ملک میں بڑھتے مسائل اور حکمراں کی خاموشی

د

 ملک کے اندر ہر طرف انتشار،خوف و ہراس، خلفشار، منافرت، بدعنوانی، بے یقینی اور عدم اعتما دکا ماحول ہے اور ملک کے حکمراں خاموش ہیں ۔حالانکہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ قدرت نے ان کے دماغ میں ایساسافٹ وئیر فٹ کر دیا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے مسئلہ کو چٹکیوں میں حل کر لیتے ہیں ۔ پھر ایسا کیا ہے کہ گودی میڈیا کو چھوڑ کر حزب مخالف ، سوشل میڈیا ، بیرون ممالک میڈیا اور عوامی طور پر سب کے سب ملک کے حکمرانوں سے سولات کرنے کی جرأت کرتے رہتے ہیں لیکن سوالات کے جواب میں خاموشی یا پھر سوال کرنے والا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ملک کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے ۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے ۔ ملک اور بیرون ممالک کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ ملک کا وقار بڑھانے والی خواتین پہلوان دہلی کے جنتر منتر پر رات دن اس لئے احتجاج اور مظاہرہ کر رہی ہیں کی ان کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے دبنگ ممبر پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کی شرمناک حرکتوں کے باعث جو جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچی ہے ۔ اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔ لیکن افسوس کہ اس دبنگ ممبر پارلیمنٹ کے خلاف سخت کاروائی کے بجائے اسے سرکاری طور بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس برج بھوشن کے خلاف دو سال قبل ہی خاتون پہلوان ساکشی ملک نے براہ راست وزیر اعظم سے اس دبنگ ممبر پارلیمنٹ کے ذریعہ اپنے جنسی ہراسانی کی شکایت کی تھی اوراسے یقین تھا کہ اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی ۔ لیکن افسوس کہ وزیر اعظم اس نازک اور حسّاس معاملہ میں کوئی کاروائی کیا کرتے بلکہ اب تک وہ خواتین پہلوانوں کے اس جائز مطالبہ اور احتجاج پرایک بیان دینا بھی گوارہ نہیں کیا ۔ ہمارے وزیر اعظم ’’بیٹی پڑھاو ، بیٹی بچاو‘‘ کا نعرہ تو خوب لگاتے ہیں ، لیکن جب ان بیٹیوں کی عصمت بچانے کا معاملہ سامنے آتا ہے تو پوری طرح خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ کٹھوعہ ، ہاتھرس ، اناؤاور ایسے دیگر بہت سارے حسّاس معاملے میں بھی وزیر اعظم خاموش ہی نظر آئے ۔ بلقیس بانو کے زانیوں کو سنسکاری بنا کر جیل سے رہا کیا گیا انھیں پھول مالا پہنایا گیا ،جس کی مذّمت پورے ملک میں ہوئی لیکن افسوس کہ اس غیر انسانی حرکت پر بھی ہمارے حکمرانوں نے خاموشی کو راہ دی ۔برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کے ہی رکن اور سابق گورنر بہار و کشمیر ستیہ پال ملک نے معروف صحافی کرن تھاپڑ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں، تھیک عام انتخابات کے وقت پلوامہ میں چالیس جوانوں کی شہادت اور ملک کی سا لمیت سے منسلک بہت ہی سنگین انکشافات کئے ، اس پر بھی حکمرانوں کے لبوں پر خاموشی طاری ہے ۔ ان چالیس شہیدجوانوں کو 2019 ء کے عام انتخابات کے وقت خوب یاد رکھاگیا ، بات بات پر ان شہیدوں سے جذباتی لگاؤ کا اظہار کیا گیا اور تو اور انتخابی جلسوں میں ان شہیدجوانوں کی تصاویر کا بینر لگا کر عوام سے بڑے جذباتی انداز میں ووٹ مانگے گئے تھے ، گرچہ بعد میں الیکشن کمیشن نے انتخابی جلسوں میں ان شہید جوانوں کی تصاویر کو ہٹانے کا حکم صادر کیاتھا اور تصاویر کے بینر ہٹا لئے گئے تھے ۔ ان شہیدوں کے سلسلے میں بلا شبہ ستیہ پال ملک نے جو انکشافات کئے ہیں ، وہ بہت ہی اہم ہیں ۔ سوال یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ملک کے جانباز ہلاک ہوئے ، ا س سلسلے میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انکوائری رپورٹ سامنے کیوں نہیں آئی ہے ۔ ستیہ پال ملک نے کشمیر اور گوا میں جس طرح بی جے پی کے بڑے نیتاوں کی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا ہے ، وہ بھی اہم سوال ہے ۔ لیکن ان تمام سوالات کے جواب میں صرف خاموشی ہے ۔ ہنڈن برگ کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے دیرینہ دوست گوتم اڈانی کے عالمی سطح پر امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر سے چند برسوں میں ہی دوسرے نمبر پر کیسے پہنچ گئے، نیز راہل گاندھی نے ایک بڑا سوال یہ بھی کیا کہ ماریشش کی کمپنی میں بیس ہزار کروڑ روپئے جو لگائے گئے ہیں وہ کس کے ہیں ؟ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے سوال کرنے والے کو ہی پارلیمنٹ سے نکال باہر کر دیا گیا ۔ ہنڈن برگ کی دھماکہ خیز رپورٹ پر وزیر اعظم خاموش ہی رہے ، کم از کم اپنے دیرینہ دوست کی حمایت میں کچھ تو بولتے ۔ راہل گاندھی اور حزب مخالف رہنماؤں نے رافیل سودے پر سوال در سوال کرتے رہے ،لیکن اس پر بھی حکمراں خاموش ہی رہے ۔ اسرائیل کی ایک کمپنی سے راہل گاندھی سمیت ملک کے کئی حزب مخالف رہنماوں کے ساتھ ساتھ کئی سرکردہ شخصیات کی جاسوسی کے لئے جدید جاسوسی آلات پیگاسس کے خریدے جانے کا معاملہ اجاگر ہو ا ، لوگ سوال پوچھتے رہے لیکن افسوس کہ اس کا بھی کوئی مدلّل جواب نہیں دیا گیا ۔ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہر جمہوری ملک میں وزیر اعظم کی ہر بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے وزیراعظم ادھر ادھر کی باتیں تو خوب کرتے ہیں ، لیکن جب کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ چپی ساد ھ لیتے ہیں ، جس کی وجہ کر بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اب دیکھئے کہ چین کی دراندازی ملک میں بڑھتی جا رہی ہے ، لیکن بقول خود ( سابق وزیراعظم منموہن سنگھ مہنگائی کا’ مہ‘ بولنے کو تیار نہیں) وہ چین کا ـ’چ‘ بولنے کو بھی تیار نہیں ہیں ۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جمہوری ملک کا وزیر اعظم کسی خاص طبقہ ، ذات یا مذہب کا نہیں ہوتا ، وہ پورے ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے ۔ جس پر پورے ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور منصفانہ عمل جیسی بڑی ذمّہ داری ہوتی ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے وزیر اعظم مسلسل ملک کے اندر نفرت اور فرقہ واریت کازہر گھولنے والوں کی نہ صرف پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ خود اس کے حصہ بن جاتے ہیں ۔ کرناٹک کے اسمبلی انتکاب میں انھوں نے جس طرح اپنی انتخابی تقریر کے دوران کانگریز مے منشور میں بجرنگ دل پر پابندی عائد کئے جانے وعدہ تھا ۔ اسے انھوں نے بجرنگ بلی سے منسلک کرتے ہوئے نہ صرف بجرنگ دل جیسی فرقہ پرست اور منافرت کو فروغ دینے والی تنظیم کی حمایت کی بلکہ بجرنگ بلی کے مذہبی وقار کو مجروح کیا۔ اسی طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف اوردو مذاہب کے درمیان منافرت پھیلانے والی پروپیگنڈہ فلم’ دی کیرلہ اسٹوری ‘ اور اس سے قبل ’ دی کشمیر فائل ‘ کو وہ عوامی طور پروموٹ کر رہے ہیں لیکن بی بی سی ،لندن کی گجرات المیہ پر بنائی گئی فلم پر نہ صرف وہ چراغ پا ہوتے بلکہ اس پر بین لگاتے ہیں۔اس کے پیچھے ان کا مقصد کیا ہے ، یہ بہت ہی واضح ہے۔

ایسے غیر ضروری اور ملک کی یکجہتی اور سا لمیت کو نقصان پہنچانے والے معاملات کے بجائے وزیراعظم ملک کے در پیش مسائل پر توجہ دیں تو اس سے نہ صرف ان کا امیج بنے گا بلکہ ملک اور بیرون ممالک میں بہتر شبیہ دیکھنے کو ملے گی ۔ اس وقت ہمارا ملک بلا شبہ بہت ہی مشکل دور اور حالات سے گزر رہا ہے ۔ غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری ، فرقہ پرستی ، بدعنوانی ، ظلم و تشدد ، خوف و ہراس ، مذہبی تعصب ، انتشار وخلفشار کا دور دورہ ہے ۔ ایسے مسائل سے گھرے عوام کا پریشان ہونا فطری ہے لیکن افسوس کہ ان پریشان حال لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ حکومت سے سوال کرنا اب جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ کسی نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دبی زبان میں سوال کر دیا تو اس شخص کے حصے میں پولیس کی ٹھوکریں ، ای ڈی ، سی بی آئی ، انکم ٹیکس کی ریڈ، جیل اور پھر بلڈوزر سے اس کا آشیا نہ کا انہدام۔ اب اس خوف و دہشت کے ماحول میں کس کی ہمّت ہے کہ کوئی سوال کرے۔ حالانکہ ہمارے وزیر اعظم بذات خود پارلیمنٹ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ میں انتظار میں رہتا ہوں کہ کوئی ہم پر تنقید کرے ، کیونکہ جمہوریت میں تنقید کی اہمیت ہوتی ہے ‘۔ وہ بولنے کو تو بولتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر تنقید برداشت کرنے کی قوت نہیں ہے ۔

گزشتہ چند ہفتوں میں ملک کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے ۔ اسے دیکھ کر ملک کے ہر باشعور اور حصاس شہری کی فکر مندی لازمی ہے ۔ ابھی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کا جی ڈی پی گزشتہ چالیس برسوں میں سب سے نیچے - 23.9% پر آگیا ہے ۔ اس سے ملک کی معیشت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔3 ؍مئی 2023 ء کو ’عالمی یوم آزادی ٔ صحافت ‘ کے موقع پر عالمی میڈیا مانٹیرنگ ادارہ ’ آر ایس ایف ‘ کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں ہندوستان 180 ممالک کے مقابلے 161 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے ، جو آزادیٔ صحافت کے لئے ہندوستان کی درجہ بندی میں ذلّت آمیز کمی کی جانب نشاندہی کرتی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 ء سے اب تک ملک میں ایک صحافی کو قتل کیا گیا اور دس صحافیوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے ۔ گزشتہ سال آزادیٔ صحافت کے معاملے میں ہندوستان 150 ویں مقام پر تھا ۔ ملک کی تنزلی کی ایک اور خبریہ ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF ) نے مسلسل چوتھی بار اپنی سالانہ رپورٹ میں ہندوستان کو خاص تشویش والا ملک ( CPC ) کے طور پر نامزد کرنے کی سفارش کی ہے ۔ واضح رہے کہ ملک میں مذہبی آزادی کی صورتحال تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ ریاستی اور مقامی سطح پر مذہبی امتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے اور ایسے قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں جس میں تبدیلیٔ مذہب ، بین المذاہب تعلقات ، حجاب ، گائے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں ، عیسائیوں ، سکھوں ، دلتوں اور آدیواسیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا باعث بن رہا ہے ۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ہندوستانی حکومت پر یہ بھی یہ الزام لگایا کہ وہ تنقیدی آواز کو دبا رہی ہے خاص طور پر مذہبی ، اقلیتوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کی نگرانی ، ہراساں کرنے ، املاک مسمار کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے ) کے تحت حراست کے ذریعہ اور غیر سرکاری تنظیموں کو غیر ملکی کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA ) کے تحت نشانہ بنایا گیا ۔ جو لوگ بڑی بے شرمی سے یہ کہتے ہیں کہ 2014 ء سے قبل ملک میں ترقی کی کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی ہے ، ایسے لوگوں کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ 2014 ء میں عالمی سطح پرملک میں بھوک مری صرف 55 ویں نمبر پر تھاجب کہ موجودہ اقتدار میں ملک کی بھوک مری 121 کے مقابلے 107 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے ۔صحت کے معاملے میں ملک 2014 ء میں جہاں 85 ویں نمبر پر تھا آج 146 ویں نمبر پر ہے ، انسانی آزادی 2014 ء میں 106 پر تھا آج 150 ویں نمبر پر ہے ، ماحولیاتی تحفظ میں ملک 2014 ء میں 155 نمبر پر تھا آج 180ویں مقام پر آنسو بہا رہا ہے ، اسی طرح بار بار جمہوریت کی دہائی دینے والے یہ بھی سن لیں کہ 2014 ء میں ملک کی جمہوریت کو33واں مقام حاصل تھا ،وہ آج 93نمبر پر پہنچ کر شرمسار ہو رہی ہے اور تو اورہمارا ملک اس وقت 1,31,100 ملین ڈالر کے قرض ڈوبا ہوا ہے ،ساتھ ہی ساتھ اگر فوربرس میگزین کی رپورٹ پر بھروسہ کیا جائے تو اس وقت مودی سرکار ایشیا کی سب سے کرپٹ حکومت ہے۔ یہ ہے حکومت ہندکی حصولیابی کا بہت ہی چھوٹا سا نمونہ ۔ اب ایسے حالات میں بھی اگر ہمارے وزیر اعظم یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ ان کی وجہ کر ہی اس ملک کا وقار بیرون ممالک میں بڑھا ہے تو اسے مضحکہ خیز ہی کہا جائے گا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی ان تمام حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے چند روز قبل ہی فرما رہے تھے کہ ’’ ہندوستان کی ترقی اور جمہوریت کی تعریف پوری دنیا کر رہی ہے ‘‘۔ بی جے پی صد ر جے پی نڈّا نے تو مودی کی خوشنودی کے لئے ایک قدم اور بڑھ کرکرناٹک کی ایک انتخابی ریلی میں کہا ہے کہ ’ ’9 سال قبل ہندوستان گھٹنے ٹیک رہا تھا ، مودی جی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اب ہندوستان دنیا میں سکّہ جمانے والا ملک بن گیا ہے ۔‘ ‘۔ اب ایسے ناعاقبت اندیشوں کے بیان سے وقتی طور پر کچھ ’’اندھ بھکت‘‘ تو خوش ہو سکتے ہیں لیکن حقیقت حال بہت ہی تشویشناک ہے ، جن پر وزیر اعظم کو اپنی چپّی توڑنی چاہئے اور بہت سنجیدگی سے ملک کے اہم مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ایسی لمبی خاموشی اور بے توجہی سے ملک کو جو نقصان ہو گا ، اس کا ازالہ بہت ہی مشکل ہوگا۔

٭٭٭٭٭٭

 

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 107358 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More