کسی ملک کے سلامتی، دفاع، معیشت و استحکام سے وابستہ
ماہرین اور پالیسی ساز اپنی لائف لائن کو نظر انداز کر کے ریاست کو امن و
خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے خواب دیکھیں تو اسے بلا شبہ دیوانے کے
خوابوں سے ہی تعبیر کیا جا ئے گا۔ کشمیر کو اگر پاکستان کی شہ رگ کہا گیا
تو بلاشبہ کشمیر کے بغیر پاکستان ایسے ہے جیسے نکتے کے بغیر نون۔ ادھورا
اور نامکمل۔ وقتاً فوقتاً یہ باز گشت سنائی دیتی ہے کہ پاکستان نے کشمیر کو
سرد خانے میں ڈال دیا۔ گو کہ ایسا کوئی احمق حکمران یا پالیسی سازسوچ سکتا
ہے، اس پر عمل ناممکن ہے۔
پاکستان کے دفاع کے مضبوط، انتہائی متحرک اور ناقابل تسخیر ہونے کی ایک
جھلک دنیانے چند برس قبل اس وقت دیکھی جب بھارت کی بالاکوٹ پر مہم جوئی کو
نہ صرف ناکام بنا دیا گیا بلکہ خود فریبی کے شکار ملک کے لڑاکا طیارے مار
گرائے گئے اور پائلٹ دھر لئے گئے۔پاکستان کی ذمہ دارانہ سفارتکاری بھی امن
اور ترقی کے لئے ہے۔مگربھارت آزاد کشمیر پر جارحیت،نسل کشی کے لئے مقبوضہ
کشمیر کے جموں خطے میں راجوری اور پونچھ جیسے بڑے سیکٹرز میں ہندو آبادی
میں اسلحہ تقسیم کر رہا ہے۔ خواتین اور بچوں تک کو جنگی تربیت دی جا رہی ہے
۔بھارتی مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت نے اعلان جنگ کیا ہوا ہے۔ ایسے میں
بھارت کے مفادات کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے کی کوئی بھی مفاد پرستی پر
مبنی حرکت نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتی ہے۔ مودی اور ٹرمپ نے عمران خان کو
بظاہر ثالثی کے جال میں پھنسا کر وہ کام کیا جو گزشتہ سات دہائیوں سے کوئی
نہ کر سکا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کی شناخت مٹا دی گئی۔ اس پرردعمل میں دو منٹ
کی خاموشی یا تقریروں سے کام چلایا گیا۔ بھارت گزشتہ ایک دہائی سے بھی
زیادہ عرصہ سے بہانہ بازی سے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے دروازے یک طرفہ
طور پر بند کر چکا ہے۔ اس نے پاکستان کو دنیا سے الگ اور تنہا کرنے ،
دہشتگرد قرار دینے، ناکام ریاست بنانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی سازش کی۔ پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کی
حکمت عملی اپنائی۔ ان ہی حالات میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا
اجلاس بھارت میں منعقد ہو رہا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری انڈیا میں
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔وہ
انڈیا کے شہر گوا میں ہونے والے اجلاس میں اپنے ملک کے وفد کی قیادت کریں
گے۔اجلاس 4 اور 5 مئی کو ہو گا۔ وزیر خارجہ اجلاس میں شرکت شنگھائی تعاون
تنظیم کے موجودہ چیئرمین اور انڈیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر کی
دعوت پر کر رہے ہیں۔ اجلاس میں شرکت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے ساتھ
پاکستان کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں خطے کو
کتنی اہمیت دیتا ہے۔ بلاول بھٹو نے شنگھائی کونسل آف فارن منسٹرز کے گزشتہ
اجلاس میں بھی شرکت کی جو تاشقند میں گزشتہ سال منعقدہوا ۔
شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی40فیصد آبادی پر مشتمل جنوبی اور وسطی ایشیا
میں پھیلی ایک بڑی تنظیم ہے۔ 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن
ممالک تھے جنہیں شنگھائی پانچ بھی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی اراکین میں چین،
روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔2001 میں ازبکستان بھی شامل
ہوا تو اس کا نام شنگھائی 5 سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ لیا گیا۔ اس وقت
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ ابتدا
میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا
تھا۔بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی و تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن
کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔ 2017 میں بھارت اور پاکستان کو بھی مستقل رکن
کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا جس کے بعد رکن ممالک کی
تعداد8 ہو چکی ہے۔ افغانستان بیلا روس، ایران اور منگولیا مبصر رکن ممالک
ہیں۔عودی عرب، مصر، قطر، نیپال، ترکی، آزربائیجان، ارمینیا، کمبوڈیا اور
سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں سربراہ اجلاس رواں برس انڈیا میں ہو رہا ہے۔
سربراہان مملکت کے اجلاس سے قبل وزرائے خارجہ کا اجلاس گووا میں ہو رہا ہے۔
بھارت اس سال شنگھائی تعاون تنظیم کے منتظم صدر کے فرائض انجام دے رہا
ہے۔انڈیا کی طرف سے باضابطہ طور پر جنوری میں اس اجلاس میں شرکت کے لئے
پاکستان کو مدعو کیا گیا ۔شنگھائی تعاون تنظیم کا دعوت نامہ بھجوانے کے تین
زریعے ہوتے ہیں۔ اول، میزبان ملک میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن / سفارت
خانے کے توسط سے پاکستان دفتر خارجہ کو مراسلہ یا دعوت نامہ پہنچایا جاتا
ہے۔دوم، میزبان ملک اپنے سفارت خانے کے توسط سے متعلقہ ملک کو دعوت نامہ
بھجواتا ہے۔سوم،شنگھائی تعاون تنظیم کا مرکزی سیکرٹیریٹ خود رکن ممالک کو
اجلاس کے دعوت نامے بھجواتا ہے۔یہ دعوت نامہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی
کمیشن کی جانب سے دیا گیا۔
2016 کے بعد کوئی بھی پاکستانی وزیر خارجہ پہلی مرتبہ بھارت کا دورہ کر رہا
ہے۔ سات سال قبل 2016 میں اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز انڈیا گئے تھے۔
وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے 13 اپریل 2023 کو سمرقند کا
دورہ کیا ۔ انہوں نے چوتھے وزارتی اجلاس میں شرکت کی اور افغانستان کے لئے
فوری انسانی امداد کی ضرورت پر زور دیا۔وزیر مملکت نے افغانستان میں زیادہ
سے زیادہ سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کے مقصد کی جانب پیش رفت، خطے کے لیے
پرامن افغانستان کی اہمیت اور وہاں امن و استحکام میں پڑوسی ممالک کے مفاد
اور حصہ داری پر زور دیا ۔ وزیر مملکت نے افغانستان پر چین، ایران، پاکستان
اور روس پر مشتمل چار فریقی گروپ کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔شنگھائی تعاون
تنظیم میں چین، انڈیا، روس، پاکستان اور چار وسطی ایشیائی ریاستیں شامل
ہیں۔سعودی کابینہ نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کی منظوری دی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے حوالے سے پاکستان کے مسلسل عزم اور
علاقائی تعاون کو مستحکم کرنے کے پاکستان کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔پاکستان
شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ اپنے دیرینہ عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تنظیم
کے اجلاسوں میں شرکت جاری رکھنے کا اعلان کر رہا ہے۔وفاقی وزیر برائے
موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق شنگھائی تعاون
تنظیم کے چوتھے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ یہ میٹنگ 18 اپریل 2023
کو نئی دہلی میں آن لائن فارمیٹ میں منعقد ہوئی تھی۔ چین کے وزیر دفاع لی
شانگ فو انڈیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود سکیورٹی اجلاس میں شرکت کے
لیے انڈیا پہنچے۔2020 میں ان دو ممالک کے فوجیوں کے درمیان شدید جھڑپ کے
بعد کسی چینی وزیر دفاع کا یہ پہلا انڈیا کا دورہ ہے۔ اس جھڑپ میں کم از کم
20 بھارتی اور چار چینی فوجی مارے گئے۔اس کے بعد سے فریقین کے درمیان دیگر
محاذ آرائیاں ہوئی ہیں، جن میں حالیہ ترین تصادم دسمبر میں شمال مشرقی
ریاست اروناچل پردیش کے توانگ میں ہوا ۔کشیدگی کی بنیادی وجہ بلندی والے
ہمالیائی خطے میں 3,440 کلومیٹر (2,100 میل) طویل متنازعہ سرحد ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ متعلقہ ممالک کے وفود کے سربراہوں سے ملاقات کریں گے
تاکہ بین الاقوامی اور علاقائی صورت حال کے ساتھ ساتھ دفاعی اور سکیورٹی
تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔چینی وزیر دفاع کی بھارتی وزیر
دفاع راج ناتھ سنگھ سے دہلی میں دو طرفہ ملاقات بھی اہم ہے۔بلاول بھٹو ایک
ایسے موقعے پر انڈیا جائیں گے جب چند ماہ قبل انہوں نے اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں
حقائق پر مبنی ایک بیان دیا ، جس پر انڈیا میں احتجاج ہوا اور بلاول بھٹو
زرداری کے بیان کو ’غیر مہذب‘ قرار دیا گیا۔انہوں نے اقوام متحدہ کے ایک
اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو ’گجرات کا
قصائی‘ کہہ کر پکارا تھا۔بی جے پی کے کارکنوں نے بلاول بھٹو زرداری کے خلاف
ممبئی اور دہلی میں مظاہرے کئے۔بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ میں
بریفنگ کے دوران اپنے انڈین ہم منصب کے اس بیان کا جواب دیا جس میں انہوں
نے پاکستان پر دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا
الزام عائد کیا تھا۔مظاہرین نے پاکستان مخالف نعرے بھی لگائے۔نئی دہلی میں
پاکستانی سفارت خانے کے باہر بھی بے جے پی کے کارکنوں نے مظاہرے
کئے۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری انڈیا سے معافی مانگیں اور
اپنے الفاظ واپس لیں۔بی جے پی نے اپنے بیان میں کہاکہ بلاول بھٹو کا بیان
انتہائی توہین آمیز اور بزدلانہ ہے اور یہ صرف اقتدار میں رہنے اور
(پاکستانی) حکومت کو بچانے کے لیے دیا گیا ہے۔‘پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی
ایک بیان میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو
’زعفرانی دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ہندوتوا کے نظریے نے نفرت
اور تقسیم کے ماحول کو جنم دیا ہے۔اس معاملے کی شروعات اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں ایس جے شنکر کے اس بیان سے ہوئی جس میں
انہوں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے اور انڈین پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ
بندی کرنے کا بے بنیاد الزام پاکستان پر لگایا۔اس کے جواب میں بلاول بھٹو
زرداری نے کہاکہ ’اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی(وزیر اعظم
مودی ) زندہ ہے ۔ ان کے وزیر اعظم بننے تک اس ملک (امریکہ) میں داخلے پر
پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ آر ایس ایس کے وزیر اعظم اور آر ایس ایس کے
وزیر خارجہ ہیں۔ آر ایس ایس کیا ہے؟ آر ایس ایس ہٹلر سے متاثرہ ہے۔ پاکستان
پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کے خلاف انڈیا میں مظاہروں اور پتلے
جلانے کے ردعمل میں ان کے مؤقف سے اظہار یک جہتی کے لیے مظاہروں کا اعلان
کیا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ میں ایک تاریخی حقیقت کا ذکر کر رہا تھا،
میں نے جو ریمارکس استعمال کئے وہ میرے نہیں تھے۔ میں نے نریندر مودی کو
’گجرات کے قصائی‘ کا ٹائٹل نہیں دیا۔ گجرات فسادات کے بعد انڈیا کے
مسلمانوں نے مودی کے لئے یہ اصطلاح استعمال کی۔ مجھے یقین تھا کہ میں
تاریخی حقیقت کا ذکر کر رہا ہوں اور وہ (مودی) سمجھتے ہیں کہ تاریخ کو
دہرانا ذاتی توہین ہے۔ نریندر مودی 2002 میں جب ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ
بنے ، تو اس دوران فرقہ وارانہ فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے
جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے مودی پر تشدد کی روک
تھام کے لئے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا۔ بی جے پی کے ایک رکن نے
مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کا سر قلم کرنے والے کو دو
کروڑ روپے انعام دیں گے۔ 2019 میں پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ کے
قریب انڈین فضائیہ کے حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات معطل
ہیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں کی گئی
ہیں۔متحدہ عرب امارات نے دونوں ملکوں میں ثالثی کی آخری کوشش 2021 میں کی
اور شہباز شریف نے بھی انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لئے ایک بار پھر
یو اے ای کی مدد مانگی ۔رواں سال کے شروع میں شہباز شریف نے کشمیر سمیت
تمام تصفیہ طلب امور پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ۔ 2019 کے آخر میں
دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا جب بھارت نے یکطرفہ طور پر
کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کردی۔ وزیراعظم شہباز شریف نیایک بار کہا کہ
نئی دہلی کے اقدامات کے نتیجے میں کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف
ورزیاں ہوئی ہیں۔ثمرقند میں 16 ستمبر 2022 کو شنگھائی تعاون تنظیم کے
سربراہی میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور انڈین وزیر اعظم نریندر
مودی بھی شریک ہوئے۔
یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ کیا پاکستان کو بھارت میں منعقد ہونے والے اس
اجلاس میں شرکت کرنا چاہیئے یا اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ شنگھائی تعاون
تنظیم کا فورم جتنا بھارت کا ہے اتنا پاکستان کا بھی ہے۔ اس سال بھارت میں
اجلاس ہے تو پاکستان کی بھی باری آئے گی۔ اس لئے بطور رکن ملک شرکت کرنے
میں کوئی قباحت نہیں۔ چین کے بھی انڈیا کے ساتھ سرحدیتنازعات ہیں۔ وہ بھی
اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔پاکستانی وزارت خارجہ نے انڈیا میں شنگھائی
تعاون تنظیم کی کانفرنس میں جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کی
تصدیق کی تو انڈین میڈیا نے اپنی حکومت کے اس موقف کا پرچار شروع کر دیا ہے
کہ پاکستان نے کشمیر کی غیر متنازع حیثیت کو اب تسلیم کرلیا ہے۔ بھارتی
میڈیا ان دنوں جنرل باجوہ سے منسوب ایک بیان کا چرچا کر رہا ہے کہ وہ مودی
کی میزبانی کی تیاری میں مصروف تھے اس سلسلے میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات
عامہ (آئی ایس پی آر) نے صاف طور پر کہا ہے کہ سابق آرمی چیف کے پاک فوج کی
جنگی صلاحیت سے متعلق بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ۔ وضاحتی
بیان میں کہا گیا کہ ’حال ہی میں میڈیا میں مخصوص اسلحے کے نظام کے حوالے
سے پاک فوج کی جنگی صلاحیت پر بحث چلتی رہی جو اس کا حصہ ہے‘۔بیان میں آئی
ایس پی آر نے کہا کہ ’سابق آرمی چیف کا پاکستان کو مستقبل کے خطرات پر
صحافیوں کو آف دی ریکارڈ سیشن میں دیا گیا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش
کیا گیا‘۔آئی ایس پی آر نے کہا ’’ ’فوج پاکستان کے عوام کو یقین دلاتی ہے
کہ ہمیں اپنی تیاریوں اور جنگی صلاحیت پر فخر ہے اور فخر کرتے رہیں
گ‘‘۔بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج نے مادر وطن کے دفاع کے
لیے ہمیشہ اپنے ہتھیار، آلات اور باہمت جنگی اہلکاروں کو تیار رکھا ہے اور
تیاریاں جاری رکھیں گے‘۔مبصرین سمجھتے ہیں کہ انڈیا نے آزاد کشمیر پر حملہ
کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، راجوری اور پونچھ میں حالیہ حملے، ہندو شہریوں
کو اسلحہ اور اس کی تربیت دینا اس کے واضح اشارے ہیں۔ ایسے میں بلاول بھٹو
زرداری کا دورہ بھارت اور ایس سی او وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کافی اہم
ہے۔ اس فورم پر ایک بار پھر پاکستان کو اپنا اصولی موقف پیش کرنے کا موقع
ملے گا۔ چونکہ یہ پاک بھارت کی خصوصی بات چیت نہیں ہے۔ یہ ایک فورم ہے جہاں
پاکستان شرکت کرتا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی بھارت میں اجلاس
میں شرکت سے دونوں ممالک کے مابین برف پگھل بھی سکتی ہے۔مگر ایسا نا ممکن
ہے۔ مودی ایک بار پھر الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ مودی اور ان کی جماعت بی
جے پی کی سیاست ہی پاکستان اور اسلام دشمنی کی بنیاد پر چمکتی ہے تو وہ
پاکستان کے ساتھ دوستی یا تجارت کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں۔رابطے بند
نہیں ہونے چاہییں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بیان دیا تھا کہ پاکستان بات
چیت کرنا چاہتا ہے۔مگر بھارت بات چیت کی خواہش کو کمزوری سمجھتا ہے۔ایس سی
او ایک بین الاقوامی فورم ہے جس کے پاکستان اور بھارت رکن ہیں۔ اس لئے
پاکستان شرکت سے انکار نہیں کر سکتا۔دونوں ممالک میں پس پردہ ڈپلومیسی بھی
چلتی رہی ہے۔ دونوں ممالک کے عہدیدار تیسرے ملک میں جا کر ملاقاتیں کرتے
رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔مگر بھارت پر باور کیا جائے
کہ وہ تنازعات کو حل کرنے سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا ہے۔بھارت اس سے
پہلے جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کو بھی یرغمال بنا چکا ہے۔ جس کا
مقصد کشمیریوں اور دنیا سے کئے گئے وعدوں سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
پاکستان آج بھی کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت کر رہا ہے
کیوں کہ وہ اس تنازعہ کا بنیادی فریق اور کشمیریوں کا وکیل ہے۔ یہ یقین سے
کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی باشعور پاکستانی کسی بھی صورت میں کشمیر کو
سردخانے میں ڈال کربھارتی مفادات کے لئے کام کرنے کا گمان تک نہیں کر
سکتا۔کشمیر اور پاکستان کو باہم متصادم کرنے کے لئے ان کے درمیان غلط
فہمیوں کی ایک دیوار کھڑی کی جا رہی ہے ، سب جانتے ہیں کہ لائف لائن اور شہ
رگ کاٹ کر کوئی کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔
|