آفتاب اقبال رہا مگر اوریا مقبول جان اور عمران ریاض کہاں ہیں؟ بڑے انکشافات٬ اہلیہ اور بچوں کا ویڈیو بیان بھی سامنے آگیا

image
 
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تو وہیں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جو سابق وزیر اعظم کی رہائی کے بعد بھی جاری ہے۔
 
لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں میں سے اکثر کو نقضِ عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام میں ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا کہ جبکہ کچھ کو کور کمانڈر کے گھر سمیت دیگر مقامات پر حملہ کرنے یا اس میں سہولت کاری کرنے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا۔
 
تاہم اس دوران صحافی اور اینکر آفتاب اقبال، تجزیہ کار اوریا مقبول جان اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کو ’غائب‘ کرنے کی اطلاعات سوشل میڈیا پر سامنے آئیں جس پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
 
واضح رہے کہ اوریا جان مقبول، آفتاب اقبال اور عمران ریاض کے لیے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانیے کی حمایت کرتے ہیں۔
 
12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو نیب سمیت متعدد کیسز میں عبوری ضمانت دی تھی۔ اس کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تو تھم گیا مگر گرفتاریاں نہ تھم سکیں۔
 
وزیراعظم شہباز شریف نے 72 گھنٹوں میں شرپسندوں کو کٹہرے میں لانے کے احکامات دیے تھے۔ ادھر پولیس کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اب تک کئی ہزار افراد کو انتشار اور نقض امن کے الزام میں اپم پی او کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔
 
صحافی آفتاب اقبال کو جمعے کو عدالت میں پیش کر کے رہا کر دیا گیا۔ انھیں جمعرات کی رات ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا اور جمعے کے روز لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا جس کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
 
دوسری طرف عمران ریاض اور اوریا جان مقبول کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواستیں زیر سماعت ہیں تاہم وہ کہاں ہیں اس بارے میں تاحال کچھ واضح نہیں ہے۔
 
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آفتاب اقبال اور عمران ریاض دونوں کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کی جانب سے ان کی رہائی عمل میں آ چکی ہے۔‘
 
آئی جی پنجاب کے مطابق ’عمران ریاض کو کچھ دن قبل گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا جہاں انھوں نے تحریری بیان میں اچھے رویے کی یقین دہانی کروائی جو کورٹ میں بھی پیش کر دی گئی ہے۔‘
 
آئی جی پنجاب کے مطابق ’اس کے بعد ایم پی او واپس لے لیا گیا اور وہ آزاد ہو گئے۔‘
 
آئی جی پنجاب نے اوریا جان مقبول کی پولیس کی جانب سے گرفتاری کی تردید کی اور کہا ’اوریا مقبول کو نہ ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا نہ ہی ہمیں وہ کسی کیس میں مطلوب ہیں۔‘
 
یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مقبولیت رکھنے والے ان صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو کس الزام میں اٹھایا جا رہا ہے اور اس دوران ان سے کیا سلوک کیا جاتا ہے، اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے صحافی آفتاب اقبال سے رابطہ کیا ہے۔
 
image
 
’آفتاب اقبال بھی وہاں پائے گئے تھے ان کو بھی ٹھونک دو‘
صحافی اور اینکرآفتاب اقبال عرصہ دراز سے میڈیا سے وابستہ ہیں اور ان دنوں ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے مختلف شوز پیش کرتے ہیں۔
 
ہمارے سوال پر آفتاب اقبال نے بتایا کہ جس دن کور کمانڈر کے گھر پر حملے کا واقعہ ہوا اس دن وہ وہاں رپورٹنگ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کی چار مختلف ٹیمیں کوریج کر رہی تھیں۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے اب کبھی کبھی موقع ملتا ہے فیلڈ رپورٹنگ کا۔ اس وقت میں لائیو ٹرانسمیشن میں بار بار یہی کہتا پایا جا رہا ہوں کہ یہ نہ کرو، کور کمانڈر کے گھر داخل ہونے کی کوشش نہ کرو، اپنی تحریک کو خراب کرو گے۔
 
’تو میرے لیے کہا گیا کہ آفتاب اقبال بھی وہاں پائے گئے تھے، ان کو بھی ٹھونک دو۔‘
 
آفتاب اقبال کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کی دوپہر اس وقت سو رہے تھے اور روزے کی حالت میں تھے جس وقت ان کو اٹھایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شکر ہے کہ اس وقت گھر میں بیٹیاں اور اہلیہ نہیں تھیں۔‘
 
انھوں نے کہا کہ ’تقریبا 15 کے قریب پولیس والے اور دو سفید کپڑوں میں ملبوس افراد میرے گھر آئے اور میرے فون اور لیپ ٹاپ اٹھا کر مجھے یہاں سے لے کر گئے۔
 
’میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور منھ پر کالے رنگ کی بوری نما چیز چڑھا دی گئی۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پوچھا چارج کیا ہے اور وارنٹ کہاں ہے تو مجھے کچھ نہیں بتایا گیا۔ انھوں نے مجھے سفید ڈالے میں بٹھایا جو ایجنسی کا تھا۔
 
’تقریباً 45 منٹ تک وہ مجھے ادھر سے ادھر گھماتے رہے، پھر مجھے عقوبت خانے کی مانند ایک جگہ پر لے جایا گیا جس میں ہرے رنگ کی سلاخوں والے سیل تھے اور جس میں نیچے سے روٹی پانی دینے کی جگہ تھی۔‘
 
آفتاب اقبال کے مطابق ’جب مجھے آفیسر کے سامنے لے جایا گیا تو مجھے ہتھکڑیاں ڈالی گئیں۔ اس آفیسر نے ماسک پہنا ہوا تھا جنھوں نے میری برین واشنگ کی کوشش کی تاہم ان کا انداز دانشورانہ تھا۔
 
’میں نے ان سے کہا کہ میں افطار کے بعد بات کر سکوں گا تاہم اس کی نوبت نہیں آئی اور اس سے پہلے ہی پنجاب پولیس مجھے لے کر خوفناک بلائنڈ فولڈ کر کے ایک دوسرے مقام پر لے گئی۔ ساری رات میں تھانے میں بند ایک چٹائی پر رہا جس میں کونے پر ایک کموڈ لگا تھا۔‘
 
آفتاب اقبال کے مطابق اس دوران انھوں نے بارہا اپنے گھر بات کرنے کی درخواست کی تاہم اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایس ایچ او سے بارہا درخواست کی کہ میرے گھر کال کر کے بتا دیں کہ میں ابھی زندہ ہوں مگر انھوں نے کہا کہ سر یہ میرے اختیار میں نہیں۔
 
’ساری رات ایسے ہی گزری صبح خاکی وردی میں پولیس آئی اور وہاں سے ایم پی او کے تحت جیل لے گئے اور سرکار نے کہا کہ آپ تاحکم ثانی یہیں رہیں گے۔ ابھی فارم وغیرہ فل ہو رہے تھے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پیش کرنے کے آرڈر کر دیے اور پیشی کے بعد رہائی عمل میں آئی۔‘
 
image
 
’ایس ایس پی نے کہا ہمیں نہیں پتا کہ اوریا مقبول جان کہاں ہیں، ہم نے نہیں اٹھایا‘
اوریا مقبول جان کے بیٹے سرمد مقبول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جمعے کی رات کو ساڑھے گیارہ کے قریب تین کالی ویگو اور ایک ایلیٹ فورس کی گاڑی والد کے گھر کے باہر آئی جنھوں نے گیٹ کے اوپر لگا سی سی ٹی وی کیمرہ سب سے پہلے توڑا اور گیٹ پھلانگ کر اندر آئے۔ اس وقت گھر پر والد، والدہ اور دو ملازم موجود تھے۔
 
’شور سن کر والد اور والدہ کمرے سے نکلے تو ان کو کہا گیا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلیں نہیں۔‘
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے وہ سب پورے گھر میں پھیل گئے پھر انھوں نے سی سی ٹی وی کا پورا سسٹم نکلا۔ ابو کا فون اور لیپ ٹاپ اٹھایا۔
 
’میری والدہ شدید گھبرا گئیں اور انھوں نے پوچھا کہ آپ انھیں کہاں لے کر جا رہے ہیں اور آپ کون ہیں تو انھوں نے کچھ نہیں بتایا اور کہا ہم ان کو ابھی لے کر آتے ہیں آپ فکر نہ کریں۔‘
 
سرمد کے مطابق ان کی امی نے درخواست کی تو انھوں نے امی کا فون واپس کیا اور والد کو ان کے فون، لیپ ٹاپ اور سی سی ٹی وی کے سسٹم کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کے لے گئے۔
 
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’بغیر کچھ بتائے، سرچ وارنٹ دکھائے بغیر۔ ان کے یونیفارم بالکل سیاہ تھے جس پر کوئی شناخت نہیں تھی۔‘
 
سرمد اس دن دبئی میں تھے۔ اگلے دن انھوں نے پاکستان پہنچ کر سنیچر کے روز پٹیشنن دائر کی جس کے بعد پیر کے روز کیس کی سماعت ہوئی۔
 
سرمد کے مطابق جسٹس عالیہ نیلم نے اوریا مقبول جان کو دو بجے پیش کرنے کا حکم دیا۔ دو بجے جب سرمد عدالت پہنچے تو وہاں آئی جی پنجاب اور ایس ایس پی موجود تھے۔ کورٹ چار بجے شروع ہوئی اور ایس ایس پی نے بیان دیا کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ ہم نے نہیں اٹھایا۔‘
 
سرمد کہتے ہیں کہ ’ہم نے عدالت میں سامنے والے گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بطور ثبوت جمع کروائی ہے اور کہا کہ اس میں ایلیٹ فورس کی گاڑی ہے اور سارا واقعہ نظر آ رہا ہے۔
 
’اس کے بعد عدالت نے انھیں منگل کی صبح تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے لیے سیف سٹی کیمرہ کے ذریعے چیک کریں کہ گاڑیاں کہاں گئیں اور صبح تک رپورٹ بھی پیش کریں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’جمعے کی رات سے پیر کی شام ہو گئی، نہ یہ پتا ہے کہ وہ کہاں ہیں نہ یہ پتہ کہ وہ محفوظ ہیں نہ یہ پتہ کہ ان پر کوئی تشدد تو نہیں ہوا۔
 
’ان کی عمر 67 سال ہے اور انھیں ایک دوا باقاعدہ لینا ہوتی ہے۔ ان کے پاس نہ کپڑے ہیں، نہ دوائیاں۔ ہمیں کچھ نہیں پتا، نہ کوئی بتانے کو تیار ہے۔‘
 
اوریا مقبول جان کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں منگل کو ہوگی۔
 
 
’ڈی پی او سے کہا ہے کہ عمران ریاض کو ڈھونڈنے کے لیے ایجنسیز کی مدد لیں‘
عمران خان کی گرفتاری کے اگلے ہی روز یوٹیوبر عمران ریاض کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیے جانے کی خبریں منظر عام پر آئیں۔
 
اس گرفتاری کے بعد عمران ریاض کے وکیل نے ان کی بازیابی کی درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے ان کو پیش کرنے کی ہدایات کی تاہم تاحال انھیں پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔
 
پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت میں عدالت نے ضلعی پولیس افسر کی استدعا پر عمران ریاض کی بازیابی کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دے دی ہے۔
 
ان کے وکیل شاہزیب مسعود نے عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج چلوائی گئی جس میں دکھایا گیا ہے ان کو زبردستی کھینچ کے گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے۔
 
’عدالت نے ڈی پی او سے کہا ہے کہ عمران ریاض کو ڈھونڈنے کے لیے ایجنسیز کی مدد لیں اور 48 گھنٹوں میں پیش کریں۔‘
 
دوسری جانب عمران ریاض کی اہلیہ نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے ویڈیو پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ پچھلے پانچ دن سے عمران کہاں ہیں۔‘
 
انھوں نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دعا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اپنے ججز اور وکلا کی ٹیم پر مکمل اعتماد ہے۔ ہم نے جو دروازہ کھٹکھٹایا ہے اعلیٰ عدلیہ کا، وہ ہمیں انصاف ضرور عطا کریں گے۔‘
 
عمران ریاض کی اہلیہ نے کہا کہ ’اگلے 48 گھنٹے ہمارے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ عدالت نے کہا ہے کہ 48 گھنٹوں میں عمران کو عدالت میں پیش کیا جائے اللہ کرے وہ ہمارے ساتھ ہوں۔‘
 
ہم نے عمران ریاض کے بھائی سے اس حوالے سے رابطہ کر کے ان کا موقف لینے کی کوشش کی تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔
 
ادھر مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق پنجاب پولیس نے عمران ریاض کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا ہے۔
 
صحافیوں کی اس تقسیم کی وجوہات کیا ہیں؟
اوریا جان مقبول سابق بیورو کریٹ ہیں اور محتلف ٹی وی شوز میں بطور تـجزیہ نگار پیش ہوتے ہیں۔
 
اوریا جان مقبول اپنے پروگرامزمیں جن خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اس کی بنا پر عام تاثر یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کا حامی سمجھا جاتا ہے۔
 
دوسری جانب یوٹیوبر عمران ریاض ماضی میں مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرام کرتے رہے ہیں اور اپنے پروگرام کے کانٹینٹ کے باعث تحریک انصاف اور فوج مخالف حلقوں میں کافی مقبول سمجھے جاتے رہے ہیں۔
 
آفتاب اقبال، عمران ریاض اور اوریا جان مقبول کے غائب ہونے کی اطلاعات سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر جہاں کافی بحث ہوئی وہیں اس صورت حال میں صحافتی تقسیم کی جھلک بھی واضح محسوس کی جا سکتی ہے۔
 
صحافی عبد القادرنے لکھا کہ ’عمران ریاض سے متعلق آنے والی افواہیں تشویشناک ہیں۔ انھیں وکلا اور خاندان تک فوری رسائی دی جائے۔
 
’اہل خانہ اور کم عمر بچوں کے لیے مشکل لمحات میں ان کی فوری اورمحفوظ واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔‘
 
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحافیوں کی اس تقسیم کی وجوہات کیا ہیں؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملہ پر انھیں میڈیا کی تقسیم واضح دکھائی دے رہی ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے دوست اگر صحافیوں کے بجائے سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن جائیں، چاہے مسلم لیگ ن ہو پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف کی بات ہو۔ صحافی اگر صحافتی حدود عبور کر جائیں تو تقسیم ہو جاتی ہے۔ چینلز کی اپنی تقسیم نظر آتی ہے میڈیا ہاؤسز کی اپنی تقسیم ہے۔‘
 
مظہر عباس کے مطابق ’بہت سے ایسے دوست بھی ہیں جنھوں نے سیاسی طور پر ہی پوزیشن نہیں لی بلکہ دوسرے نظریات کے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا ان کے بارے میں جس طرح کے کمنٹس دیکھے ریمارکس دیکھے ان کو صف آرا دیکھا تو ماضی میں جیسے صحافی ایک دوسرے کے لیے ساتھ اکھٹا ہوتے تھے وہ نظر نہیں آیا۔‘
 
ان کے مطابق اب اس تقسیم کے باعث صحافیوں کی یکجہتی بیانات کی حد تک نظرآتی ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ ’چاہے یہ کیسز ہوں یا مطیع اللہ جان کا کا کیس ہو یا ارشد شریف کا افسوسناک کیس ہو ان سب میں وہ متحد آواز نظر نہیں آئی جو آنی چاہیے تھی۔‘
 
’میڈیا ہاؤسز میں تقسیم کا نقصان ہو رہا ہے اور تنطیمیں بھی ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آ رہیں جس کی وجہ سے صحافیوں کی اپنی جدوجہد بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔‘
 
صحافیوں کی تقسیم کے معاملے پر جب صحافی کمال صدیقی سے ہم نے رائے جانی تو ان کا کہنا تھا ’جن لوگوں کی آپ بات کر رہی ہیں ان پر سیاسی وفاداریاں غالب دکھائی دیتی ہیں۔
 
’جنھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بہت متعصبانہ صحافت کی تھی جس کی وجہ سے بہت معصوم لوگوں کو نقصان پہنچا تھا تاہم ان کے ساتھ اب جو سلوک ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔‘
 
کمال صدیقی نے اس کی مثال یوں دی کہ ’کسی غلط کام کرنے والے کے ساتھ جواباً غلط کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔‘
 
 
صحافی ذکیہ نیئر نے لکھا کہ ’عمران ریاض کو بولنے کی سزا میں اغوا کر رکھا ہے کسی کو نہیں معلوم وہ کہاں ہیں ہر ادارہ لاتعلقی ظاہر کر چکا ہے۔
 
’انھیں رہا کرو ہم میں سکت نہیں کہ ارشد شریف جیسا دوسرا واقعہ برداشت کریں صحافی برادری ہم آواز ہو کر ان کی رہائی کا مطالبہ کرے۔‘
 
 
صحافی وسیم عباسی نے ٹویٹ کیا کہ ’مطیع اللہ جان اور شاہزیب خانزادہ جس طرح عمران ریاض کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ اصول اصول ہوتا ہے چاہے کوئی دوست ہو یا مخالف۔
 
’جس طرح عمران ریاض اور ان کے گینگ نے مطیع کا بے ہودہ مذاق اڑایا تھا اس طرح کوئی عام آدمی کبھی معاف نہ کرتا۔‘
 
صحافی عارف حمید بھٹی نے لکھا کہ ’سینئر صحافی عمران ریاض خان ابھی تک لا پتہ ہے۔ ان کے والدین، بیوی، بچے سخت پریشان ہیں۔ ان کا مذاق اڑانے والوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔‘
 
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: