تحریر:قاری عبیدالرحمن قریشی
تقسیم ہندکے بعد وطن عزیزکے دیگرمسائل کی طرح دستورسازی ایک بڑااوراہم
مسئلہ تھا۔ابتدا سے اس کیلئے بڑی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئیں ۔1948میں
قراردادمقاصد ملکی جہت اوردستورکاڈھانچہ مقررکرنے کی طرف ایک بڑاقدم تھا۔ان
کوششوں کے باوجودملک کیلئے جلددستوراپنے نفاذکے ڈھائی سال بعدختم
کردیاگیا۔اس کے بعداس پارلیمانی دستورکوصدارتی بنانے کیلئے جنرل ایوب خان
نے کوشش شروع کی پھر1962میں نیادستوربنا1970ء کے الیکشن میں بننے والی
حکومت نے فیصلہ کیاکہ ملک کو ایک پائیدار،لچکداراورجمہوری دستوردیاجائے گا
اوراس کیلئے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹونے آئینی ماہرین پارلیمنٹ
کی رکنیت رکھنے والی جماعتوں کے نمائندوں پرمشتمل ایک پچیس رکنی کمیٹی
تشکیل دی ۔اس کمیٹی نے د ن رات محنت کرکے 1973کووطن عزیزکوایک
پائیدار،بنیادی حقوق کامحافظ پارلیمانی اوروفاقی طرزکادستوردیا۔اس دستورمیں
قومی زبان اردواورسرکاری مذہب اسلام قراردیا۔دستورکوتوڑنے والے کی سزا موت
رکھی گئی ۔ مولانامفتی محمود،نوابزادہ نصراﷲ خان ،عبدالولی خان ،پروفیسر
غفور،مولاناشاہ احمد نورانی،مولاناغلام غوث ہزاروی اوردیگرقائدین نے 1973کے
متفقہ آئین بنانے میں اہم کرداراداکیا۔ بارباردستورتوڑنے کے عمل کوروکنے
کیلئے اسے لچکداررکھاگیا۔تاکہ اگرمستقبل کی حکومتیں دستورمیں تبدیلی کرنی
چاہیے تووہ ترامیم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی لاسکتی ہیں۔اوریہ عمل
دستورمیں بڑاآسان رکھا۔اس دستورکولچکداراوتحریر(یعنی ترمیم سازی کی آسانی
اورہرسطح کی حکومتوں اوراداروں کے اختیارات دستورمیں واضح لکھ دیئے گئے )بنانے
میں خلوص اورعوامی مفادکاجذبہ کارفرماتھا۔مگرافسوس اسے وقت کے آمریت تحفظات
اورمقاصد کیلئے مسخ کرناشروع کیا۔اورپھرسب سے پہلے جنرل ضیا الحق نے مارشل
لا لگاکرجمہوری حکومت کاتختہ الٹ دیاگیا ۔اور اپنی آمریت کودستورسے ہم آہنگ
کرنے کیلئے ترامیم شروع کردی ۔صدرکے اختیارات بڑھانے اوروزیراعظم کے
اختیارات کم اورمحدودکرنے کیلئے ترامیم کی گئی ۔ضیا الحق کے حکومت کونظریہ
ضرورت کے تحت عدلیہ نے غیرآئینی طریقے سے تحفظ فراہم کیا۔ان مارشل لاؤں کے
دورمیں اسلام اورجمہوریت کوبڑانقصان پہنچایاگیا۔ان ادوارمیں اسلامی
اورجمہوری روایات کوپامال کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ضیا الحق کے پہلے
مارشل لاکے ملک میں مذہبی منافرت اورفرقہ واریت عروج پرپہنچیں۔ بلکہ ان کے
دورمیں فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والی تنظیموں کوپروان چڑھایاگیا۔اوراس کے
دورکی پیداکردہ مذہبی منافرت آج بھی ہمارے معاشرے میں پنپ رہی ہے ۔بلکہ
بیرون ممالک آج بھی ملک میں فرقہ وارانہ تنظیموں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے
۔ملکی وحدت کیلئے سیاسی اورمذہبی منافرت نقصان دہ ہے۔ضیا الحق کے آمرانہ
دورکے بعد 1988میں انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی
حکومتیں بنتی رہیں ۔ جنرل پرویز مشرف 1999 میں وفاقی حکومت کے کامیاب فوجی
قبضے کے بعد پاکستان کے دسویں صدر بنے۔مشرف نے پاکستان کو امریکہ کی غلامی
میں دکھیل کرپاکستان کے نظریہ اورپاکستانی عوام کیساتھ ایک تاریخی ظلم
کیاہے۔مشرف نے ملک کی نظریاتی اساس کو سبوتاژکرنے کی کوشش کی ۔اس
کادورپاکستان کی تاریخ کاایک سیاہ ترین دورتھاکہ اس نے ملک کے آئین جس میں
قرآن وسنت کی بالادستی کی بات ماننے کے بجائے امریکہ کے ہرجائز ناجائز
حکموں پرسرتسلیم خم ہوتے رہے ۔اورسیاسی جماعتیں بھی ترامیم کرنے میں آمروں
سے پیچھے نہیں رہیں ۔اس وقت اس دستورمیں پچیس کے قریب ترامیم ہوچکی ہیں ۔اختیارات
اورحقوق کے سامنے دستورکوترامیم کی نظرکیاجاتارہا۔پچھلی حکومت (پاکستان
تحریک انصاف )بھی ایک مزیدترمیم کرنے کیلئے کوشاں تھی ۔ملک کوایک
بارپھرصدارتی نظام کی طرف لے جانے کی کوشش ہونے لگی ۔کسی بھی ملک کے
دستورمیں اس قدرترمیم نہیں کی گئی ۔ان ترامیم کے سلسلوں کو
روکناہوگا۔پائیداردستورکیلئے پائیداراوردوراندیش فیصلے ہونے چاہیے ۔جمہوریت
کی گاڑی کوکبھی بھی پٹڑی سے نہیں اترنے دیاجائے ۔
1973ء کادستورپچاس سال پورے کرچکاہے۔وقت کے طوفانوں کاسامناکیا۔اسے ہلانے
اورمن پسند ترامیم کی کوششیں ہوئیں مگریہ آئین پوری آب وتاب کے ساتھ
کارفرماہے ۔تحریری طورپرتومکمل نافذالعمل ہے مگرعملی اعتبارسے بہت کمزوری
ہے۔اس آئین میں لکھاہواہے کہ ملک کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہ
ہوگا۔مگرملک کے تمام شعبوں میں 1935انگریز دورکاسامراجی دستورلاگوہے ۔ہماری
عدالتیں 1973ء کے آئین کے برعکس کام کررہی ہیں۔یہ ایک بڑاافسوس ناک
پہلوہے۔پی ڈی ایم کی حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ عدالتوں
اورہمارے آئین میں 1935کے ترامیم کوختم کرکے اسلامی قوانین کونافذالعمل
کریں یہ 1973کے متفقہ آئین کاتقاضہ ہے۔ہمارے حکمران اس آئین کی پاسداری
کاحلف اٹھاتے ہیں۔توحکمرانوں پریہ ذمہ داری عائدہوتی ہے۔کہ وہ ملک کے
اندرانگریزدورکے رائج قوانین کوختم کرکے اس کی جگہ قرآن وسنت کے نظام
کونافذکرے تاکہ ملک کواضطراب ،بدامنی اورلاقانونیت سے
بچایاجاسکیں۔اورپاکستان حقیقی معنوں میں امن کاگہوارہ اس وقت ہی بن سکتاہے
جب تک ہم انگریزکے فرسودہ نظام کوختم نہیں کریں گے اوراس کی جگہ پر1973کے
آئین کے اسلامی دفعات کے نفاذنہیں کریں گے ۔بنیادی حقوق کی فراہمی نہ ہونے
کے برابرہے ۔اس دستورکے نافذالعمل ہونے میں جوبھی رکاوٹیں ہیں اورجومسائل
آڑے ہیں موجودہ پارلیمنٹ کواس کاحل نکالناچاہیے ۔اس دستورکوتحریرکی حدتک
نہیں رکھنابلکے ایک مکمل عملی دستوربناناہے ۔ملک کے سیاسی معاشی اورسماجی
وعدالتی شعبوں کواس کے ماتحت لاناہے ۔اس دستورکے زیرسایہ زندگی کاتمام نظام
چلاناہے ۔یہی دستورکاتقاضاہے اوریہی وطن عزیزکاتقاضاہے اﷲ کریم ہمیں اس
اسلامی دستورکومکمل نافذالعمل کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین
|