جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ اُمید سحر

پاکستان کی عدالت عظمی کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دو دہائیوں سے خبروں کا مرکز رہے ہیں۔ یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالہ سے وکلاء و سیاسی جماعتوں کے ہمیشہ دو مختلف دھڑے رہے ہیں۔ ایک دھڑا آئین پاکستان ، قانون اور انصاف پر مبنی فیصلہ جات کے حوالہ سے انکامداح ہے ، جبکہ دوسرا دھڑا انکے فیصلوں کی وجہ سے ان سے بدظن رہتا ہے۔ بہرحال وقت نے کئی مرتبہ ثابت کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے ہمیشہ ہی حق پر مبنی رہے ہیں جسکی سب سے بڑی مثال مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تھا۔ اپریل 19اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع سے خطاب اور سوال و جواب کی نشست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاریخ پاکستان، پاکستان کی زبوں حالی کی وجوہات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ حوالہ کے طور پر درج ذیل چیدہ چیدہ نکات شامل تحریر کئے جارہے ہیں۔ آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملےگا۔انہوں نے کہا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد تک ہوتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ کو دہرایا، 1958،1971، 1977، 1999 میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو، تاریخ ہمیں سات سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا، 1958 میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگایا دیا، 1962میں اس شخص نے اپنا آئین بنالیا، 1965میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ایک اور ڈکٹیٹر کے حوالے کردیا، جس کے بعد 1971 میں ملک ٹوٹ گیا۔ دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے بیج بوئےگئے تھے، میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنےکا بیج بویا، پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر آنے کے کچھ عرصے بعد سمجھتا ہےکہ وہ تو اصل میں جمہوریت پسند ہے، ڈکٹیٹر ریفرنڈم کراتا ہے اور نتائج 98 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، ریفرنڈم کےبرعکس پاکستان میں زور وشور سے ہونے والے الیکشن کے نتائج کبھی60 فیصد سے زیادہ نہیں آتے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود حکومت اور پی این اے ایک میز پربیٹھے اور مسائل بھی حل کرلیے تھے، مگر 4 جولائی 77 میں ایک شخص مسلط ہوا اور قبضہ کرلیا ۔ آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کوبرطرف کرسکیں، 58 ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی، 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیے گئے۔12اکتوبر 1999میں ایک اور سرکاری ملازم نے سمجھا کہ اس سے بہتر کوئی نہیں، مشرف کا دوسرا وار 3 نومبر 2007 میں تھا جب ایمرجنسی نافذکی گئی۔انہوں نے کہا کہ آئین میں 184 تین کا لفظ استعمال ہوا ہے سوموٹو کا نہیں، آرٹیکل 184 تین سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ اختیار دیتا ہےکہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیےکوئی کام کیا جائے، 184 تین کی شق ان مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے،اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح۔قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ 184 تین کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، اگر اس شق کا استعمال مفاد عامہ میں نہ ہو تو اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لازم ہے کہ اس شق کو استعمال میں لاتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے، میری رائے کے مطابق 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، میرے دوستوں کی رائے ہےکہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، ایک رائے یہ بھی ہےکہ 184 تین کا استعمال ہو تو سپریم کورٹ کے تمام ججز اسے سنیں، شق بتادیں ، میری اصلاح ہوجائےگی میں آپ کےنظریہ پر چل سکوں گا۔قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں، آئین کا بڑا حوصلہ ہے جس پر کئی بار وار کیےگئے لیکن وہ آج بھی ویسے ہی کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائےگی۔ سب سے بری چیز تکبر اور اس کے بعد انا ہے، آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ کو دہرایا۔یاد رہے پاکستان میں قانون کے ہر طالب علم کو پاکستان کی آئینی تاریخ پڑھائی جاتی ہے مگر افسوس قانون کے رکھوالوں کی اکثریت عدالتوں میں پاکستان کی آئینی تاریخ کو بھول جاتی ہے۔ بہرحال جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صورت میں اک نئی اُمید سحر پید ا ہوئی ہے کہ ایک ایسا جج جو تاریخ کو سامنے رکھتا ہے اورہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا درس دیتا ہے۔مستقبل میں ہمیں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے پیشروجسٹس افتخار چوہدری اور بابا رحمتا ثاقب نثار کی طرح اندھا دھند جوڈیشل ایکٹوزم سے پرہیز کریں گے ۔کیونکہ ماضی میں چیف جسٹس کے عہدہ پر براجمان ہوکر کئی افراد اپنے آپکو آئین و قانون سے ماوراء اور عقل کل سمجھتے رہے ہیں۔

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.