پردیس

پردیس میں جانے کا سبھی کو بہت شوق ہوتا ہے۔ پردیس جائیں گے، زندگی بنائیں گے، پیسے کمائیں گے، خوش رہیں گے۔ لیکن یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں بس۔ جیتنا پردیس کو دیکھ کے اس میں رہنے کا دل کرتا ہے اتنا ہی اس میں رہ کے اسے دل آزاری سی ہونے لگتی ہے۔ پردیس میں رہنا وہ بھی اکیلے دنیا کا سب سے مشکل فیصلہ ہے۔ماں، باپ، گھر والوں سے دور چاہے کوئ خوشی ہو یہ کوئی غم سب اکیلے سہنا پڑہتا ہے۔ پردیس میں سب سے دور جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے تو بابا کے لاڈ یاد آتے ہیں اور جب تپتے بخار میں خود اٹھ کے دوائی کھانی پڑتی ہے تو ماں کی ٹھنڈی پٹیاں یاد آتی ہیں۔ جب اپنے چھوٹے سے کمرے میں اکیلے بیٹھے ہو ، بات کرنے کے لئے کوئی نہ ہو تو اپنا گھر اور اپنے بہنوں بھائیوں کے جھگڑے یاد آتے ہیں۔ جب عید میں دل لگانے کے لیے کوئی اپنا نہ ہو تو آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں۔ یہ سب سہنا پڑتا ہے ایک پردیسی کو یہ باتیں دل میں دبا کہ اگلے دن ایک مسکراتا ہوا چہرہ سب کے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ گھر والوں سے بات کرتے ہوئے اپنا اکیلا پن اپنا درد اپنی کھنکتی ہوئی ہنسی میں چھپانا پڑتا ہے کیوں کہ وہ یہ سب کچھ اپنے ماں باپ کا نام روشن اور انہیں خوش دیکھنے کے لئے ہی تو کرتا ہے۔ زبان ترس جاتی ہے ماں کے ہاتھ کا کھانا کھانے کو اور کان ترس جاتے ہیں ابّا کی آواز سننے کو۔اتنا آسان نہیں ہے ایک پردیسی بننا۔اور ایک بار جو انسان پردیسی بن جائے تو وہ کبھی واپس اپنے گھر کا نہیں ہوپاتا۔پردیس گھر بن جاتا ہے اور گھر وہ جگہ جہاں آپ سال میں ایک دفعہ یا دو سال میں ایک دفعہ چھٹیاں منانے کے لیے آتے ہیں۔جہاں اماں ابا ابا سے ایک اسپیشل ٹریٹمنٹ مل رہی ہوتی ہے جس سے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب آپ گھر میں ایک مہمان ان ہیں۔ ۔بہت مشکل ہے فیصلہ ہے ایک پردیسی بننا بنا سوچ سمجھ لینا چاہئے ہیں یہ فیصلہ۔

 

Hadia Saeed
About the Author: Hadia Saeed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.