پھپھو ہمیشہ بری نہیں ہوتی٬ ڈرامہ ’کچھ ان کہی‘ میں اچھی نظر آنے والی پھپھو حقیقی زندگی میں کیسی ہیں؟ حیرت انگیز انکشافات

image
 
’اچھی پھپو بھی موجود ہیں لیکن ہم ڈراموں میں منفی باتوں پر ہی کیوں روشنی ڈالتے ہیں۔ میں ایک چڑیل پھپو نہیں، میری اپنی پھوپھو بھی بہت اچھی ہیں۔‘
 
حال ہی میں نشر ہونے والے پاکستانی ڈرامے ’کچھ ان کہی‘ میں صوفیہ کا اہم کردار ادا کرنے والی ونیزہ احمد نے بی بی سی اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں نہ صرف اس ڈرامے میں اپنے کردار بلکہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی کھل کر بات کی ہے۔
 
ونیزہ اس ڈرامے میں ایک پیار کرنے والی، خیال رکھنے والی اور مضبوط پھپو کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
 
پاکستانی معاشرے میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لفظ پھپو اور اس رشتے کے ساتھ بہت منفی تاثر جوڑ دیا جاتا ہے۔ پھر یہی سوچ کئی بار پاکستانی ڈراموں میں بھی دکھائی دیتی ہے جس میں پھپو کو اکثر ولن بنایا جاتا ہے۔
 
ہم نے ونیزہ سے پوچھا کہ کیا ڈرامہ ’کچھ ان کہی‘ سے دوسرے پاکستانی ڈراموں میں بھی پھپو کے کردار کو مثبت دکھانے کی ترغیب ملے گی؟
 
اس پر ان کا جواب تھا کہ ’امید تو ہے کہ بہت سے دقیانوسی خیالات چیلنج ہوں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستانی ڈراموں کی کہانیوں میں ’ہمیشہ پھپو کو بہت بُرا دکھایا جاتا ہے۔‘
 
’اچھی پھپو بھی موجود ہیں۔ جیسے صوفیہ ڈرامے میں محبت کرنے والی پھپو ہے تو میں خود ایک اچھی پھپو ہوں۔ میری اپنی پھپو بھی بہت اچھی ہیں۔‘
 
ان کے مطابق سسرال والے بھی اچھے ہو سکتے ہیں۔ ’میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ میری ساس بہت اچھی ہیں، میری نند بہت اچھی ہیں، وہ ایک چڑیل ساس نہیں، میں ایک چڑیل پھپو نہیں۔‘
 
ڈرامہ ’کچھ ان کہی‘ میں صوفیہ کا کردار سوشل میڈیا پر کافی پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ونیزہ نے بھی بتایا کہ انھیں اس کردار پر بہت اچھا ردعمل مل رہا ہے۔
 
جب ونیزہ سے پوچھا گیا کہ اتنے برسوں بعد ایکٹنگ کی طرف واپس آنے کا تجربہ کیسا رہا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت مشکل تھا کیونکہ عادت ختم ہو چکی تھی اور میرے دو بچے ہو چکے تھے۔‘
 
’میرے پاس وقت نہیں تھا لیکن ہدایت کار ندیم بیگ نے کہا کہ تمھیں مزہ آئے گا۔ تم وقت نکال لو۔‘
 
image
 
’بیٹی کی پرورش کے لیے 15 سال پرانی فیکٹری چھوڑ دی‘
ونیزہ اپنی پروفیشنل زندگی سے بہت عرصے تک اس لیے بھی دور رہیں کیونکہ انھوں نے اپنی فیملی کو کام پر ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔
 
شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد ونیزہ نے کام کو چھوڑ کر بچوں پر ساری توجہ دی کیونکہ ان کے مطابق شروع کے برسوں میں بچوں کو ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’بطور ماں یہ میری ذمہ داری تھی، میں نے اپنی بیٹی کی پرورش کے لیے 15 سال پرانی فیکٹری چھوڑ دی۔‘
 
اب دوبارہ کام شروع کرنے پر بھی ونیزہ کا کہنا ہے کہ میڈیا میں کام کے اوقات بہت مشکل ہیں لیکن ان کی باتوں میں کہیں بھی کام چھوڑ دینے پر افسوس محسوس نہیں ہوتا تھا۔
 
’خواتین بھیڑ بکریاں نہیں، ہم صرف آدمی کی خدمت کے لیے پیدا نہیں ہوئیں‘
ڈرامہ ’کچھ ان کہی‘ میں پاکستانی معاشرے میں موجود بہت سے مسائل اور بہت سے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے خواتین پر گھریلو تشدد، نکاح نامے میں طلاق کا حق اور جائیداد میں حصہ داری۔
 
ونیزہ کے مطابق ڈراموں میں معاشرے میں تبدیلی لانے کی طاقت موجود ہے، اسی لیے ان موضوعات پر بات کرنا بہت اہم ہے۔
 
’معاشرے میں ایسے مسائل موجود ہیں۔ خواتین اپنے حقوق سے واقف نہیں اور جب وہ ان مسائل کی شکار ہو جائیں تو انھیں کوئی آواز نہیں اٹھانے دیتا‘۔
 
ڈرامے میں نکاح کے سین میں طلاق کی شِق رکھوانے پر ونیزہ نے بتایا کہ ایک مضبوط اور خودمختار عورت ہونے کے باوجود ان کے اپنے نکاح کے وقت ’کوئی نکاح کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہ رہا تھا‘ اور ان کی والدہ نے اپنی طرح ونیزہ کا حق مہر بھی صرف 24 روپے رکھوایا۔
 
’میں بعد میں، ان سے لڑی کہ آپ کا نکاح 50 سال پہلے تھا۔ آج کل کے دور میں 24 روپے سے کچھ نہیں آتا۔ تو اگر میری جیسی عورت کچھ نہیں بول سکی تو وہ جو مسکین ہوتے ہیں وہ تو کچھ بھی نہیں بول سکتے۔‘
 
ونیزہ کا کہنا تھا کہ ’کچھ ان کہی‘ میں عورتوں کو یہی پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔
 
’خواتین بھیڑ بکریاں نہیں کہ جہاں لگایا، لگا لو۔۔۔ آدمی کا راج نہیں۔ ہم صرف آدمی کی خدمت کے لیے پیدا نہیں ہوئیں۔‘
 
image
 
’شاید صوفیہ مجھ سے زیادہ مضبوط ہے‘
ونیزہ کہتی ہیں کہ صوفیہ کا کردار دیگر خواتین کے لیے ایک رول ماڈل ہے اور اپنی اصل زندگی میں وہ خود صوفیہ کی طرح بننے کی خواہشمند ہیں۔
 
ڈرامے میں صوفیہ کا کردار ایک بہت مضبوط خاتون کا کردار ہے جو نہ صرف اپنے حقوق کے لیے لڑنا جانتی ہے بلکہ دوسروں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھانے سے نہیں ڈرتی۔
 
ونیزہ کے مطابق ’صوفیہ کا کردار میری اپنی شخصیت کے بہت قریب ہے مگر شاید صوفیہ زیادہ مضبوط ہے۔‘
 
’میں کبھی کبھی باتوں پر خاموش رہتی ہوں لیکن صوفیہ نہیں رہتی۔ ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران میں کہہ دیتی تھی کہ نہیں میں اپنے بھائی یا بھابھی کو ایسا کیسے کہہ سکتی ہوں مگر احمد اور ندیم کہتے تھے یہ تم نہیں، صوفیہ کہہ رہی ہے۔‘
 
جب بات ڈرامے کی کاسٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کی آئی تو ونیزہ کے لہجے میں ایک نمایاں خوشی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان (ساری کاسٹ) کو اپنی نئی فیملی کہتی ہوں۔
 
’کوئی پروفیشنل جیلیسی نہیں، سب میری مدد کر رہے تھے۔‘
 
’بڑی عمر کے لوگوں کی لو سٹوری بھی ہو سکتی ہے‘
ڈرامے میں ونیزہ اور بابر علی، جو دونوں بڑی عمر کے کردار ادا کر رہے ہیں، کی لو سٹوری بھی نظر آ رہی ہے، جو عمومی طور پر پاکستانی ڈراموں میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
 
ونیزہ نے ہالی وڈ اور بالی وڈ کے کرداروں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں بھی بڑی عمر کے کرداروں کی لو سٹوری ہونی چاہیے۔
 
انھوں نے کہا کہ پہلی کہانیوں میں صرف جوان جوڑے ہوتے تھے مگر ’اب صرف جوان لوگوں کی کہانیاں نہیں رہ گئیں۔ کیا بڑی عمر کے لوگوں کی کہانیاں نہیں ہوتی؟ بالکل ہوتی ہیں۔ اب ثمینہ احمد کی شادی ہوئی اس عمر میں، کتنی خوبصورت لو سٹوری ہے۔‘
 
image
 
’ضروری نہیں سوشل میڈیا پر ہر موضوع پر کمنٹ کیا جائے‘
سوشل میڈیا کے استعمال پر ونیزہ نے کہا کہ ایکٹرز کے لیے اب سوشل میڈیا کا استعمال بطور ایک پلیٹ فارم بہت اہم ہے مگر وہ عادت نہ ہونے اور مصروفیت کی وجہ سے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نہیں کر پاتیں۔
 
وہ اپنی ذاتی زندگی کو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے کتراتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ اداکار بھی سوشل میڈیا پر ہر موضوع پر کمنٹ کریں۔
 
’میں نہیں کرتی اور کئی لوگ ہیں کہ جن کو بات نہیں کرنی چاہیے، پھر بھی وہ کرتے ہیں۔ یہ ہر کسی کا ذاتی فیصلہ ہے۔ ضروری نہیں سیلیبرٹیز کو ہر چیز کے بارے میں پتا ہو۔‘
 
’میرا مذاق اُڑتا ہے کہ جہاں جاتی ہو، ٹہنی توڑ لاتی ہو‘
انٹرویو کے آخر میں ونیزہ نے ہمیں اپنے باغیچے کا دورہ کروایا اور اپنے شوق کے بارے میں کھل کر بات کی۔
 
انھوں نے اپنے باغیچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ بالکل بنجر جگہ تھی۔‘
 
باغیچے میں انھوں نے اپنے ہاتھ سے لگائے مختلف پودوں اور پھولوں کی خصوصیات بیان کیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہاں کی مالی میں خود ہوں۔ میرا مذاق اڑتا ہے کہ میں جہاں جاتی ہوں وہاں سے ایک ٹہنی توڑ لاتی ہوں۔‘
 
ان کی باتوں سے جہاں باغبانی میں ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا، وہیں باغبانی کا آغاز کرنے کی ان کی وجوہات اور بھی اہم معلوم ہوئیں۔
 
انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو ایگزیما ہے اور ڈاکٹر کے مشورے پر اپنی بیٹی کے گرد آب و ہوا تازہ اور صاف کرنے کے لیے انھوں نے قسم قسم کے پودے لگائے مگر بعد میں باغبانی کرنے سے ان کو اتنا سکون ملا جو ان کے ڈپریشن کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوا۔
 
جہاں ونیزہ نے پورے انٹرویو میں اپنی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی وہیں وہ بار بار گھڑی چیک کرتی رہیں کہ کہیں اپنی بیٹیوں کو سکول سے لینے کے لیے وہ لیٹ نہ ہو جائیں۔
 
انٹرویو کے ختم ہوتے ہی ان کے بیٹیوں کی چھٹی کا وقت بھی ہو گیا اور ونیزہ سکول کی جانب روانہ ہو گئیں
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: