مثل مشہور ہے ’آسمان سے گرے تو کھجور میں اٹکے‘، مودی
سرکار کا حال یہ ہے کہ ڈگری سے نکلے تو فائل میں پھنسے ۔ وزیر اعظم نریندر
مودی کی نسل کے لوگ اپنے گھر میں ڈگری کے ساتھ اسے وصول کرتے ہوئے گاون
پہنےاپنی تصویر بھی آویزاں کرتے تھے۔ اس روایت سے انحراف کرنے والے بھی
لوگ موجود تھے مگر مودی جیسا خود پسند اور تصاویر کا دلدادہ اگر ایسا نہ
کرتا تو وہ اس کی نرگسیت کی تردید ہوجاتی ۔ وزیر اعظم کی ڈگری اگر اصلی
ہوتی تو ہر سرکاری دفتر میں لگائی جاتی اور تصویر موجود ہوتی تو ہر بھگت کے
گھر میں ٹنگی نظر آتی لیکن فی الحال آئی ٹی سیل بھی اس کو فوٹو شاپ کرنے
کی جرأت نہیں کررہا ہے کیونکہ دودھ کا جلا چھاچ بھی پھونک پھونک کے پیتا
ہے۔ ڈگری معاملہ میں کیجریوال کو ڈرانے کے لیے ہائی کورٹ کے ذریعہ جرمانہ
لگوایا تو سپریم کورٹ سے بلقیس بانو کے مجرمین کی فائل کا جن باہر نکل آیا
اور اس نے سرکار کی نیند اڑا دی ۔ فی الحال تو مسلمانوں کو سبق سکھانے کا
دعویٰ کرنے والے وزیر داخلہ کو سپریم کورٹ پٹائی لگا رہا ہے۔ کبھی تو اس کے
خوف سے بدمعاشِ زمانہ رکن پارلیمان برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آر درج
ہوجاتی ہے۔ اس سے نکلتے ہیں تو وہ عتیق احمد و اشرف کے قتل اور اسد و غلام
کے انکاونٹر کی رپورٹ طلب کرلیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس کے 11 خاطیوں کی رہائی پر مرکزی حکومت اور
گجرات سرکارسے کئی سوالات کئے اور کہا کہ جرم کی سنگینی کو پیش نظر رکھنا
چاہئے تھا۔اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ایسا نہیں کیا گیا ۔ ان مجرموں کی قبل از
وقت رہائی کی وجوہات طلب کرتے ہوئے بینچ نے قید کی مدت کے دوران انھیں
پیرول پر رہا کرنے کے بارے میں بھی استفسار کیا۔جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس
بی وی نا گارتنا کی بینچ کے مطابق اس معاملے میں رہائی ایک ایسی مہربانی ہے
جو ان کے جرم سے میل نہیں کھاتی۔ بینچ نے زور دے کر کہا کہ ’ریکارڈ دیکھئے
، ایک کو ہزار دن کے پیرول پر رہا کیا گیا جوکئی سال ہوتے ہیں۔ آپ کس
پالیسی پر عمل کر رہے ہیں؟ ‘ فائل چھپانے کی اصل وجہ یہ ہے اس طرح کے
خوفناک جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں میں سے ہر ایک کو 1000 دن سے زیادہ
کی پیرول ملی ہے۔ ایک شخص تو پیرول پر 1200 دن اور دوسرے کو 1500 دنوں کے
لئے رہا کیا گیا۔ پیرول پر رہائی کا یہ وقفہ تین سے پانچ تک پر محیط ہے۔ اس
کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے جیل کے اندر وہ کم از کم مدت نہیں
گزاری جس کو بنیاد بناکر انہیں رہائی کی سہولت سے نوازہ گیا ۔ اس طرح حکومت
نے قانون کو پامال کیا ہے اور ان مجرمین کو دوبارہ جیل بھیجنے کے ساتھ اس
کمیٹی کو بھی سزا ملنی چاہیے جس نے اس فیصلے پر صاد کہا تھااور ان لوگوں کی
انتخابی کامیابی منسوخ ہونی چاہیے جنھوں نے اس کا فائدہ اٹھا یا۔ بی جے پی
کے جن سیاسی رہنماوں نے ان کے اچھے سنسکار کی گواہی دی ان کو جیل بھیجا
جانا چاہیے۔
آدرش گجرات میں ان سنسکاریوں کو کس طرح سر پرستی کی جاتی ہے اس کا اندازہ
خود ریاستی حکومت کی حلف نامہ میں درج حیرت انگیز انکشاف کیا جاسکتا ہے۔ ان
بدمعاشوں میں سے ایک نام متیش بھٹ ہے۔ اس کے خاندانی نام سے ظاہر ہوتا ہے
کہ وہ مقامی رکن اسمبلی چندر سنگھ راول جی کے ذریعہ بیان کردہ تہذیب یافتہ
برہمن سماج سے تعلق رکھتا ہے۔ اس شخص نے کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے
پیرول پر باہر آنے کے بعد جون 2020 میں ایک خاتون کے ساتھ عصمت دری کرنےکی
کوشش کی ۔ اس معاملے میں رندھیک پور تھانے میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی
اور 57 سالہ متیش بھٹ کے خلاف 19 جون 2020 کو آئی پی سی کی دفع 354, 504,
506 (2) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ۔ 25 مئی 2020 تک 954 دنوں تک پیرول پر
باہر رہنے کے باوجود اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد بھی یہ بدمعاش
مزید281 دنوں تک جیل سے باہر رہا ۔ ضلع پولیس کے سربراہ کو اس کا علم تھا
پھر بھی اسے اچھے اخلاق و کردار کا حامل قرار دے کر وقت سے پہلے چھوڑ دیا
گیا ۔جس معاشرے میں غنڈوں اور بدمعاشوں کو اس طرح تحفظ فراہم کیا جاتا ہو
اور ان کی رہائی پر جشن منایا جائے تو وہاں جرائم کے خاتمہ کی توقع کس طرح
ممکن ہے۔
عدالت نے ان 11 درندوں کو عمر قید کے ساتھ پر 6000 روپئے جرمانہ ادا کرنے
کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے نہ تو یہ معمولی رقم ادا کرنے کی زحمت
کی اور نہ سرکار نے اسےوصول کرنے کی سعی فرمائی ۔ قانون کی نگاہ میں ایسی
حرکت کرنے والے قیدی کی سزا میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ حکومت نے یہ تو
تسلیم کیا کہ یہ رقم موصول نہیں ہوئی مگر یہ نہیں بتایا اس کے عوض کتنی
اضافی سزا دی گئی۔ حکومت کے لیے یہ بتانا ممکن نہیں تھا تو کم ازکم یہ بتا
دیتی کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں سزاکے اندر کس قدر تخفیف کی گئی۔اس
واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں اس سے وحشی سرکار عالمِ وجود
میں نہیں آئی ہوگی۔ عدالت کے اندر مجرمین کے وکیل سدھارتھ لوتھرا نے بھی
یہ تسلیم کیا کہ یہ سنگین جرم ہے لیکن ساتھ یہ بھی یاددلایا کہ وہ لوگ پندر
سال جیل میں رہے ہیں۔ یہ دلیل بینچ کو متاثر نہیں کرسکی ۔ اس نے کہا کہ جب
سماج کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے والے سنگین جرائم پر سہولت دینے پر غور
کیا جائے تواجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھ کر قوت کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
جسٹس جوزف نے اچھے اخلاق کی بناء پر مجرمین کو سہولت دینے کے جواز کو الگ
رکھنے کی تلقین کی۔ ان مجرمین پر پیرول سے واپسی میں تاخیر اور اہلکاروں کے
ساتھ بدتمیزی کی شکایات بھی ہیں ۔ عدالت کے مطابق اس کے لیے بہت اونچے
پیمانے ہونے چاہئیں۔ کسی کے پاس طاقت ہو تب بھی اس کے استعمال ٹھوس وجوہات
کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ بینچ کے ذریعہ بار بار طاقت اور قوت کا حوالہ
اشارہ کرتا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوا ہے۔ عدالت نے اپنا موقف واضح کرنے
کے لیے ایک نہایت عام فہم مثال دی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ دفعہ 302 کا ایک
معمولی مقدمہ نہیں بلکہ اجتماعی قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کا کیس ہے۔ آپ
گھوڑوں اور گدھوں کو ایک ساتھ نہیں ہانک نہیں سکتے ، اسی طرح قتل عام کا
تقابل ایک عام قتل سے نہیں کیا جاسکتا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ جس طرح سیب
کا موازنہ سنترے سے نہیں کیا جا سکتا اسی طرح قتل عام کا موازنہ (انفرادی)قتل
سے نہیں کیا جا سکتا لیکن مودی یگ میں چونکہ سنترہ ناگپور کی اور سیب کشمیر
کی علامت ہے اس لیے ہر طرح کا ظلم اور ناانصافی جائز ہوگئی ہے۔
بلقیس معاملہ عدالت میں آیا تو سماعت کے شروع ہوتے ہی مجرمین کے وکیل
نےجواب داخل کرنے کے لیے وقت مانگا۔ یہ چونکہ وقت گزاری کا پرانا گھسا پٹا
حربہ تھا اس لیے درخواست گزاروں کی جانب سے اس کی کڑی مخالفت ہوئی ۔اس رویہ
پر تنقید کرتے ہوئے جسٹس ناگرتنا نے کہا ہم اس ٹال مٹول کی حکمت عملی سے
واقف ہیں کہ اب ایک مجرم وقت مانگ رہا ہے چارہفتوں کے بعد دوسرا مانگے گا ۔
اس طرح دسمبر تک یہ معاملہ گھسٹتا رہے گا۔ اس پھٹکار کے بعد سرکاری وکیل نے
ایک تاریخ متعین کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ عدالت کے تبصروں سے محسوس ہوتا
ہے کہ وہ اس معاملے کو جلد ازجلد نمٹا کر ان مجرمین کو پھر سے جیل بھیجنا
چاہتی ہے لیکن حتمی فیصلہ آجانے سے قبل کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ چونکہ
گجرات کی صوبائی حکومت کے ساتھ مرکز ی حکومت کو بھی رسوا کرے گا اس لیے
سرکار اس کو روکنے یا بدلنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گی ۔ اب دیکھنا یہ
ہے کہ وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوتی ہے یا عدل و انصاف کا پرچم
بلند ہوتا ہے۔ اس موقع پر بلقیس بانو اور ان کے اہل خانہ خصوصی مبارکباد کے
مستحق ہیں۔ ایک طرف ہاردک پٹیل ہے جو بلند بانگ دعووں کے بعد معمولی مقدمات
سے ڈر کر بی جے پی کی پناہ میں چلا گیا اور دوسری جانب عزم و استقلال کی
پہاڑ بلقیس بانو ہے جو موجودہ نظامِ جبر کے خلاف کمال پامردی سے ڈٹی ہوئی
ہیں ۔ بلقیس بانو کا عزم و حوصلہ حبیب جالب کے اس شعرکی چلتی پھرتی تفسیر
ہے کہ ؎
ہمارے عزم جواں کے آگے ہمارے سیل رواں کے آگے
پرانے ظالم نہیں ٹکیں گے نئی بلائیں نہیں رہیں گی
|