1886 شکاگو کے مزدوروں نے امریکی سرمایہ داروں کی طرف سے
استحصال، ظلم و جبر اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف اپنے حقوق کے حصول کے لیے تاریخی
طبقاتی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جسکے نتیجے
میں مزدوروں کے کام کو دورانیہ 8 گھنٹے مقرر ہوا اور ہفتہ وار چھٹی کا حق
بھی تسلیم کیا گیا ورنہ اس سے قبل استحصالی سرمایہ دار معمولی معاوضہ کے
عوض 18 گھنٹے اور اس سے زائد کام لیتے تھے اور بعض سرمایہ دار تو مزدوروں
کو طویل عرصہ قید کر کے رکھتے تھے اور انہیں اپنے اہل خانہ سے بھی ملنے کی
اجازت نہ تھی۔ اس ظلم و جبر کے خلاف مزدوروں نے متحد ہوکر آواز بلند کی اور
جدوجہد کا آغاز کیا جس پر سرمایہ داروں کی گماشتہ پولیس نے پر امن سفید
پرچم تھامے مزدوروں پر گولیاں برسائی اور کئی مزدور شہید ہوگئے۔ ایک مزدور
نے سفید پرچم کو اپنے خون میں ڈبو کر بلند کیا اور اسطرح خون کا سرخ رنگ
مزدور جدوجہد کا نشان بنا اور آج تک مزدوروں کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہے جو
طبقاتی جدوجہد و قربانی سے عبارت ہے۔ 1889 میں دوسری انٹرنیشل کی پہلی
کانگریس نے فیصلہ کیا کہ یکم مئی کو پوری دنیا کے مزدور اس عظیم سانحہ کی
یاد کے طور پر منائیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے عظیم مزدوروں
کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کریں اس وقت سے دنیا بھر کے مزدور یکم مئی
کو تجدید عہد کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔
قیام پاکستان سے ہی مزدور اس دن کو ایک تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ سابق
وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس دن کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور
چھٹی کا اعلان کیا۔ پاکستان بھر کے مزدور یکم مئی کو جلسے، جلوس، سیمینار و
ورکشاپس منعقد کرکے اس دن کو نہایت جوش و ولولے سے مناتے ہیں اور شکاگو کے
جانثاروں کی عظیم قربانی کو یاد کرکے تجدید عہد وفا کرتے ہیں۔ حالانکہ وطن
عزیز میں مزدوروں کے حالات کار انتہائی ناگفتہ ہوچکے ہیں۔ مزدوروں کے لیے
جسم و جان کا رشتہ مشکل ہوچکا ہے۔ آسمان سے بات کرتی مہنگائی نے مزدوروں سے
جینے کے سب سامان چھین لیے ہیں۔ اداروں میں مزدوروں کو ٹریڈ یونین کا حق
حاصل نہیں اور نہ ہی مسائل کے حل کے لیے کوئی فورم ہے۔ اسی طرح کسانوں اور
طلباء کو بھی انجمن سازی کا حق حاصل نہیں اور اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 17
کی خلاف ورزی پر کسی سیاسی فورم سے آواز نہیں اٹھتی۔ کسی سیاسی جماعت نے
اپنے منشور میں مزدوروں اور کسانوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں
سیٹیں مختص نہیں کی اور ملک کی نصف سے زائد آبادی یعنی ورکنگ کلاس کی کوئی
نمائندگی ایوانوں میں موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ چند دن قبل گیس میٹر رینٹ
500 مقرر کرنے پر ایک رکن اسمبلی نے بات کرنے کی کوشش کی تو اسے خاموش کروا
دیا گیا۔ محنت کش طبقے کا استحصال پوری شدت کیساتھ جاری ہے۔ بنیادی ضروریات
کی اشیاء ورکنگ کلاس کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ ایک طرف استحصال زدہ طبقہ
سسکتے بلکتے، محرومی و مجبوری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور اور دوسری طرف
مراعات یافتہ طبقہ اپنی عیاشیوں میں مصروف اقتدار و کرسی کے کھیل جاری رکھے
ہوئے ہے جنہیں محروم طبقات کے مسائل کا قطعی ادارک نہیں۔ٹیکسوں کی بھرمار
کے بوجھ تلے غریب عوام پس کر رہ گئے ہیں اور محنت کش عوام سکتے کی حالت میں
ہیں۔
پاکستان ریلوے جو ایک قومی، عوامی اور فلاحی ادارہ ہے۔ جو آئین پاکستان کے
مطابق "پبلک سروس آبلیگیشن" ہے ہمیں تقسیم کی بعد ورثے میں بہت اچھی حالت
میں ملا تھا۔ لیکن انتظامی انتظامی نااہلی، کرپشن، اقراباء پروری، عدم
احتساب اور غلط و ناقص پالیسیوں نے اس ادارے کو اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے
کہ آج کام کے عوض ملنے والی تنخواہ کے حصول کے لیے بھی ہر ماہ مزدوروں کو
احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ انجن، کوچز و یگنز، برجز بنانے والی ورکشاپس غیر فعال
کردی گئی ہیں۔ مینٹیننس کے لیے پرزہ جات و دیگر سامان بازار سے مہنگے داموں
خریدنا اب ہمارا فخر بن گیا ہے۔ قیمتی سامان کی چوری اور ٹھیکیدار مافیا نے
ریلوے کو تباہ کردیا ہے۔ اسکے نتیجے میں ریٹائرڈ ملازمین و بیوائیں دو
سالوں سے واجبات کی منتظر ہیں۔ علاج و معالجے کی سہولیات ناپید ہوچکی ہیں،
ریلوے ہسپتالوں میں دوائیاں تو دور سرنج تک میسر نہیں۔ چھوٹے ملازمین کی 35
ہزار سے زائد جگہیں کئی سالوں سے خالی پڑی ہیں اور باقی مانندہ ملازمین پر
کام کے شدید دباؤ نے انکی کارکردگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ 1993 سے ادارے
میں "منسٹری آف ڈیفنس لائن" کے نام پر ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی ہے
اور 1981 کے بعد سے اوپن لائن پر ریفرنڈم نہیں ہوا اور ادارے میں فالحال
کوئی سی ابی اے نہیں۔ اسطرح ملازمین اپنی پسندیدہ یونین منتخب کرنے کے اپنے
آئینی، قانونی و جمہوری حق سے محروم ہیں اور ادارے کی بحالی کے لیے یونین
کا حقیقی کردار موجود ہی نہیں۔ مزدوروں کے مسائل و مشکلات دن بدن بڑھ رہے
ہیں اور وہ گھٹن کا شکار ہیں ان حالات میں وہ سمجھتے ہیں کہ بالادست طبقہ
چیرہ دستیوں، مہنگائی، بیروزگاری، محرومی و محکومی، لوٹ مار، وسائل پر چند
لوگوں کے قبضے اور ورکنگ کلاس کے سات دہائیوں سے استحصال کے خلاف ایک بات
پھر 1886 جیسی جدوجہد ناگزیر ہے۔ |