نتائجوں کا برہمن - آٹھویں قسط

سینٹرل رنگون کی ایک خوبی ہے کہ وہاں کسی کا ایڈریس تلاش کرنا بڑا آسان ہے کیونکہ وہاں تقریباً پچپن گلیاں ہیں جو دریائے آیورویدی کے کنارے سے شروع ہو کرشہر کے وسط تک چلی جاتی ہیں جو کہ شہر کے ساتھ ساتھ بہتا ہے اور اسی پر بندرگاہ بھی ہے، ان گلیوں کوبلاکوں میں تقسیم کرتی ہوئی کچھ سڑکیں ہیں مثلاً انورتھا روڈ کے دائیں جانب لوئر بلاک بائیں جانب مڈل بلاک اس سے آگے اپر بلاک اس طرح مکان نمبر اور گلی نمبر معلوم ہونے سے آپ آسانی سے صحیح ٹھکانے تک پہنچ سکتے ہیں ۔

بتیس نمبر گلی کے سامنے روڈ کے دوسری طرف مشہور ڈائمنڈ مارکیٹ ہے جہاں غیر ملکیوں کا اچھا خاصہ رش رہتا ہے ویسے تو برما میں روبی پتھر کی کانیں ہیں جہاں سے بہت عمدہ اور قیمتی ہیرے نکلتے ہیں اس کے علاوہ بھی یہاں مارکیٹ میں باہر سے بھی مال آتا جاتا ہے ، اس مارکیٹ میں انگریزوں کے آنے جانے سے فائدہ اُٹھانے کے لیے بتیس گلی کے آس پاس بہت ساری نوادرات کی دوکانیں بھی ہیں جہاں پرانے سکوں سے لے کر ہزاروں سال پرانی مورتیاں اور مغلیہ دور کی تلواریں اور بہت سی چیزیں جو غیر ملکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

تیتیس نمبر گلی کے مڈل بلاک میں صورتی مسجد کے سامنے ہیروں کے کاروباری اور بروکر سڑک کے کنارے چائے کی دوکانوں پر بیٹھ کر کروڑوں کے سودے کرتے ہیں ، میں نے اپنے ایکسپوٹر ہندو بابو سے جب پوچھا کہ آپ بھی کچھ ہیروں کے بارے میں جانتے ہیں تو انہوں نے ہنس کر جواب دیا ، ساب یہاں اکثر لوگ دھوکہ کھاتے ہیںبڑے بڑے سیانے اور سمجھدار لوگ بھی مار کھا جاتے ہیں اس لیے اس کاروبار سے دور رہنا ہی اچھا ہے ۔

میں جس ہوٹل میں تھا اس میں ایک کلکتہ کا ہیروں کا سوداگر بھی ٹھہرا ہوا تھا جس کے بارے میں ہوٹل کے بنگالی مالک نے بتایا کہ یہ تقریباً دو سال سے یہاں ہے کسی برمی نے اسے دھوکہ دے کر کروڑوں کا نقصان پہنچایا ہے اب یہ بیچارہ اُس کے پیچھے خوار ہو رہا ہے واپس بھی جانے سے قاصر ہے، مجھے اس کے بارے میں سن کر بہت دکھ ہوا ، ازراہ ہمدردی میں اس کے کمرے میں گیا جو مسلمان تھا ، اسلام علیکم کے جواب میں اس نے وعلیکم اسلام کہا کمرے سے کچھ عجیب سی بو آ رہی تھی مجھے دیکھ کر اُس نے ٹیبل سے بوتل اور گلاس ہٹاتے ہوئے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا میں نے اپنا تعارف کرایا تو اس نے بھی اپنا نام منظورالحق اور کلکتے سے تعلق بتاتے ہوئے کہا، آپ پاکستان سے ہیں ، وہاں تو سنا ہے بہت مارا ماری ہو رہی ہے لوگ مسجدوں میں بم مار رہے ہیں کسی کی جان مال محفوظ نہیں،کیا یہ سب مسلمان کر رہے ہیں ؟ اس کا سوال سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا کیونکہ یہ سوال اکثر لوگوں کے ہونٹوں پر تھا بلکہ خود میرے ذہن میں بھی یہ اکثر گونجتا رہتاجب کوئی ایسی خبر سامنے آتی کہ جنازہ جا رہا تھا کہ کسی نے اُس میں گھس کر خود کش حملہ کر دیا جس سے دفن کرنے جانے والے خود مدفون ہو گئے ۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس کے سوال کے جواب میں اگر میں یہ کہوں کہ یہ سب انڈیا کروا رہا ہے تو مجھے اندازہ تھا کہ ہندوستانی مسلمان چاہے وہاں جس حالت میں بھی رہتے ہوں اپنے ملک کے خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتے،اس لیے میں نے سارا الزام انگریزوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ انہیں کا کیا دھرا ہے جو مسلمان عالموں کی شکلیں اختیار کئے ہوئے ہیں، میں نے ایک ہندوستانی عالم دین محمد ظہیرالدین قادری جن کا تعلق کانپور سے ہے، اُن کی ایک کتاب THE FINAL VERSES جو انہوں نے منحرفِ دین سلمان رشدی کی کتاب SATANIC VERSES کے جواب میں انیس سو ستانوے میں لکھی تھی اُس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس کتاب میں انہوں نے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیا ہے جو انیس سو ترانوے میں باعنوان” علمائے اسلام میں عیسائیت کی خُفیہ سرنگ“ کے نام سے ” ہدا ڈائجسٹ “میں چھپا تھا جس میں مصنف محمد آصف دہلوی نے انکشاف کیا کہ اُن کا ایک دوست جو نواب صاحب چھاتاری کا معتمد خاص ہے، اس کو نواب صاحب نے بتایا کہ پارٹیشن سے پہلے جب وہ انگریزوں کے وفاداروں میں اور اُتر پردیش کے گورنر تھے تو ایک دفعہ حکومت برطانیہ نے سب گورنروں کو صلاح مشورے کے لیے لندن بلایا جن میں نواب صاحب چھاتاری بھی مدعو تھے، جب وہ لندن پہنچے تو بہت سے برطانوی افسران جو انڈیا میں ڈیوٹی کر چکے تھے نواب صاحب سے ملنے آئے انہیں میں اُن کے ایک خاص دوست جو انہیں کے علاقے میں ڈسٹرکٹ کلکٹر رہ چکے تھے اور نواب صاحب کے ہم نوالہ ہم پیالہ تھے انہوں نے نواب صاحب کو اپنے ساتھ سیر کرانے کی پیشکش کی تو نواب صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ،بھئی لندن کے سب عجائب گھر اور چڑیا گھر میرے دیکھے بھالے ہیں،کوئی نئی چیز ہو تو دکھاﺅ اِس پر اُن نے دوست نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کو ایک ایسی جگہ دکھانے کا انتظام کرتا ہوں جس کو دیکھ کر آپ یقینا ہماری قابلیت کے معترف ہو جائیں گے ، دو دن بعد وہ کلکٹر صاحب آئے اور نواب صاحب کو چلنے کو کہا ،نواب صاحب کو کچھ حیرت سی ہوئی کہ ایسی کونسی جگہ ہے جس کو دیکھنے کے لیے دو دن انتظام کرنے میں لگ گئے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس جگہ جانے کے لیے حکومت سے خاص اجازت نامہ لینا پڑتا ہے جو کسی عام آدمی یا ہندوستانی کے لیے ممنوعہ ہے کلکٹر صاحب بڑی تگُ دو کے بعد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ایک پرائیویٹ گاڑی میں نواب صاحب کو لے کر روانہ ہوئے لندن سے باہر ایک جنگل میں سنسان سڑک پر سفر کرتے ہوئے نواب صاحب کے دل میں خیال ہوا کہ شاید ان کے دوست انہیں کوئی جنگلی جانور یا کوئی پرانا قلعہ دکھانے لے جا رہے ہیں آخر انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ بھائی ا ور کتنا دور جانا ہو گا یہاں تو ہر طرف ویرانی ہی ویرانی ہے ،اس پر کلکٹر نے بتایا کہ بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، تھوڑی دیر بعد وہ ایک بہت بڑی قلعہ نما عمارت کے آہنی گیٹ کے سامنے جا کر رک گئے کلکٹر صاحب نے گیٹ پر پاسپورٹ اور اجازت نامہ دکھایا تو اُن کو اندر جانے کی اجازت مل گئی اپنی گاڑی انہیں وہیں چھوڑنی پڑی جبکہ اندر جانے کے لیے ایک خاص گاڑی مہیا کر دی گئی ساتھ ہی نواب صاحب سے کہا گیا کہ آپ اندر کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے اگر آپ کو کچھ پوچھنا ہو تو کلکٹر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں،اندر داخل ہوتے ہی پھر گھنا جنگل اور جس سڑک پر وہ چل رہے تھے اس کے آس پاس قطار میں ترتیب سے درخت لگے ہوئے تھے جو ایک ہی سائز میں ہونے کی وجہ سے دونوں طرف دیواروں کی طرح لگ رہے تھے ،تھوڑا آگے جا کر انہوں نے ایک عمارت کے سامنے گاڑی پارک کی اور بڑے سے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک لمبے برآمدے کے دائیں طرف بہت سارے کمرے بنے ہوئے ہیں جن میں عربی جبہ اور اور سر پر ٹوپیاں جن کو بڑے بڑے سفید رومالوں سے ڈھانپ رکھا تھا پہنے باریش گورے چٹے نوجوان ان کمروں میں آ جا رہے تھے ایک نوجوان نے پاس سے گڑرتے ہوئے اسلام علیکم کہا تو نواب صاحب چونکے انہوں نے اس نوجوان سے کچھ کہنا چاہا تو کلکٹر صاحب نے انہیں اشارے سے منع کر دیا، تھوڑا آگے جا کر دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہال جس میں قالین بچھا ہوا تھا اُس پر طالب علموں کا ایک گروپ عربی لباس میں پڑھ رہا تھا اور اُن کے سامنے ایک مولانا پڑھانے والے بالکل اُسی طرح پڑھا رہے تھے جیسے ہندوستان میں دینی مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔

نواب صاحب نے یہ سب دیکھ کر اپنے انگریز دوست سے کہا، ارے بھئی اس میں کونسی نئی بات ہے یہ تو ہمارے ہندوستان میں مسلمانوں لے مدرسے عام ہیں جہاں مسلم نوجوان قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں نواب صاحب چونکہ غیر مسلم تھے اس لیے انہیں یہ سب کچھ دکھانے کلکٹر صاحب اتنی دور لے کر آئے تھے مگر جب نواب صاحب نے یہ سب دیکھ کر کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تو کلٹر صاحب نے کہا ، اب میں آپ کو وہ بات بتانے جا رہا ہوں جسے سن کر آپ یقیناً حیرت زدہ رہ جائیں گے نواب صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ہاں بھئی وہی تو میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ اس مدرسے میں ایسی کونسی خاص بات ہے، ؟ اس پر کلکٹر صاحب نے سرگوشی کے انداز میں ان کے کان کے قریب آ کر کہا، ’یہ قرآن پڑھنے والے سب عیسائی ہیں‘ یہ سن کر نواب صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا انہوں تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا، کیا یہ عیسائی مسلمان ہوگئے ہیں ؟ کلکٹر صاحب نے بڑے فخر سے سینہ پھلاتے ہوئے جواب دیا ، نہیں صاحب بلکہ یہ سب مسلمانوں کو راہ راست سے بھٹکانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں جو انہیں مدرسوں میں گھس کر ان میں تفرقہ اور انتہا پسندی کا رحجان پیدا کریں گے ۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 83998 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.