شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت
میں لکھتے ہیں کہ ایک شاعر نے ایک قصیدہ لکھا اور انعام واکرام کی توقع لے
کر چوروں کی بستی میں ان کے سردار کے پاس گیا سردار نے قصیدہ سننے کے بعد
حکم دیا کہ اس شاعر کے کپڑے اُتار لواور بستی سے باہر نکال دو چوروں نے
ایساہی کیا ننگ دھڑنگ شاعر مکان سے باہر نکلا تو گلی کے کتے بھونکتے ہوئے
اس کی طرف لپکے اس نے انہیں ڈرانے کیلئے پتھر اٹھانا چاہا تو پتہ چلاکہ برف
باری کی وجہ سے پتھر جمے ہوئے ہیں یہ دیکھ کر شاعر چلایا ۔
”یہ کیسے ظالموں کی بستی ہے کہ انہوںنے کتوں کو کھول رکھا ہے اور پتھروں کو
باندھ رکھا ہے “۔
چوروں کا سردار کھڑکی سے یہ ماجرادیکھ رہا تھا اس نے شاعر کی یہ بات سنی تو
کہا مجھ سے کچھ مانگ شاعر نے کہا کہ انسان کو انسان سے بھلائی کی امید ہوتی
ہے تو اگر مجھے بھلائی نہیں پہنچاسکتا تو خدارا مجھے آزار بھی نہ دے اور
میرے لیے تیر ی یہی مہربانی کافی ہے تو میرے کپڑے لوٹا دے ۔
چوروں کے سردار کو اس پر رحم آگیا اس نے ساتھیوںسے کہا کہ اس کے کپڑے واپس
کرو اور ہماری طرف سے کچھ درہم اور پوستین بھی دے دو۔
شیخ سعدی ؒ اس حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ بروں سے بھلائی کی
امیدرکھتے ہیں وہ فائدہ کی جگہ نقصان اُٹھاتے ہیں ساتھ ہی ضمناً یہ تحریر
کرتے ہیں کہ حُسن بیان انسان کی ایسی خوبی ہے کہ سنگ دلوں پر بھی اس کا اثر
ہوتا ہے ۔
قارئین صوبہ خیبرپختواہ خواہ او رصوبہ بلوچستان میں آتش وخون کا کھیل
دیکھتے ہوئے اور لہوروتے ہوئے ابھی دل مضطرب ہی تھا کہ کراچی اور صوبہ سندھ
میں شعبان او ررمضان کے مہینے میں ہونے والے واقعات اور پانچ سو کے قریب
معصوم انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ نے 18کروڑ پاکستانیوں کو دہشت زدہ کرکے رکھ
دیا وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی ایوان صدر سے ملنے والی ہدایات
کے مطابق کراچی پہنچے اور بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلرز کی طرف سے یرغمال
بنائے گئے اہلیان کراچی کے دکھوں کے مداوے کیلئے ایم کیوایم ،اے این پی
،قوم پرستوں اور تاجروں سمیت سب طبقات سے بات اور مذاکرات کرنے کی کوشش کی
اور انہی کی صدارت میں ہونے والی ایک میٹنگ میں سابق وزیر داخلہ سندھ
ذوالفقارمرزا پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک کے خلاف پھٹ پڑے اور انہوں نے
ایک بہت بڑی فہرست وزیر اعظم کے سامنے رکھ دی جن میں دستاویزی ثبوت موجود
تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں رحمان ملک بھی
کوئی کردار رکھتے ہیں یہ ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کا خیال تھا جس سے وزیر اعظم
سیدیوسف رضا گیلانی نے اتفاق نہ کیا اور اسی رات ایوان صدر سے ڈاکٹر
ذوالفقارمرزا کو کراچی سے اسلام آبادطلب کرلیا گیا اور شنید کے مطابق آصف
علی زرداری صدرپاکستان نے اپنے قریبی دوست ڈاکٹر مرزا کو سخت تنبیہ کی اور
رحمان ملک کے خلاف الزامات لگانے سے منع کیا ،یہ قصہ یہاں ختم نہ ہوا ڈاکٹر
مرزا کراچی واپس پہنچے اور رمضان کے آخری عشرے میں انہوں نے کراچی میں ایک
پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیوایم ،رحمان ملک اور دیگر چند قوتوں کو
پاکستان توڑنے کی سازش میں ملوث قرار دیا اور میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو
بتایا کہ ان کے پاس ان تمام الزامات کے دستاویزی ثبوت بھی موجودہیں اور
رحمان ملک اس وقت پاکستان کے پراسرار ترین انسان ہیں یہ ڈاکٹر مرزا ہی کا
کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کس وجہ سے
رحمان ملک کو برداشت کررہے ہیں ان کی گھنٹوں کی طویل پریس کانفرنس میں
میڈیا نے ان سے سوالات بھی کیے اور ڈاکٹر مرزا نے اس دوران سر پر قرآن رکھ
کر اپنی سچائی کا یقین دلانے کی کوشش کی اور قائد ایم کیو ایم الطاف حسین
کو امریکہ کے اشاروں پر پاکستان توڑنے کے منصوبے پر عمل کرنے والا انسان
قرار دیا ۔
قارئین میڈیاابھی ڈاکٹر مرزا کی طوفانی پریس کانفرنس پر تبصرے او رتجزیے
کرنے میں مصروف تھا کہ سنگ دلوں کے شہر کے ایک اور رہنما قائد ایم کیو ایم
الطاف حسین نے لندن سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے
پاکستانی عدلیہ ،افواج پاکستان اور سکیورٹی کے اداروں کو دعوت دی کہ وہ
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے اپنا کردار اداکریں ان کے خطاب
کی خوفناک ترین بات وہ انکشاف تھا کہ جس کے مطابق بلوچستان اور سندھ کو
علیحدہ ممالک بنانے اور صوبہ خیبرپختون خواہ کو افغانستان میں ضم کرنے کی
بین الاقوامی سازش کو آشکارکیا گیا الطاف حسین نے اس ٹیلی کانفرنس میں میاں
محمد نواز شریف ،آصف علی زرداری ،اے این پی ،جماعت اسلامی سمیت دیگر شخصیات
کو مختلف القابات سے بھی نوازا اور یہ بھی کہا کہ کراچی میں مہاجروں کاقتل
عام کیا جارہا ہے انہوںنے مختلف علاقوں میں ہونے والے مہاجروں کے قتل کی
وڈیو فلمز دیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے آرمی اور عدلیہ کو کہا کہ وہ اپنا
کردار اداکریں ان کی یہ ٹیلی کانفرنس ایسی آتشیں تھی کہ پاکستانی میڈیا ایک
طوفان کی زد میں دوبارہ آگیا اور ابھی تک لہر در لہر عمل اور ردعمل کا
سلسلہ جاری ہے ۔
قارئین شیخ سعدی ؒ کی بیان کردہ حکایت کے مطابق کراچی جو پاکستان کی ستر
فیصد تجارت اور وسائل کا مرکزہے وہ اسوقت چوروں کی بستی بن چکا ہے اور
اتفاق کی با ت ہے کہ سکیورٹی کا انتظام کرنے والے اداروں کے ہاتھ باندھ کر
انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے والے کتوں کو کھلاچھوڑ دیا گیا ہے ،رینجر ز
،پولیس ،ایف سی کے ساتھ ساتھ میڈیا پر کھلے حملے کیے جارہے ہیں اور جوابی
کاروائی کی اجازت نہیں دی جارہی پوری قوم حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہی ہے
1971ءکے حادثے کی اگلی قسط کاخطرہ موجود ہے اور زبانی کلامی باتوں اور
دعووں کے علاوہ کچھ نہیں کیا جارہا ہم یہاں آج کے کالم کی وساطت سے پاکستان
پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم ،اے این
پی ،جماعت اسلامی ،جمعیت علمائے اسلام ،تحریک انصاف ،سندھی قوم پرست
جماعتوں اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ خدارا
پاکستان کو بچالیں اگر اس اللہ کے تحفے کے ساتھ براسلوک کیا گیا اور اس کی
قدر نہ کی گئی تو انجام کتنا خوفناک ہوگا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا
سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان کے تحفظ کی علامت افواج پاکستان او
رچیف آف آرمی سٹاف سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا موثر ترین کردار ادا
کریں اس وقت میڈیا چاہے ان کا تعلق اخبارات کے ساتھ ہے یا ٹی وی چینلز کے
ساتھ ہے ان کے متعلقین انتہائی خوف کی فضامیں اپنی ذمہ داریاں اداکررہے ہیں
اور سچ بیان کرتے ہوئے جان تک کا خطرہ مول لینا پڑرہا ہے بقول غالب
گھر ہمار اجو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر،گربحر نہ ہوتا ،تو بیاباں ہوتا
تنگئی دل کا گلہ کیا ،یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشان ہوتا
قارئین یہاں ہم ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ پاکستان کے خلاف یہ سازشیں
انٹرنیشنل پلیئرز گزشتہ تیرہ سالوں سے کررہے ہیں 1998ءمیں میاں محمد نواز
شریف ایٹمی دھماکے کرتے ہوئے پاکستان کو پوری دنیا میں پہلی اسلامی جوہری
قوت کے طور پر متعارف کروایا اور وہ دن ہے اور آج کا دن یہ سازشیں بڑھتی
جارہی ہیں اور ان سازشوں کا بنیادی مقصد پاکستان کو اس کے جوہری اثاثوں سے
محروم کرنا ،مسئلہ کشمیر کو مصلحت کے اندھیروں میں گم کرنا اور پوری
پاکستانی قوم او رامت مسلمہ کو احساس شکست میں مبتلاکرناہے چوروں کے سردار
بڑی دیانت داری سے اپنے کام کررہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یرغمال بستی کے
رہنے والے مقابلہ کیسے کرتے ہیں ۔۔۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سائیکل پر سوار بچہ زور زور سے رو رہا تھا کسی نے سائیکل سوار سے کہا
کہ تمہارا بچہ رو رہا ہے او رتمہیں پرواہ نہیں ،اسے چپ کیوں نہیں کرواتے
سائیکل سوار نے جواب دیا
”میں نے اسے خود رلایا ہے کیونکہ میری سائیکل میں گھنٹی نہیں ہے “
قارئین نتیجہ آپ خود اخذ کرلیں کہ بلکتے ہوئے کراچی ،خون میں نہائے
بلوچستان اور روتے ہوئے خیبر پختون خواہ کی ذمہ داری کس پر ہے ۔۔۔۔۔ |