عوام اور اداروں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کے حکم پر رینجرز کی جانب سے گرفتار کئے جانے کے فوری بعد ملک میں انتشار پیدا کرنے، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی منظم وارداتوں سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بعض عناصر کو اس موقع کا ہی انتظار تھا اور وہ معصوم لوگوں کو اکسانے اور مشتعل کراتے ہوئے ملک دشمنی پر شعوری طور پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اگر چہ اس گرفتاری کے چند گھنٹے بعدہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیدیا ۔عمران خان 7 مقدمات میں ضمانت کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔ رینجرز نے ان کو حراست میں لیا۔ عدالتی احاطے سے گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام اْباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر پی ٹی آئی سربراہ کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تو انہیں رہا کرنا پڑے گا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے بدلے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی زمین لینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بحریہ ٹاؤن نے جس کا 50 ارب روپیہ ایڈجسٹ کیا گیا، اس نے 458 کنال کی جگہ کا معاہدہ کیا جس کی مالیت کاغذات میں 93 کروڑ روپے جبکہ اصل قیمت پانچ سے 10 گنا زیادہ ہے اور یہ زمین بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی، اس زمین کو بحریہ ٹاؤن نے عطیہ کیا اور اس میں ایک طرف دستخط بحریہ ٹاؤن کے عطیہ کنندہ کے ہیں اور دوسری جانب سابق خاتون اول بشریٰ خان کے ہیں، یہ قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی جس کے دو ہی ٹرسٹی ہیں جس میں پہلی بشریٰ خان ہیں اور دوسرے سابق وزیر اعظم ہیں۔

عمران خان7 مقدمات میں ضمانت کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے جہاں سے رینجرز نے انہیں منگل9مئی کو دوپہر تقریباً سوا دو بجے ان کو حراست میں لیا۔گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ عمران خان متعدد نوٹسز جاری ہونے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ گرفتاری کے بعد اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل کر دیا گیا۔ عمران خان کو نیب آرڈیننس 1999 کے سکیشن 9 اے کے تحت گرفتار کیاگیا۔ نیب نے 34 اے، 18 ای، 24 اے کے تحت کارروائی عمل میں لائی۔نیب کے مطابق عمران خان پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مقدمہ القادر یونیورسٹی کے لئے زمین کے غیرقانونی حصول اور تعمیرات سے متعلق ہے جس میں نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ کے ذریعے بنیادی رقم 190 ملین پاؤنڈز کی وصولی میں غیرقانونی فائدہ شامل ہے۔ نیب راولپنڈی کا کہنا ہے کہ اس نے انکوائری اور انویسٹی گیشن کے قانونی طریقہ کار کو پورا کرنے کے بعد عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی۔ انکوائری/انویسٹی گیشن کے عمل کے دوران سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو متعدد کال اپ نوٹس جاری کئے گئے کیونکہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز تھے۔ سابق وزیراعظم یا ان کی اہلیہ کی طرف سے کسی بھی کال اپ نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا۔ سابق معاون خصوصی برائے وزیراعظم شہزاد اکبر مذکورہ کیس میں ملوث کلیدی کردار ہیں۔عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے تصفیہ معاہدے سے متعلق حقائق/دستاویزات کو چھپا کر اپنی کابینہ کو گمراہ کیا، 190 ملین برطانوی پاؤنڈز رقم تصفیہ/معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور قومی خزانے میں جمع ہونی تھی، اس کے برعکس رقم کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 460 ارب روپے کی ادائیگی کے معاملے میں ایڈجسٹ کیا گیا۔

سابق وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی مفرور شہزاد اکبر کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد ہی 15 منٹ میں آئی جی اسلام آباد پولیس کو طلب کیا۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل 15 منٹ میں پیش ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں، اگر 15 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو وزیراعظم کو طلب کرلوں گا، پیش ہو کر بتائیں کہ کیوں کیا، کس مقدمے میں کیا؟۔آئی جی اسلام آباد نے نیب وارنٹ کی کاپی عدالت میں پیش کی۔

عمران خان کی گرفتاری کو سب پہلے عدالتی آزادی پر حملہ اور گرفتاری کوغیر قانونی قرار دیا گیامگر تفصیلات کے بعد موقف درست کیا گیا۔یہاں تک کہ چیف جسٹس صاحب نے بھی اس گرفتاری کو وکلا پر حملہ، ادارے اور میرے اوپر حملہ قرار دے دیا ۔چیف جسٹس نے کہاــ’’ آپ کے سامنے ہے، وکلا کے سر پھٹے ہوئے ہیں، ان کے اوپر حملہ، اس ادارے کے اوپر حملہ، میرے اوپر حملہ، کیا میں ایسے ہی جانے دوں؟‘‘۔ اس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کیا پارکنگ، بار رووم کو کورٹ سمجھا جائے گا؟۔بعد ازاں ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان بیگ سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب نے وارنٹ کی کاپی دکھائی تھی کیا وہ جاری کیا گیا ہے؟ سردار مظفر نے کہا کہ بالکل وارنٹ جاری ہوا ہے، یکم مئی کا وارنٹ ہے، ہم نے وزارت داخلہ کو وارنٹ کی تعمیل کیلئے درخواست کی تھی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق معاملے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے مناسب آرڈر جاری کریں گے۔بعد ازاں محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔عدالت نے 23 مئی تک ضمانت منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پولیس سے ریکارڈ طلب کر لیا۔

یہ بھی حیران کن ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے روانہ ہونے سے قبل ایک ویڈیو پیغام میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی توپوں کا رخ پاک فوج کی جانب کیا۔انہوں نے ایک انٹیلی جنس افسر کا نام لیاکہ انہوں نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی۔وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی 50 ارب روپے کی رقم عمران خان نے برطانیہ منتقل کی اور اسے مروجہ قانون کے تحت منتقل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ رقم وہاں ٹریس ہو گئی اور برطانوی حکام اور نیشنل کرائم ایجنسی نے اس رقم کو ضبط کیا۔ برطانوی حکام نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے آگاہ کیا کہ یہ رقم غیر قانونی ذرائع سے ان کے پاس پہنچی ہے اوروہ اسے قبضے میں لے رہے ہیں۔ اس کی ملکیت حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کی ہے تو یہاں سے ایسٹ ریکوری یونٹ کے شہزاد اکبر نے ریاست کی طرف سے اس معاملے کو دیکھا لیکن انہوں نے اس رقم کو پاکستان کے عوام کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اپنا حصہ مبینہ طور پر 5 ارب روپے طے کر کے دو نمبری کا طریقہ کار بنایا۔ اس کے علاوہ 200 کنال مزید ہے، اس میں 100 کنال اراضی بنی گالا میں ہے اور یہ مسماۃ فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی ہے۔مارچ 2021 میں مزید 100 کنال اراضی بھی فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی، اگست میں مزید 40 کنال اراضی منتقل کی گئی۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد لاہور میں پاک فوج کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ اور توڑ پھوڑکی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا کہ پی ٹی آئی حامیوں کی بڑی تعدادوہاں پر موجود تھی۔وہاں پر لوٹ مار بھی کی گئی۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک میں پاک فوج کے سب سے بڑے ہیڈ کوارٹرز، راولپنڈی میں جی ایچ کیو سمیت پشاور اور دیگر شہروں میں پاک فوج اور دیگر سرکاری تنصیبات اور گاڑیوں پر ہجوم نے حملے کئے۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی۔ فورسز کی چوکیوں کو نذر آتش کر دیا۔وزیراعظم شہبا شریف نے سوال کیا کہ اداروں پر مذموم حملے اور غلط بیانیاں آپ کی سیاست کا تعارف ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی بتائیں کہ کس کے کہنے پر فوج کے خلاف مہم چلائی؟۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے کوئی شک نہیں کہ سفید جھوٹ، غلط بیانیاں، یوٹرنز اور اداروں پر مذموم حملے آپ کی سیاست کا تعارف ہے، آپ کا رویہ عدلیہ کو اپنی خواہشات کے حق میں جھکانا اور قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا جیسا ہے، گزشتہ چند سال کے ٹھوس حقائق سے جو کچھ ثابت ہوا ہے، اسی کی بنیاد پر آپ کے بارے میں اپنی ٹوئٹ میں، میں نے لکھا ۔

یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بار بار پاکستان آرمی کو بطور ادارہ بدنام کرنا آپ کی سیاست کا طریقہ کار رہا ہے، وزیرآباد واقعے سے بھی پہلے سے کیا آپ آرمی، انٹیلی جنس اداروں اور ان کی قیادت پر مسلسل کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھے ہوئے؟۔ ہر روز دھمکانے، بے بنیاد الزام لگانے کے سوا آپ نے کون سا قانونی طریقہ کار اپنایا؟۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کی گئی تعاون کی پیشکش ٹھکرا دی گئی اور قانونی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ عمران خان کو کبھی بھی سچائی کی کھوج میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں بلکہ قابل مذمت واقعے کو اپنے گھٹیا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ ہیلی کاپٹر حادثہ کے بعد شہداء اور مسلح افواج کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم کس کی ایماء پر چلائی گئی؟ کس جماعت کے ٹرول بریگیڈ نے شہدا کا مذاق اڑایا جو سیاست میں ناقابل تصور اور کلچر میں ایک نئی کم ظرفی کا مظہر تھا۔وزیراعظم نے سوال کیا کہ کیا آپ جیسے ایسے مذموم اہداف اور عزائم رکھنے والوں کی موجودگی میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو کس نے استعمال کیا؟، اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مذہبی اصطلاحات کو کس نے متعارف کرایا؟ نہایت چالاکی اور ذاتی سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے حامیوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو تشدد کے خطرات سے دوچار کیا گیا؟ کیاپی ٹی آئی راہنماؤں نے مسجد نبویﷺ کے تقدس و احترام کو پس پشت ڈالتے ہوئے خاتون وزیر سمیت سرکاری وفد کے لوگوں کو ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا نشانہ بنانے کی افسوسناک حرکت کی تاویلیں، دلیلیں اور جواز نہیں گھڑے تھے؟سابق وزیراعظم کے طور پر کرپشن پر جاری ٹرائل کا سامنا کرتے ہوئے وہ چاہتے ہیں کہ قانونی و سیاسی نظام کو درہم برہم کر دیا جائے، ان کی دانست میں پاکستان جنگل بن چکا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی عمران خان کی جانب سے فوجی افسران پر بے بنیاد الزامات کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں کہ انہیں مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔عمران خان سوال کر رہے تھے کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کئے جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ وطیرہ بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے، عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کئے۔عمران خان پر باور کیا جا رہا تھا کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں، ادارہ واضح طور پر جھوٹے، غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ گزشتہ سال وزیر آباد میں پی ٹی آئی سربراہ پر قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااﷲ اور ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار کو ان کے قتل کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا ۔گزشتہ ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی کے درمیان چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لیے پی ٹی آئی کی مختلف شہروں میں نکالی گئی احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر سخت تنقید کی ۔عمران خان نے ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس شخص کا نام یاد رکھنا جس نے مجھے پہلے بھی دو بار مارنے کی کوشش کی۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد قانونی جنگ لڑنے کے بجائے سڑکوں پر امن و امان کا مسلہ کھڑا کرنا، کسی شخص، جتھے یا سیاسی جماعت کو شہر کو مفلوج بنانا یا اس کے حق میں دلائل دینا بلا جواز ہو سکتا ہے۔ پر امن احتجاج سب کا ھق ہے مگر اس کی آڑ میں کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ کراچی کی شاہراہ فیصل پر ہنگامہ آرائی، سرکاری و نجی املاک سمیت نئی پیپلز بس سروس اور واٹر بورڈ کی گاڑیوں کو نذر آتش کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔یہ سب قومی املاک ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے یہ سرکاری املاک یا تنصیبات تیار ہوئی ہیں۔ان کو تباہ کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں تشدد شروع ہونے کے بعد امریکا اور برطانیہ کے اعلیٰ سفارتی عہدیداروں نے پاکستان میں ’قانون کی حکمرانی‘ کی پاسداری کا مطالبہ کیا۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قانون کی حکمرانی اور آئین کے مطابق ہو۔ انٹونی بلنکن کے ساتھ برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا کہ برطانیہ کے دولت مشترکہ کے رکن پاکستان کے ساتھ ایک دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں۔ ہم اس ملک میں پرامن جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کرین جین پیئر نے پاکستان کی صورتحال کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ امریکا ایک سیاسی امیدوار یا پارٹی کے مقابلے میں دوسرے کی طرف داری نہیں کرتا۔واشنگٹن میں اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ملک میں تمام سیاسی شخصیات کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا کہ ہماری تشویش اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی شخصیات کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے اور یقیناً مناسب عمل کی پیروی کی جائے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ یقینی بنانے کے لئے کہ ہمارے خدشات کو دور کیا جا رہا ہے ہم اس عمل کی پیروی کریں گے۔واشنگٹن میں لندن کی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ہیڈکوارٹر سے جاری کردہ ایک بیان شیئر کیا اور متنبہ کیا کہ سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد عمران خان کے حامیوں اور سیکیورٹی نافذ کرنے والوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا گیاکہ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی ردعمل متناسب، قانونی حیثیت، ضرورت اور عدم امتیاز کے اصولوں کے مطابق ہو۔جنوبی ایشیائی امور کے واشنگٹن میں مقیم اسکالر مائیکل کوگل مین نے ایک ٹوئٹ میں نشاندہی کی کہ پاکستان کی صورتحال دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔آج ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی فوج کی برداشت حد تک پہنچ گئی ہے، پولیس کی جانب سے کئی جھوٹی شروعات/گرفتاری کی ناکام کوششوں کے بعد، اس بار فوج نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کرنے والے سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے بھی عمران خان کی گرفتاری کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے، میں اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔انہوں نے پاکستان کے اتحادیوں جیسے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر بھی زور دیا کہ وہ اس صورت حال کی کشیدگی کم کرنے میں مدد کریں۔

زلمے خلیل زاد کن دور رس نتائج کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس بارے میں پاکستان کے باشعور عوام کو انتہائی محتاط انداز اپنانا ہو گا۔ وہ دشمن اور اس کے آلہ کاروں کی اشتعال انگیزی اور اکسانے کے اقدامات کی سوجھ بوجھ رکھیں تو معاملات پیچیدہ نہیں ہو سکتے۔ غیر ملکی بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کو مشتعل کر رہے ہیں۔ عوام کو اداروں کے روبرو کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج نے محاذ آرائی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کر کے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔ آئیندہ بھی اس حکمت عملی کے تحت ملکی مفاد کو تمام مفادات پر ترجیح دینے سے ہی شرپسندی اور تخریب کاری سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عمران خان کو اپنے دفاع کا موقع دیا جائے۔ اس کیس سمیت تمام عدالتی مقدمات کو آئین و قانون کے مطابق انتہائی غیر جانبداری اور شفافیت سے ہی نمٹا نے سے دشمن کے لئے آپس میں دراڑیں ڈالنے کا موقع ختم ہو سکتا ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555188 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More