سرکاری ہسپتالوں میں حکومتی سطح پر اصلاح ہر وقت جاری
رہتی ہے مگر کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس لئے کہ جو لوگ اصلاح کے ذمہ دار ہیں وہ
اپنا علاج پاکستانی ہسپتالوں میں کراتے ہی نہیں۔ ان کے لئے امریکہ اور
برطانیہ کے ہسپتال ہمیشہ چشم براہ ہوتے ہیں۔انہیں کاغذی کاروائی سے زیادہ
صھت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔پیسے والے لوگوں کا اب ایک مزاج بن گیا ہے کہ
وہ سرکاری کا مطلب لو ٹ مار ہی سمجھتے ہیں ۔ ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ پریکٹس
بڑھانے کے لئے ہسپتال کا نام استعمال کرتے ہیں،صبح وارڈ کا چکر لگایا اور
بس، دو تین بندے چھوڑے ہوتے ہیں جو علاج کے متلاشی لوگوں کو گھیر کر ان کے
پرائیویٹ کلینک تک پہنچاتے ہیں۔عملہ دوائیاں سرکاری مد میں خریدکر ارد گرد
کے دکانداروں کو بیچ دیتا ہے ۔چھوٹا سٹاف اگر کبھی آپ کو پالا پڑا ہو تو
پتہ چلتا ہے کہ وہ بات کرتے ہوئے بدتمیزی کی انتہا کو چھوتا ہے ہاں تھوڑی
چمک دکھا دیں تو ان جیسا فرمانبردار کوئی نہیں۔ وہ عملہ خالص پہہیوں پر
چلتا ہے۔ہسپتال میں آدمی مجبوری کی حالت میں جاتا ہے اور وہاں کے ڈاکٹر اور
وہاں کا عملہ آپ کی مجبوری سے مکمل فائدہ اٹھاتا ہے۔
مجھے ایکسرے کروانا تھا۔ میں چونکہ سرکاری ملازم رہا ہوں اس لئے سرکاری
ہسپتال سے علاج میرا استحقاق ہے۔میں نے اپنے ایک ریڈیالوجسٹ دوست سے کہا کہ
میں اس مقصد کے لئے ہسپتال تمہارے پاس آرہا ہوں۔ اس نے ہنس کر کہا، ان
پچھلی صدی کی مشینوں پر ایکسرے کرانے کا فائدہ۔تھوڑے سے پیسے خرچ کرو اور
ڈیجیٹل ایکسرے کراؤ۔ میں نے پوچھا کہ اتنا جدید ہسپتال اور ڈیجیٹل ایکسرے
کی مشین نہیں، ایسا کیوں ہے ۔ ہنس کر بولا، کس کس کو بے نقاب کروں مجھے
ابھی چند سال مزید ملازمت کرنی ہے۔ویسے بھی ہسپتال میں جو مسکین مریض آتے
ہیں جو علاج کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لئے ایسے ایکسرے مفت ہو جانا بھی
ایک نعمت ہے۔ تمہیں مشورہ اس لئے دیا ہے کہ تم تھوڑے سے پیسے خرچ کر سکتے
ہو، اس لئے بہتر اور جدید چیز سے استفادہ کرو۔یاد رکھو،سارے ملک میں
خریداری کے لئے ظاہری بجٹ کچھ اور ہوتا ہے جس کے کئی حصہ دار ہوتے ہیں ۔
کمیشنیں اور دیگر اخراجات کے لین دین کے بعد جو اصلی بجٹ رہ جاتا ہے، وہ
کچھ اور ہوتا ہے۔ اس اصلی بجٹ سے اس سے بہتر مشینیں خریدی نہیں جا سکتیں۔
سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی کے حوالے سے مجھے ایک پرانا ذاتی واقعہ یاد
آیا۔ ان دنوں مجھے کچھ دل کا روگ لاحق تھا۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ سردیوں
کے دن تھے اور پرائیویٹ ادارے اس وقت بند تھے۔ ای۔سی۔جی کرانے اپنی بیگم کے
ہمراہ میں ایک قریبی سرکاری ہسپتال پہنچ گیا۔ ایمرجنسی میں کیا کمال
ایمرجنسی تھی۔ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے تھے۔ گندی خون آلود چادریں ،
لوگ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ایک ڈاکٹر کو میں نے تعارف کرایا تو اس نے
پندرہ منٹ کی جدوجہد کے بعد ایک بیڈ خالی کروایا۔ انتہائی گندہ بیڈ ، میں
نے دوبارہ کہا تو ایک صفائی والا آیا ، چادر کو جھاڑا ، دائیں جائیں کی اور
کہنے لگا، گزارا کریں ، اس وقت سٹور بند ہے ، نئی نہیں مل سکتی۔ مجبوری میں
لیٹ گیا۔ بارہ بجنے میں ابھی دس منٹ تھے تو ایک ای سی جی کرنے والا بمعہ
مشین آ گیا۔میری قمیض اوپر کی اور پیٹ اور ٹانگوں پر ایک سلوشن لگایا اور
ای سی جی مشین کے ربڑ ان پر لگانے لگا۔ ابھی چند ربڑ لگانے باقی تھے کہ اس
نے گھڑی کو دیکھا۔بارہ بج رہے تھے۔ایک دم وہ مڑا اور تیزی سے ایمرجنسی وارڈ
سے باہر نکل گیا۔میں بیچ میں پھنسا ہوا تھا، مگر وہ واپس نہیں آرہا تھا۔ ۔
تنگ آکر میں اور میرے ساتھ میری بیگم سب سے کہنے لگے کہ اسے بلایا جائے۔ وہ
مہربان ڈاکٹر جس نے مجھے پہلے بھی اکاموڈیٹ کیا تھا، کہنے لگا کہ میں اسے
بلاتا ہوں۔تھوڑی دیر میں پتہ چلا کہ بارہ بجے اس کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو گیا
ہے اس لئے وہ گھر چلا گیا ہے۔اس کی جگہ جس نے آنا تھا وہ ابھی تک نہیں آیا
تھا۔ پتہ چلا کہ وہ آنے والا عموماً دو گھنٹے لیٹ آتا ہے۔ کسی سینئر ڈاکٹر
کے ساتھ شام کو کام کرتا ہے ۔ رات بارہ بجے فارغ ہو کر گھر جاتا، کھانا
کھاتا اور جب موڈ آئے آ جاتا ہے۔ چونکہ بڑے ڈاکٹر کا خاص آدمی ہے اس لئے اب
ڈر کاہے کا۔
ڈاکٹر نے نرسوں سے پوچھا کہ کسی کو ای سی جی مشین چلانی آتی ہو۔ ایک نرس
آئی کہ میں دیکھتی ہوں۔ سارا کام نئے سرے سے شروع ہوا۔ میرے جسم پر ربڑ
اٹکائے گئے اور پھر مشین چلانے کی کوشش کی گئی مگر مشین انکاری تھی۔ نرس نے
مشین کو ایک سرجن کی طرح دیکھا۔ اس کے اوپر ایک پن تھی جو دائیں بائیں حرکت
کرتی تھی مگر اس وقت وہ پن حرکت سے انکاری تھی۔ نرس نے نشانہ لے کر اس پن
کو زور سے انگلی ماری۔پن اڑ کر کہیں دور جا گری۔ اب شور مچ گیا کہ پن
ڈھونڈو۔ چھوٹی سی پن تھی بمشکل ملی مگر کیسے اور کہاں لگانی ہے ، سارے
ڈاکٹر اور نرسیں مریضوں کو چھوڑ کر اسے لگانے لگے۔ ناکامی کے بعد نئی مشین
منگوانے کی کوشش بھی ناکام رہی کہ سٹور صبح کھلے گا۔ مجھے لیٹے دو گھنٹے
گزر چکے تھے اور میں اپنے دل کو بھول کر صورت حال کا مزہ لے رہا تھا۔ میں
نے ڈاکٹر سے استدعا کی کہ مجھے رہا کر دیا جائے کیونکہ ان کی حرکتوں نے دل
کو کافی تقویت دی ہے اور اب میں ٹھیک ہوں۔ماشا اﷲکیا اچھی کارکردگی ہے۔
کہتے ہیں دو پرانے کلاس فیلو ز کی ایک ہسپتال کے گیٹ پر ملاقات ہو
گئی۔دونوں بڑے تپاک سے ملے۔ دونوں ہی بیمار تھے اور علاج کے لئے ہسپتال آئے
تھے۔دونوں کے حلئے سے لگتا تھا کہ ایک امیر آدمی ہے اور دوسرا غریب۔ابتدائی
گفتگو کے بعد دونوں ہسپتال میں داخل ہوئے ۔ استقبالیہ والوں نے ایک گیٹ کی
طرف بھیج دیا۔ دونوں اندر داخل ہوئے تو سامنے دو گیٹ تھے۔ ایک پر سرجیکل
اور دوسرے پر نان سرجیکل لکھا تھا۔ انہیں سرجری سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
دونوں نان سرجیکل والے گیٹ میں داخل ہو گئے۔ یہ بھی ایک ہال تھا ۔ سامنے دو
گیٹ تھے۔ ایک پر ان ڈور اور دوسرے پر آوٹ ڈور لکھا تھا۔دونوں آوٹ ڈور والے
گیٹ میں داخل ہو گئے۔ اس کمرے کے سامنے بھی دو گیٹ تھے۔ ایک پر لکھا تھا،
پچاس ہزار سے زائد آمدن والے اور دوسرے پر لکھا تھا ، پچاس ہزار سے کم آمدن
والے۔یہ طبقاتی تقسیم تھی جس نے دونوں کو جدا کر دیا۔امیر آدمی پچاس ہزار
سے زائد آمدن والے گیٹ میں داخل ہوا۔ یہ ایک بڑا ہال تھا۔ ایک طرف ڈاکٹر
صاحب کی میز لگی تھی اور کمرے میں ان کی بجائے ان کا ایک سماارٹ سا اسٹنٹ
موجود تھا۔اس نے آمدن کا پھر پوچھا اورکہنے لگا کہ جناب آپ جانتے ہیں یہاں
ہسپتال میں جو مریض ہوتے ہیں، کس قدر ان کا رویہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر
صاحب وارڈ کا چکر لگا کربہت تھک گئے تھے۔ اسلئے گھر چلے گئے ہیں۔ مگر آپ
فکر نہ کریں وہ تین بجے اپنے گھر پر کلینک میں موجود ہوں گے۔ آپ کو میں
پانچ بجے کا وقت دے رہا ہوں ۔ آپ وہاں اطمینان سے ڈاکٹر صاحب کو دکھائیں۔
معمولی سی فقط تین ہزار فیس ہے۔ آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ،اس سر درد سے تو
بہت بہتر ہے ۔فیس ابھی ادا کر دیں تاکہ میں وقت کنفرم کر دوں۔غریب آدمی جس
گیٹ میں داخل ہوا وہ ایک لمبی ڈیوڑھی تھی۔ اس کے خاتمے پر ایک کھلا گیٹ تھا
۔ او !یہ تو سڑک آ گئی اس نے پریشانی سے دیکھا۔ ساتھ ہی بورڈ لگا تھا۔ سڑک
پر آمنے سامنے دو سٹاپ ہیں آپ جس طرف جانا چائیں یہاں سے چند منٹوں میں بس
مل جائے گی۔ |