دنیا میں نظام مملکت چلانے کیلئے مختلف اصولوں اور نظریات کے تحت قوانین
بنائے اور ان کے نفاذ یا عملدرآمد کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جاتے ہیں
کیونکہ کوئی بھی معاشرہ اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہاں امورِ
زندگی کو چلانے کیلئے ضروری قوانین نہ بنائے جائیں اور معاشرے کی ترقی کا
انحصار ان قوانین پر عمل کرنے میں ہی ہوتا ہے۔ آج دُنیا کے تمام ترقی
یافتہ ممالک میں خوشحالی کی ایک بڑی وجہ قانون کا احترام ہے لیکن افسوس کہ
پاکستان میں قانون کے احترام سے احتراز کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور شجاعت کے اعتبار سے دنیا
کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ افواج پاکستان کی صفوں میں زبردست نظم
و ضبط قائم ہے اور اُن کی اہمیت کا اعتراف عالمی سطح پر مختلف انداز میں
کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا دفاع افواج کی اوّلین ذمہ داری ہے اور وہ اِس مقدس
فریضے کی ادائیگی میں ہر وقت مستعد اور چوکس رہتی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں گزشتہ کئی ادوار میں عسکری اداروں
سے وابستہ کچھ لوگ سیاسی مداخلت میں ملوث رہے لیکن بطور ادارہ پاک فوج
پاکستان کا سب سے منظم ادارہ ہے تاہم گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعات نے
افواج پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کا آئین ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے اور ماضی میں بارہا ہم
سرکاری و نجی املاک کا بھاری نقصان بھی دیکھ چکے ہیں لیکن تاریخ میں پہلی
بار کسی مشتعل ہجوم نے عسکری اداروں اور املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس حوالے سے آئین و قانون بالکل واضح ہے اور ہر جرم کی تفتیش و سزا قانون
میں متعین ہے ۔ فوج، عسکری املاک و تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے پاکستان
آرمی ایکٹ کاسیکشن 59 اور 60 واضح ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر قانون
موجود ہونے کے باوجود پاکستان میں قوانین کی پاسداری کا کوئی تصور نہیں ہے۔
برسہا برس سے جاری قانون سے کھلواڑ کی وجہ سے اس قسم کے سنگین سانحات جنم
لے رہے ہیں۔ حالات کے پیش نظر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارے سیاستدان، قانون
کے رکھوالے اور دیگر لوگ کیا کررہے ہیں اور کیسے ففتھ جنریشن وار کودانستہ
و غیر دانستہ طور پر دوام بخش کر بے گناہوں کی زندگیاں تباہ کی جارہی ہیں ۔
اب بھی اگر فوری ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو نوجوانوں کے ناپختہ ذہنوں میں
زہر بھرنے کا خمیازہ ہمیں ہولناک وقعات کی صورت میں آگے بھی بھگتنا پڑ
سکتا ہے۔قانون کی عملداری کے علاوہ ہمارے پاس اس وقت کوئی راستہ نہیں رہا
کیونکہ اب اگر رعایت دی جاتی ہے تو پھر بقول شاعر:
رشتہِ دیوار و در تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کھا گئی کل ناگہاں جن کو فسادوں کی صلیب
ان میں اِک نور نظر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
کیوں لڑیں آپس میں ہم ایک ایک سنگِ میل پر
اس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ہم نے کبھی مارشل اور ماورائے آئین اقدامات کرنے والے فوجی حکام کی تائید
و ستائش نہیں کی لیکن آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ افراد اور ادارے الگ الگ
ہیں۔ افراد کی غلطیوں کو اداروں سے منسلک کرنا درست نہیں ہے۔ پاک فوج ہمارا
فخر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، فوج کو کمزور کرنا جس کی آبیاری میں
ہمیں 75 سال لگے اور جس کو کمزور کرنا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف
ہوسکتا ہے اور یہ یقیناً پاکستانیوں کا نہیں دشمنوں کا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔
ہم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا افواج پاکستان کی صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ اقدار
کو تسلیم کرتی ہے اور اقوام متحدہ کی امن فورس میں تعیناتی کے ساتھ ساتھ
وطن عزیز میں جب بھی کوئی قدرتی آفات یا دشواری درپیش ہو تو افواج پاکستان
سینہ سپر کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔دہشت گردی کیخلاف اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے
بھی افواج پاکستان کی قربانیاں لازوال ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کی مقبولیت ماضی کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے لیکن
یوں محسوس ہوتا ہے کہ شائد عمران خان کو یہ لگتا ہے کہ آئندہ وزیراعظم وہی
ہونگے جس کی وجہ سے ان کا لب و لہجہ اور انداز دوسروں کیلئے نامناسب حد تک
جاچکا ہے ۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر رہائی کے بعد عمران خان کا جارحانہ انداز کسی بھی
طرح درست نہیں سمجھا جاسکتا۔ ہماری سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام
کو اداروں کیخلاف کھڑا کرنے سے ملک و قوم کی کوئی بہتری نہیں صرف بیرونی
ایجنڈے کی تکمیل ہوسکتی ہے۔
9 مئی کے شرانگیز واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بات کریں تو
پہلے کور کمانڈر کانفرنس اورپھر قومی سلامتی کمیٹی میں آرمی ایکٹ اور
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ شائد وقت کی ضرورت ہے کیونکہ
افواج پاکستان کسی فرد یا جماعت نہیں بلکہ پاکستان کی بقاء کی ضامن ہیں اور
عسکری اداروں کو نشانہ بنانے والوں کو اگر ایک بار چھوڑ دیا گیا تو یہ
راستہ کھل جائیگا اور مختلف گروہ ایسا عمل بار بار دہرانے سے اجتناب نہیں
کرینگے۔
|