ممبرپارلیمنٹ کے استثنیٰ اور استحقاق کا قانون

پاکستانی مجلس شورہ یعنی پارلیمنٹ نےآئین کے آرٹیکل 66کے تابع ممبران پارلیمنٹ کے لئے استثنیٰ اور استحقاق بل کی منظوری دے دی ہے۔ اس بل کے نام سے بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں یا دیگر مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔جبکہ بل کے مندرجات بل کے نام سے بالکل برعکس ہیں۔ درحقیقت اس بل کا مقصد ممبران پارلیمنٹ کو غیر معمولی حالات میں سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ ممبر پارلیمنٹ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرسکیں۔اور بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے پارلیمانی امور سرانجام دے سکیں۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ اکثر مواقعوں پر حکومت وقت مخالف سیاسی جماعت کے سرکردہ قائدین کو فوجداری و دیوانی ،دہشت گردی، منشیات و دیگر مقدمات میں الجھاتی رہی ہیں، ان مقدمات کا مقصد مخالف سیاسی قوت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے دبائو میں لانا یا پھر پارلیمان کی کاروائی میں شامل ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں بہت سے مواقعوں پر یہ دیکھنے کو ملتا رہا کہ کس طرح شہباز شریف،شاہد خاقان عباسی، رانا ثناءاللہ،علی وزیر، خواجہ سعد رفیق، میاں جاوید لطیف، خواجہ آصف ودیگر کئی اراکین پارلیمنٹ عمران خان حکومت کے زیر عتاب رہے۔حد تو یہ ہے کہ عمران خان حکومت میں گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو شہباز شریف حکومت میںبھی کئی ماہ تک مقدمات میں ضمانتیں ملنے کے باوجود نہ تو رہا کیا گیا اور نہ ہی متعدد اسمبلی اجلاسوں میں آنے کی اجازت ملی۔ بعض اوقات تو اسپیکر قومی اسمبلی اورچیئرمین سینٹ اپوزیشن جماعتوں کےبار بار مطالبہ اور احتجاج کے باوجود ان پابند سلاسل اراکین پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتے تھے۔یاد رہے ماضی میں" ممبران آف قومی اسمبلی احتیاطی نظر بندی اور پیشی سے مستثنیٰ آرڈیننس 1963جاری کیا گیا مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی حالات کی مجبوریوں میں یہ آرڈیننس اپنی وُقت کھو بیٹھا اور غیر فعال ہوگیا۔ رواں سال ماہ جنوری میں مایہ نازسینئرپارلیمنٹرین سینیٹرمیاں رضا ربانی صاحب نے سینٹ میں بل پیش کیا جسکو منظور کرلیا گیا۔ اسکے بعد ماہ مارچ میں قومی اسمبلی سے بھی اس بل کی منظوری مل گئی۔اس بل کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:

قانون کا اطلاق:
اس بل کا اطلاق ممبران قومی اسمبلی اور سینٹ آف پاکستان پر لاگو ہوگا۔

حفاظتی حراست کے قوانین کے تحت گرفتاری:
صدر یا چیئرمین یا سپیکر کی طرف سے، اجلاس طلب کرنے کے بعد کسی رکن کو احتیاطی حراست سے متعلق کسی قانون کے تحت حراست میں نہیں لیا جائے گا۔

ممبر پارلیمنٹ کے خلاف مقدمہ کا اندراج:
کسی رکن کے خلاف ایف آئی آر درج اندراج یا ریفرنس دائر کئے جانے کے بعد، چیئرمین یا اسپیکرکو رجسٹریشن یا فائلنگ بارے چوبیس گھنٹے کے اندر اندرمطلع کیا جائے گا اور ایف آئی آر یا ریفرنس کی کاپی چوبیس گھنٹے کے اندر اسپیکر یا چیرمین سینٹ کو فراہم کی جائے گی۔

گرفتاری /حراست کی اطلاع:
جب کسی رکن کو کسی مجرمانہ الزام میں یا کسی مجرمانہ جرم کے تحت گرفتار یا گرفتار کرنے کی ضرورت ہو یا عدالت کی طرف سے قید کی سزا سنائی جائے یا ایگزیکٹو آرڈر کے تحت حراست میں لیا گیا ہو تو جج، مجسٹریٹ یاایگزیکٹو اتھارٹی، چیئرمین یا سپیکر کو فوری طور پر گرفتاری، حراست یا قید کی وجوہات کی نشاندہی بارے حقیقت سے آگاہ کرے گی ۔ جب کسی رکن پارلیمنٹ کو کسی کمیشن، ٹربیونل، اتھارٹی، ادارے، ایجنسی یا دیگر کی طرف سے طلب کیا جائے یا اسے کسی تحقیقات یا انکوائری کے لیے پیش ہونے کی ضرورت ہو تو متعلقہ اتھارٹی مختصر حقائق / وجوہات سے چیئرمین یا اسپیکر کو مطلع کرے گی۔

رہائی بارے اطلاع:
جب کوئی رکن پارلیمنٹ اپنی گرفتاری یا نظربندی کے بعد ضمانت پر رہا ہو جائےیا بصورت دیگر مجرمانہ الزام سے بری ہو جاتا ہے تو متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے اس حقیقت سے چیئرمین یا سپیکر کو آگاہ کیا جائے گا۔

زیرحراست رکن کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا:
کسی کمیٹی کا چیئرمین،ا سپیکر یا چیئرمین سینٹ آف پاکستان کسی زیر حراست رکن پارلیمنٹ کو سینٹ، قومی اسمبلی یا کسی کمیٹی کے اجلاس جس کمیٹی کا زیر حراست فرد ممبر ہے اسکو اجلاس میں شرکت کے لیے طلب کرے گا۔سیکرٹری کے دستخط شدہ پروڈکشن آرڈر پر یا چیئرمین، سپیکر کی طرف سے اختیار کردہ کسی دوسرے افسر کے ذریعے، وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کو مخاطب کیاجائے گا جہاں ممبر پارلیمنٹ حراست میں رکھا گیا ہے۔وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا اس طرح کی دوسری اتھارٹی زیر حراست رکن پارلیمنٹ کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے سامنے پیش کرےگی۔اور سارجنٹ ایٹ آرمز اجلاس یا اجلاسوں کے اختتام کے بعد، ممبر پارلیمنٹ کو وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا دیگر اتھارٹی کی تحویل میں واپس دے گا۔

گرفتاری سے استثنیٰ:
کسی بھی رکن کو سیشن شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل حراست میں نہیں لیا جائے گا جس میں اس رکن پارلیمنٹ کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ پرائم منسٹر کے انتخاب کے لیے ووٹ، اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ، منی بل (سالانہ بجٹ) اجلاسوں میں شرکت۔

پارلیمنٹ کی حدود کے اندر گرفتاری:
پارلیمنٹ کے کسی ممبر کو اسپیکر یا چیئرمین کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کی حدود کے اندر سے گرفتار نہیں کی جائے گا۔

قانونی کاروائی کا اطلاق:
کسی عدالت، ٹربیونل یا دیگر اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ کسی قانونی کاروائی کا پارلیمنٹ کی حدود کے اندرکسی رکن پارلیمنٹ پر اطلاق نہیں ہوگا۔

قانون میں نقائص:
اس قانون کے مطالعہ کے دوران ایک انتہائی اہم نقص منظر عام پر آیا۔ بظاہر اس قانون کا اطلاق ممبر پارلیمنٹ یعنی رکن قومی اسمبلی یا رکن سینٹ آف پاکستان پر ہوتا ہے۔ مگر قانون کی سیکشن نمبر 8اور کلاز aمیں درج ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلی کے انتخاب کے موقع پر بلائے گئے اجلاس سے ایک ہفتہ پہلے تک ممبر پارلیمنٹ کو گرفتاری سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ آئینی طور پر قومی اسمبلی کے ممبر یا سینٹ آف پاکستان کے ممبر کا کسی صوبہ کے وزیراعلی کے انتخاب میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس بل کی ڈرافٹنگ کے دوران کہیں نہ کہیں غلطی ہوگئی ہے۔ بل ڈرافٹ کرنے والوں کے ذہن میں یا تو اس قانون کا اطلاق ممبر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ممبران پر بھی لاگو کرنا مقصود تھایا پھراس بل میں وزیراعلی کے انتخاب والا جملہ غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.