ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں چین ،پاکستان اور
افغانستان کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا ہے جسے افغانستان میں امن و
استحکام کی کوششوں میں ایک اور کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔ماہرین سہ فریقی
تعاون کے اس میکانزم کو خطے میں امن و استحکام لانے اور افغانستان کی تعمیر
نو کے عمل میں انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین
بحران کے بعد سے عالمی سلامتی کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے اور تینوں ہمسایہ
ممالک کے لیے مشترکہ طور پر علاقائی سلامتی کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ سہ
فریقی میکانزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں ممالک مشترکہ طور پر سلامتی کے
چیلنجوں سے نمٹنے اور علاقائی اور ہاٹ اسپاٹ مسائل سے نمٹنے میں اس طرح کے
میکانزم کو معمول پر لانے کے خواہاں ہیں .
حالیہ عرصے میں چین کی جانب سے یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لیے پوزیشن
پیپر پیش کرنے اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی
کے لیے مذاکرات میں کامیابی کے ساتھ ثالثی کی گئی ہے۔اس تناظر میں چین کے
قیام امن کردار کی مزید توثیق ہوتی ہے اور سہ فریقی میکانزم میں بھی چین سے
وابستہ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان اور پاکستان
دونوں نے گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی
ایٹو پر عمل درآمد پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جو یقیناً علاقائی سلامتی اور
ترقی کے عمل میں سازگار ہے اور چین کے عالمی اقدامات پر اعتماد کا مظہر ہے۔
اس اجلاس کے دوران چین نے افغانستان اور پاکستان کے ساتھ سلامتی اور انسداد
دہشت گردی پر سہ فریقی تعاون کو مضبوط بنانے، مشترکہ، جامع، تعاون اور
پائیدار سلامتی کے وژن کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا۔ چین کی جانب سے واضح
کیا گیا کہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت سمیت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں "دوہرے معیار" کی بھی سختی سے مخالفت کی جائے۔اس ضمن میں چین سہ فریقی
تعاون کے طریقہ کار کے ذریعے افغانستان اور پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک
مواصلات اور پالیسی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے تاکہ اچھے
ہمسایہ تعلقات کو فروغ دیا جاسکے اور اسٹریٹجک باہمی اعتماد کو مزید آگے
بڑھایا جا سکے۔ ملاقات کے دوران تینوں وزرائے خارجہ نے اچھے ہمسایہ اور
دوستی کو برقرار رکھنے، سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے، ایک دوسرے کی
خودمختاری اور علاقائی احترام پر اتفاق کیا اور تینوں فریق متفق نظر آئے کہ
دیانتداری اور مساوی مشاورت کے ذریعے اختلافات اور تنازعات کو مناسب طریقے
سے حل کیا جائے۔تینوں وزرائے خارجہ نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں
مداخلت، افغانستان کے خلاف غیر قانونی یکطرفہ پابندیوں اور علاقائی امن و
استحکام کو نقصان پہنچانے والے تمام اقدامات کی مخالفت کرنے پر بھی زور
دیا۔اس سے قبل چین نے اپریل کے وسط میں 11 نکاتی پیپر جاری کیا تھا جس میں
افغان مسئلے پر اپنے موقف کی مکمل وضاحت کی گئی تھی اور جنگ زدہ ملک کی
تعمیر نو کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا گیا تھا۔یہ وہ موقف ہے جس کی
بنیاد پر افغان مسائل اور علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر مزید تعاون کو فروغ
دینے کے لئے ٹھوس اقدامات سے افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی میں مدد ملے
گی۔وسیع تناظر میں افغان مسئلے پر چین کے مؤقف کو جامع طور پر دیکھا جائے
تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ تعمیری، جامع اور فعال کردار ادا کر رہا ہے جس میں
افغان عبوری حکومت کے لیے اپنی توقعات اور امیدیں بھی شامل ہیں۔
سہ فریقی اجلاس کے علاوہ چینی وزیر خارجہ چھن گانگ کے دورہ پاکستان کے
دوران چین پاکستان وزرائے خارجہ کے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے چوتھے دور کا
مشترکہ طور پر انعقاد بھی کیا گیا۔اس حوالے سےفریقین نے ایک مرتبہ پھر واضح
پیغام دیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر
ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کریں گے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری میں
تعاون اور پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے گا ، جو یقیناً دونوں ممالک اور
علاقائی مفاد میں ہے۔
|