عید کی آمد ہے اور جو رمضان المبارک میں لوٹ مار نہیں
کرسکے انہوں نے اب تیاریاں کرلی ہیں خاص کر ٹرانسپورٹ مافیا نے لٹی پٹی
عوام کو مزید لوٹنا شروع کردیا ہے اس پر پنجاب حکومت نے کیا حکمت عملی
اپنائی ہے اس پربعد میں کچھ لکھوں گا پہلے اس بحران کا ذکر کرلیتے ہیں جو
حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اگر یوں کہوں کہ ہم بحرانوں کے
بھنور میں پھنستے جارہے تو درست ہوگا کیونکہ حکومت الیکشن سے راہ فرار
اختیار کررہی ہے اور عدالت آئین پر عملدرآمد کروانا چاہتی ہے پاکستان بیک
وقت سیاسی، آئینی اور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے جس نے ہر باضمیر
پاکستانی کو پریشان کررکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تمام بحرانوں کا حل
یہی ہے کہ ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ہوں، شفاف انتخابات کیلئے ضروری ہے
کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کیلئے ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں ظاہر ہے
ایک تاریخ پر اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ
ہونا بھی ضروری ہیں ہر سیاسی لیڈر جب اقتدار میں آتا ہے تو اسکی خواہش ہوتی
ہے کہ ملک اور عوام اسکے اشاروں پر چلے ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ 23کروڑ
عوام اس ملک کے وارث ہیں اور ان کا فیصلہ ہی حتمی ہو گا اسی لیے تو
انتخابات میں سبھی جماعتیں حصہ لیتی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کی بقا ہی
عوام سے اعتماد حاصل کرنے میں ہے اور الیکشن کے حوالہ سے موجودہ بحران تب
ہی حل ہو سکے گا جب آئین پر عمل کیا جائے ورنہ تو اداروں کی مداخلت سے
مسائل حل ہوں گے نہ ہی باہر سے کوئی پاکستان کی مدد کو آئے گا ہماری موجودہ
سیاسی صورتحال کو دیکھ کر عالمی طاقتیں اور دوست ممالک اپنی ترجیحات طے
کرنے میں مصروف ہیں اوریہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اب
ہماری مدد کو نہیں آئے گا لہذا سیاسی جماعتوں کو انا اور ضد سے پیچھے ہٹنا
اور باوقار طریقہ کار اختیار کر کے ٹیبل پر بیٹھنا ہو گا اگر سیاسی جماعتیں
مل بیٹھیں تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی بہتر حل نکل آئے گا اور انتخابات کی
تاریخ پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا گذشتہ دنوں امیر جماعت اسلامی جناب
سراج الحق صاحب نے فرمایا تھا کہ آئندہ الیکشن میں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور
اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر غیر جانبدارہو جائیں، مرکز اور صوبوں میں نگران
حکومتوں کا قیام ہو اور ایک دن الیکشن ہوں تاکہ ملک خدانخواستہ خانہ جنگی
اور فساد کی کسی بھی ممکنہ صورت سے نجات حاصل کرے یہ ایک اچھی تجویز ہے مگر
ایسا ہو نہیں سکتا وہ اسٹبلشمنٹ جنہوں نے نہ صرف ہماری سیاست پر قبضہ کیا
ہوا ہے بلکہ اقتدار کی تقسیم بھی وہی کرتی ہے تو وہ کیسے پیچھے ہٹ سکتی ہے
ہاں ملکی سیاست میں انہیں بھی کوئی نہ کوئی حصہ دیدیا جائے تو کہ وہ پردے
کے پیچھے نہیں بلکہ سامنے آکر سیاست سیاست کھیلیں ہر سیاسی جماعت کی طرح
اسٹبلشمنٹ بھی اپنا منشور دے اور پھر منصفانہ الیکشن کروائے جائیں تاکہ
عوام ایسے پاکستان کی تشکیل کے لیے ووٹ دیں سکیں جہاں کرپشن، بدامنی نہ ہو،
ہر شخص کو عدل و انصاف ملے، ہر بچے کو تعلیم اور روزگار ملے، استحصال کا
خاتمہ ہو، ملک کے وسائل عوام پر خرچ ہوں ایسا پاکستان بن سکے جو ہم خوابوں
میں سوچتے ہیں کیونکہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں اﷲ تعالی نے پاکستان کو
بہترین زرعی زمین، معدنیات کی دولت، لائیو سٹاک، پانچ دریاؤں اور ذہین اور
محنتی افرادی قوت سے نوازا ہے جبکہ ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی غیرمنصفانہ
تقسیم، کرپشن، ناکام معیشت اور نااہل قیادت ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں
کہ یہ تمام کے تماممسائل ہماری حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں قوم کے 35سال
ڈکٹیٹروں جب کہ بقیہ عرصہ سیاسی جماعتوں کے نام نہاد جمہوری ادوار کی نظر
ہو گیا اور اس وقت بھی عملا ملک پر آئی ایم ایف کی حکومت ہے عالمی مالیاتی
ادارے ہدایات جاری کرتے ہیں اور اسلام آباد میں بیٹھے لوگ اسے بلا چوں چراں
نافذ کردیتے ہیں کیونکہ ان آقاؤں کی خوشنودی سے حاصل ہونے والا قرضہ حکمران
طبقہ خود ہضم کرجاتا ہے اور پھر قربانی غریبوں سے مانگی جاتی ہے ہونا تو یہ
چاہیے کہ جنہوں نے قرضہ لیا اور کھایا وہ خود ادا کریں غریب ہر بار قربانی
کیوں دے حکمران دولت کے انبار پر بیٹھے ہیں چند بڑے چار ہزار ارب کے اثاثوں
کے مالک ہیں اور غریب روٹی کے لیے ترس رہا ہے اور ہمیں سیاستدانوں نے ٹرک
کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے اپنے اپنے مفادات کی خاطر یہ سیاسی لوگ کبھی
ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہیں تو کبھی مفادات کی خاطر بغلگیر ہو جاتے ہیں
حالانکہ سیاست رواداری اور برداشت کا نام ہے لیکن اس وقت کوئی سیاستدان یا
اہم ادارہ ذرا سی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں ہے سیاست کو زندگی اور موت کی
جنگ بنا دیا گیا ہے جس سے ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور جی ڈی پی نصف فیصد
پر آگئی ہے خود پسند سیاستدانوں کو ملکی معیشت کے زوال سے کوئی غرض نہیں
کیونکہ بے روزگاری اور مہنگائی کا سارا بوجھ عوام اٹھا رہی ہے جن کا جینا
محال ہو چکا ہے ملکی معیشت مسلسل کمزور ہو رہی ہے اوراگرہوش کے ناخن نہ لئے
گئے تو اسکی تباہی کے بعد سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے کیونکہ یہ نقصان
انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہو گا اس لیے موجودہ کھیل میں شامل افراد
اوراداروں کومعلوم ہونا چائیے جبکہ عدلیہ کو سیاسی تنازعات میں ملوث کرنے
سے عدلیہ کی طاقت اورعزت بھی خطرے میں پڑ چکی ہے اس لیے اداروں کو تصادم کی
راہ پر جانے سے گریز کرنا چاہیے خاص کر اداروں میں بیٹھے لوگ عوام کے مسائل
سے لاتعلق ہوکرانھیں مسلسل تقسیم اور معاشرے کو تباہ کررہے ہیں، اخلاقیات
کا جنازہ نکال رہے ہیں اورملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب لکھنے میں مصروف ہیں
انہی لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں کبھی بھی معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں
رہا ہے۔ شرح سود، زرمبادلہ، افراط زر اور قوانین میں اتنی تیزی سے ردوبدل
کیا جاتا ہے کہ سرمایہ کار چکرا کررہ جاتے ہیں اوراہم فیصلے کرنے کے قابل
نہیں رہتے بہت سے انوسٹر ایسے حالات سے مایوس ہو کر ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں
مگر اس نقصان سے کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی لارج سکیل مینوفیکچرنگ
میں 11 فیصد کمی اور مختلف صنعتوں کی بندش اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لیے
ہمیں بطور محب وطن پاکستانی کے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے ورنہ لوٹ
مار تو رکنے کا نام نہیں لے رہی ابھی رمضان میں مہنگائی کا سامنا کیا ہے تو
عید کی چھٹیوں پر گھروں کو واپس جانے والوں سے ترانسپورٹر حضرات بھی حساب
برابر کرنے میں مصروف ہیں اور اس پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں نگران وزیر اعلی
محسن نقوی جنہوں نے عید الفطر کی آمد،صفائی وٹریفک کے بہترین انتظامات ،زائدکرائے
کی وصولی اورون ویلنگ کی روک تھام کے لیے انتظامیہ اورپولیس کو ٹارگٹس
دیدیے ہیں ایک اور اچھا کام محسن نے یہ بھی کیا ہے کہ مختلف پارکوں میں لگے
جھولوں کے معیار کو بھی کرنے کا کہہ دیا ہے ورنہ جھولہ ٹوٹنے سے بچوں کی
جانیں جاتی رہی ہیں امید ہے اس بار عید سعید خیرت سے گذر جائے گی ۔ |