وقت کی رفتار دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے ٹرین
کی طرح بس بھاگتا ہی جا رہا ہے ماضی کو دھندلاتا حال کی ریت اڑاتا مستقبل
کے نشان ڈھونڈتے بس بھاگے جا رہا ہے۔ غور کرو تو معلوم ہوتا ہے ابھی کل ہی
کی تو بات تھی کھلونوں سےکھیلا کرتے تھے ماں کی گود کے لیے لڑا کرتے تھے
کھلونا ٹوٹنے پر بابا سے نئے کھلونے کی ضد کیاکرتے تھے راتوں کو نانی کی
کہانیاں سن کے سویا کرتے تھے اسکول کی وہ یادیں وہ دوستوں سے کیے کچے پکے
وعدے وہ دوست کی جگہ کے لیے دوسرے بچوں سے لڑا کرتے تھے استاد کی ڈانٹ کو
ہنس کے اڑا دیا کرتے تھے کان پکڑے قطار میں کھڑے وہ دوست کی ٹانگیں کھینچا
کرتے تھے۔ کتنی جلدی گزر گئے ہنستے کھیلتے یہ دن کتنے جلدی ھم بڑے ہوگئے
زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں پر سر جھکا کے، کٹھن راستوں پہ چلنے لگے ہیں وہ
کھلونوں کے لیے ضد کرنا وہ ماں کو صرف اپنا کہنا وہ بہن بھائیوں سے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر ناراض ہونا پھر خود ہی کہنا لڑائی لڑائی معاف کرو اللّٰہ کا
گھر صاف کرو اور اسی خوشی اور اللّٰہ کے ڈر سے راضی ہوجانا کتنا آسان تھا
روٹھوں کو منانا۔۔۔سب کتنا پیچھے رہ گیا ہے سب کتنا اجنبی سا ہوگیا ہے سب
کتنا بدل سا گیا ہے کتنی مصروف ہو چلی ہے یہ زندگی وقت ہی نہیں رہا ہی سب
دہرانے کو پھر سے وہ لمحے یاد کرنے کو کتنی جلدی ہم بڑے ہوگئے زندگی کے بڑے
فیصلے کرنے لگے گریڈز کی دوڑ میں اگے نکل جانے کی جستجو میں پیسہ بنانے کی
دوڑ میں رشتوں کو پیچھے چھوڑ کے آگے بھاگنے لگے وقت کو تھامتے تھامتے اپنی
زندگی کے کئی سال ماضی کے حوالے کر دئیے کب پتا ہی نہیں چلا۔وقت بھی کتنا
عجیب ہے انسان کو کتنی جلدی ایک معصوم سے بچے سے ایک با ہمت زندگی کے ہر
موڑ سے ٹکرا جانے والا انسان بنا دیتا ہے۔ اس وقت کی ریت میں ہم کہیں کھو
سے گئے ہیں چلو آج تھوڑا ٹھہر کے دیکھتے ہیں تھوڑی دیر یہیں رک کے دیکھتے
ہیں کچھ پرانے دوستوں سے پھر اک بار مل کے دیکھتے ہیں اپنی ماں کی گود میں
اک بار سر رکھ کے دیکھتے ہیں چلو پھر سے بابا سے انگلی پکڑے ضد کر کے
دیکھتے ہیں۔۔آو وقت کے ساتھ چل کے دیکھتے ہیں تھوڑا ٹھہر کے دیکھتے ہیں۔۔۔۔
|