پڑا ہے. ڈاکٹر نعیم الظفر نے کہا کہ بدقسمتی سے
اسسٹنٹ کمشنرز اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر پائے ( یا کرنے نہیں دیا ).
اسسٹنٹ کمشنرز وہ فیلڈ میں نظر نہیں آئے، وہ عملے کو صحیح طرح تعینات یائے
یا ان کو کام تفویض صیح نہیں کر پائے۔( مردم شماری کے سربراہ ڈاکٹر نعیم
الظفر) کن پر الزام لگارہے ہیں. اس پر کوئی ایکشن وفاق یا صوبائی حکمرانوں
نے لیا اور کس کے حکم سے ان گورنمنٹ ملازموں نے کراچی کے ساتھ ہی عدم
دلچسپی کا مظاہرہ کیا ( جو کراچی کے ٹیکس سے ان کی تنخواہ دیں جاتیں ہیں )
متحدہ و کراچی سے تعلق رکھنے والی سیاسی، مذہبی و مسلکی و سماجی تنظیمیں و
کراچی کی تاجران برادری و وکلا تنظیمیں و سیلیبرٹی کیوں اس پر ابھی تک
اظہار مذمت نہیں کررہی ہیں . وفاق و صوبائی حکمرانوں سے کراچی کی عوام و
نوجوانوں کے ساتھ زیادتی پر کب تک کراچی کے اس حال پر آنسو بہائینگی. کیوں
اس شہر کو جو پاکستان کو کماکر دینے والے ان محب وطن شہریوں کی آبادی کو
صحیح طورپر گننے کو کوئی تیار نہیں . کس طرح سے اور بڑی بے دردی سے کراچی
کی آبادی کو یک و جنبش قلم دوسرے شہروں کے مقابلے میں کم کردیا
“سندھ سرکار کی مردم شماری کے مطابق آبادی میں اضافہ کی شرح”
۱/ لاڑکانہ ••••••••••• 25.69 فیصد
۲/ میرپورخاص •••• 16.30 فیصد
۳/ بے نظیر آباد •••• 11.94 فیصد
۴/ سکھر ڈویژن ••• 11.06 فیصد
۵/ حیدرآباد ••••••• 10.05 فیصد
۶/ کراچی ڈویژن •••• 2.56 فیصد
( اس اعدادوشمار کی ہیر پھیر کی شرح سے وفاق اور سندھ صوبائی حکمران کراچی
کے ساتھ کیوں ایسا ظلم کررہے ہیں )
گزشتہ اور حالیہ ادوار میں سندھ حکومت ہی صوبے میں مردم شماری کی دھاندلی
کی ذمہ دار ہے کیونکہ ان کے ماتحت عملے نے ہی گنتی کی ہے۔ اگر اعداد شمار
پورے نہیں کیے جائیں گے تو کیسے اندازہ لگایا جائے گا کہ شہر کی آبادی
کتنی ہے اور وسائل کیسے فراہم کیے جائیں گے؟
متحدہ پاکستان کے لیڈران و آفاق احمد اپنے بیانیہ وغیرہ میں اپنی قوم اور
کراچی کا درد دل کا آئے دن رونہ روتے ہیں اس وقت کدھر خیمہ زن ہیں . وفاق
نے اس مردم شماری پر اربوں روپے خرچ کیے گئے اگر اس طرح ہی کا رزلٹ نہ نظر
آنے والے ہاتھوں کو لانا تھا پھر کیوں یہ مردم شماری کرائی گی اگر یہ ہی
پیسہ کراچی کے روڈوں پر لگادیا جاتا تو کچھ اداروں کا کرپشن کا دروازہ ایک
احسن طریقے سے کُھل جاتا.
سابقہ عمران حکومت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 2017 میں ہونے والی مردم
شماری کے نتائج کی جو منظوری دی گئی تھی، اور اس کابینہ میں متحدہ کے خالد
مقبول و آمین الحق کی موجودگی میں کوٹہ سسٹم اور مردم شماری کو کیوں قبول
کیا. اس پر نہ ہی متحدہ نے اور نہ مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق نے کو اعتراض
اُٹھایا آخر ان کی کیا مجبوری تھی قوم اور کراچی و سندھ کے شہریوں کے ساتھ
ظلم میں شریک ہونے کی اگر اُس وقت متحدہ پاکستان سخت قدم اُٹھاتی اور
اسمبلیوں و وزارتوں سے باہر آتی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی کراچی
لیول کے عہدیداروں سے باہمی اتفاق سے مردم شُماری پر کوئی لائحہ عمل ترتیب
دیتی تو شائد آج پھر وہ اس مقام پر نہ کھڑی ہوتی . کراچی پر 1986 سے متحدہ
اور اس کے مختلف گروپس نے حکمرانوں کا ہر اوّل دستہ کا کردار شاہ سے زیادہ
شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا پھر کیا وجہ ہے اس شہرکراچی کی عوام و
نوجوان اپنے جائز مطالبات کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور فوڈ
پانڈا کے رائیڈر پڑھا لکھا نوجوان ٹیکسی چلارہا ہے . دوسرے علاقوں کے کوٹہ
سسٹم کے باوجود بھی میرٹ پر نہ ہونے پر بھی سفارش اور رشوت سے گورنمنٹ
آفیسر لگے ہوئے ہیں وہ بھی کراچی اور شہر حیدرآباد کے جعلی ڈومیسائل پر (
براجمان ) ہیں متحدہ نے جس طرح ان 35 سالوں میں اس قوم کو اس دوراہے پر
لاکھڑا کیا ہے کہ وہ ہر میدان سے باہر ہی نظر آرہی ہے. متحدہ پاکستان و
آفاق احمد اپنی جماعتوں کو پیپلز پارٹی میں ضم کردیں کیونکہ ان کے کچھ
مرکزی عہدیداران تو مال بنانے کے لیے پیپلز پارٹی میں جانے کے لیے ہاتھ پیر
مارہے ہیں بہتر تو یہ ہوگا متحدہ اپنی تنظیم کو ہی پیپلز پارٹی میں ضم کردے
تو یہ سندھ کے شہریوں پر ایک احسان ہوگا. سندھ کے شہری عوام ان تنظیموں کے
ہوتے ہوئے بھی اپنے جائز حقوق سے اگر محکوم ہی رہنا ہے تو ان جماعتوں کا
رہنا کا کیا فائدہ ان لیڈروں کو اگر ( آنجہانی پی کے شاہانی ، رحمان ملک
مرحوم یا فروغ نسیم ) جیسے افرادوں نے ہی چلانا ہے تو ان کا نہ ہونا ہی
سندھ کے شہری عوام کے لیے بہتر ہے.
|