عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ابھی حال ہی میں اعلان
کیا کہ کووڈ-19 کے لیےگلوبل پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کو ختم کر دیا گیا ہے، جو
اس وبائی مرض کے علامتی خاتمے کا مضبوط اشارہ ہے۔ اس عالمگیر وبا نے 30
جنوری 2020 کو پہلی مرتبہ "کورونا وائرس بین الاقوامی بحران" قرار دینے کے
بعد سے دنیا بھر میں 6.9 ملین افراد کی جانیں لی ہیں اور 765 ملین انفیکشن
کا سبب بنا ہے۔ دیکھا جائے تو ڈبلیو ایچ او کا فیصلہ چار عوامل کی بنیاد پر
کیا گیا ہے جن میں وبائی صورتحال میں کمی، وائرس کی پیتھوجینیٹی اور
میوٹیشن کی یکساں خصوصیات، قدرتی انفیکشن اور فعال ویکسی نیشن کی وجہ سے
آبادی کی مدافعتی رکاوٹ اور مضبوط طبی علاج کی صلاحیتوں اور ویکسینز اور
ادویات کے ساتھ منظم ردعمل کی صلاحیت شامل ہے۔
دوسری جانب ایک ذمہ دار ملک کے طور پر چین نے واضح کیا ہے کہ کووڈ 19 کی
عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وبا کو مکمل
طور پر نظر انداز کر دیا جائے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ صلاحیتوں کے
ساتھ وبا سے پیدا ہونے والے خطرات کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ،
اور متعلقہ روک تھام اور کنٹرول کا کام جاری رکھا جائے۔چین نے 2022 کے آخر
میں کووڈ 19 کے اپنے انتظام کو مزید اپ گریڈ کیا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کے تازہ
ترین فیصلے سے سرحد پار نقل و حمل پر پابندیوں کو مزید کم یا ختم کیا جائے
گا اور تجارت، سیاحت اور تعلیمی تبادلوں کے لحاظ سے دنیا کے ساتھ چین کے
تبادلوں کو مزید فائدہ پہنچے گا، اور وبائی صورتحال کی روک تھام اور کنٹرول
کے کچھ اقدامات کی وجہ سے ہونے والے مسائل کو کم کیا جائے گا۔یہ سماجی اور
معاشی ترقی کے لئے بھی فائدہ مند ہے ، جس سے چین کو اپنی معیشت کو ترقی
دینے اور چینی عوام کے ذریعہ معاش کو بہتر بنانے کے لئے مزید توانائی اور
وقت ملے گا۔
چین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس
وبا پر قابو پانے اور عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے زیادہ اہدافی، موثر اور
کم خرچ اقدامات کرے گا۔یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا کہ کووڈ 19 کے
دوبارہ انفیکشن کو مزید موئثر اقدامات سے روکا جائے کیونکہ وائرس مسلسل
تبدیل ہو رہا ہے اور ملک بھر میں اس مرض کے کبھی کبھار کیسز سامنے آئے ہیں
اور اس بیماری کے نقصانات اب بھی موجود ہیں۔چینی طبی حکام کے نزدیک چین اور
باقی دنیا کے درمیان تبادلوں کے بعد اس وقت ملک میں اس وائرس کی سب سے بڑی
قسم ایکس بی بی ویرینٹس بن چکی ہے، جو پہلے سے موجود اومیکرون ویرینٹس کے
مقابلے میں زیادہ متعدی ہے ، لیکن ان کی پیتھوجینیٹی میں کوئی خاص تبدیلی
نہیں آئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین ملک میں پہلے ہی قائم کیے جانے والے
ملٹی چینل مانیٹرنگ اور ارلی وارننگ سسٹم کے ذریعے کووڈ 19 کے انفیکشن اور
کورونا وائرس کی میوٹیشن کی نگرانی جاری رکھے گا۔
چین اس حوالے سے واضح کر چکا ہے کہ کووڈ 19 انسانی معاشرے کا مشترکہ دشمن
ہے اور ڈبلیو ایچ او کا اعلامیہ وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں ایک اہم فتح
کی علامت ہے۔حقائق بتاتے ہیں کہ چینی حکومت نے ہمیشہ لوگوں کی زندگیوں اور
صحت کو اولیت دی ہے، سائنس پر مبنی اور درست اقدامات کے اصول پر عمل کیا
ہے، اور کووڈ 19 سے لڑنے کے عمل میں صورتحال کے مطابق وبا کی روک تھام اور
کنٹرول کے اقدامات کو بہتر اور ایڈجسٹ کیا ہے۔چین نے نہ صرف اپنے عوام کی
زندگیوں اور صحت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کیا ہے بلکہ کووڈ 19 ویکسین کو
عالمی عوامی بھلائی کی پروڈکٹ بنانے، ویکسین کی تحقیق اور ترقی کے لئے
دانشورانہ ملکیت کے حقوق سے استثنیٰ کی حمایت کرنے، ترقی پذیر ممالک کے
ساتھ ویکسین کی پیداوار میں تعاون شروع کرنے میں پہل کرتے ہوئے انسداد وبا
کے بین الاقوامی تعاون میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔چین نے اپنے عمل سے ثابت
کیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر صحت کا ایک ایسا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینا
چاہتا ہے جہاں ہر ملک کے پاس یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی بھی وبائی صورتحال سے
نمٹ سکے اور وہاں کے عوام کو کسی ترقی یافتہ ملک کی امداد کا انتظار نہ رہے
۔
|