درد کا درماں کرے کوئی۔۔

پاکستان کے سیاسی حالات مخدوشیت کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دوست ممالک بھی ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنے کے مشورے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب تک ہمارے قابل قدر سیاستدانوں کو ہوش آئے گا، پانی سر سے گزرچکا ہوگا۔

پاکستان کے حالات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس کی کئی وجوہات ہیں ، جس معاشرے میں سیاست منافع بخش کاروبار اور صنعت کا روپ اختیار کرلے اور لوگ سیاست کو انڈسٹری کی طرح ایک سرمایہ کاری سمجھ کر آئیں اور اس سرمایہ کاری پر منافع کمانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں تو ایسے میں انہیں دوسری صنعتیں لگانے اور روزگار کی کیونکر ضرورت رہے گی۔

پاکستان میں سیاسی میدان میں متوسط طبقے کے لوگوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ پیپلزپارٹی ہو یا نواز لیگ، ایم کیوایم ہو یا تحریک انصاف، کسی بھی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں اور کچن کیبنٹ کے قریب آپ کو کوئی متوسط طبقے کا رہنما کبھی نہیں ملے گا اور اگر غلطی سے کوئی لے بھی لیا جائے اس سے فقط گدھوں کی طرح کام لیا جاتاہے اور گلچھرے اڑانے کیلئے ارب پتی ہی ارد گرد منڈلاتے ہیں۔

پاکستان کی صورتحال دیکھتے ہوئے تمام امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں کیونکہ سیاستدانوں کا مطمع نظر اور قوانین صرف اور صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔

نیب قوانین کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حکمران دوبارہ عمران خان کے حکومت آنے کے خدشے کے پیش نظر گرفتاریوں کے خوف سے جلد از جلد نیب میں مزید ترامیم کرکے اپنے تمام کیسز کو ناصرف ختم بلکہ اس بات کا یقین کرنا چاہتے ہیں کہ دوبارہ انہیں نیب کے کیسز میں کوئی ہزیمت یا تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔

ان حالات میں پاکستان میں مسائل کے گرداب سے نکلنے کی کوئی راہ یا ارادہ دکھائی نہیں دیتا۔ چین کے علاوہ اگر کوئی دوسرا ملک پاکستان کے سیاسی حالات کے حوالے سے سوال اٹھاتا تو شاید اس کو ہم اندورنی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتے لیکن چین ہمارا دیرینہ دوست ہے اور اس کے خلوص پر ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں۔

چین کے کئی اسٹریٹجک مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں اس لئے چین کے مفادات کا تحفظ بھی پاکستان میں استحکام سے مشروط ہے، خطے میں بتدریج بڑھتے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کیلئے چین کی خواہش ہے کہ امریکا کی جانب سے چین کو محدود کرنے کی پالیسی کو ناکام بنایا جائے۔

چین نے کچھ برس پہلے بی آر آئی منصوبہ جس کا سی پیک بھی حصہ ہے شروع کیا اور جس پرہمارا ہمسایہ ملک ایک ٹریلین ڈالر کے قریب خرچ کرچکا ہے اور چین کے مستقبل کیلئے منصوبے میں پاکستان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے لیکن اگر سیاستدانوں نے صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو عوام اٹھ کھڑے ہونگے ۔
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا ، کبھی درپن نہیں ملتا

صورتحال مخدوشیت سے نکل کر ناسور کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے لیکن سیاستدان سچائی دیکھنے سے شاید قاصر ہیں۔اپنے سیاستدانوں کی تضحیک یا توہین قطعی ہمارا مقصد نہیں لیکن اس وقت جو حالات ہمیں درپیش ہیں ان کا حل نکالنا بھی ضروری ہے۔

پاکستان کے حالات کوسیاست سے جوڑا جائے تو ہمارے سامنے اٹلی کی مثال موجود ہے جہاں قلیل عرصہ میں درجن سے زائد بار حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن وہاں پالیسیوں میں تبدیلی ہوئی نہ معیشت کو چھیڑا گیا بلکہ سیاسی عدم استحکام کے باوجود ری اسٹرکچرنگ جاری رہی ہے اور معیشت کے معاملات پر سیاستدان آپس میں نہیں الجھے۔

90ء کی دہائی میں بھارت آئی ایم ایف سے قرض لے رہا تھا لیکن سیاسی معاملات کبھی معاشی معاملات کے مقابل نہیں آئے۔ جن ممالک میں جمہوریت ہے وہاں بھی تو سیاستدان ہیں لیکن وہ ملکی معاملات کو ذاتی مفادات کے آڑے نہیں آنے دیتے۔

دنیا کے جمہوری ممالک میں مہنگائی کی شرح 5 سے 9 فیصد ، پاکستان میں قلیل مدتی مہنگائی ادارہ شماریات کے مطابق 48 فیصد تک جاچکی ہے اور ہم سری لنکا سے بھی آگے جارہے ہیں اور گلی میں کھڑا ایک ٹھیلے والا بھی اس بات سے واقف ہے کہ حالات کے ذمہ دار خرابی سیاسی حالات ہیں۔

سیاست میں الزامات، لڑائی جھگڑے اور مفادات کا تحفظ کوئی انوکھی بات نہیں اور ہمیں اس سے کوئی غرض بھی نہیں لیکن ہمارے حالات تو بہتر کریں پھر آپس میں جیسے چاہیں دست و گریباں رہیں۔جب حالات بہتر نہیں ہونگے تو ہم کس کی طرف دیکھیں گے؟۔

اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہم کسی چیز پر ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، حکومت نے سستا پیٹرول اسکیم کا اعلان تو کیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوسکا اور اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ قرض سے پہلے واپسی کا طریقہ کار بتائیں۔ہم اپنے بجٹ میں اخراجات بھی آئی ایم ایف کی مرضی کیخلاف نہیں کرسکتے۔

حالات ہماری سوچ سے زیادہ خراب ہوتے جارہے ہیں ، گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس بار بھی خسارے کا بجٹ ہوگا اور پاکستان میں چونکہ الیکشن کا سال ہے اور آئی ایم ایف کو خدشات ہیں کہ حکمراں جماعتیں پیسہ سیاسی بجٹ پر نہ اڑادیں۔ پاکستان میں تاریخ میں پہلی بار حج کا کوٹہ واپس کیا گیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں۔

تمام تر مسائل اور مشکلات اور خدشات کے باوجود اب بھی سیاستدان حالات کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر رہے تو وقت ہاتھ سے نکل جائیگا اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 38549 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More