آسمان ِعلم و ادب کی عظیم شخصیت۔ سارہ عمر

زلیخا واجد مجددی
ہم اس جہاں میں ہزاروں انسانوں سے ملتے ہیں لیکن ان ہزاروں انسانوں میں سے سینکڑوں کو بھی یاد نہیں رکھ پاتے۔مگر ان سینکڑوں لوگوں میں سے کچھ ایسے انسان بھی ہیں جن سے ملنے کے بعد ان کی شخصیت کی مہک ہمارے وجود پہ اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ہم کہیں بھی چلے جائیں ان کی پرتعش شخصیت کی مہک جاوداں کا اثر ہماری ذات میں انکے عکس کا پتا دیتی ہے۔

میں میڈم سارہ عمر کی شخصیت، ادبی بزم بہاراں کے اس چمن اور اپنی محسن استاد کے لئے اپنے احساسات کو قلم کی نوک پہ سمو کے اپنے کچھ الفاظ کو موتیوں کی مالا میں پرو کے آپ کی شخصیت پہ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔

میں آج کے دن اپنی محسن، اپنی مینٹور، اپنی استاد اور عصر حاضر نو کی ابھرتی ہوئی لکھاری میڈم سارہ عمر کو رواں سال آپکی چار کتب کی اشاعت کے پرمسرت موقع پر نہایت عقیدت اور تہہ دل سے آپ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں۔

دور حاضر میں ایک استاد کی پہچان یہ ہے کہ اگر استاد ہمیں موٹیوٹ نہیں کرتا ہماری حوصلہ افزائی نہیں کرتا تو وہ استاد نہیں ہے بلکہ استاد اپنے شاگرد کے اندر ایک چنگاڑی پیدا کرتا ہے انکے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ:
''اچھے استاد کے اندر ایک بچہ بیٹھا ہوتا ہے جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور سر ہلا ہلا کر پوچھ رہا ہوتا ہے کہ بات سمجھ میں آئی کہ نہیں''۔۔

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو زندگی میں اچھے استاد ملتے ہیں ایک قابل استاد مستقبل کی نسل کا سرپرست،قوم کا معمار اور مرکزی شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ چیزیں بدل جانے کے باوجود بھی طلباء کی زندگیوں میں استاد جیسا اہم کردار ادا کرنے کی حقیقت نہیں بدلی ہے
''اس دنیا میں وہ انسان بہت خوش قسمت ہے جس کے پاس دو چیزیں ہوں ایک اچھی کتاب اور دوسرا ایسا دوست جو کتاب کو دوست رکھتا ہو''۔

استاد باعظمت ہستی ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔

استاد قوم کے معمار ہوتے ہیں اور جو قومیں اپنے معماروں کی قدر نہیں کرتی تو ایسی قوموں کے نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں استاد قوموں کے وہ چراغ ہوتے ہیں جن کے جلنے سے زمانہ روشن ہو جاتا ہے اور جن کی تاریکی پوری قوم کو جہالت کے اندھیروں میں لے کر ڈوب جاتی ہے جب استاد ایک شاگرد کی زندگی بدلتا ہے تو درحقیقت وہ ایک نسل کی زندگی بدل دیتا ہے اور وہی استاد جب بہت سارے شاگردوں کی زندگیاں بدلتا ہے تو درحقیقت وہ کئی نسلوں کی زندگیاں بدل دیتا ہے، جن لوگوں نے استاد کی قدر کی، کامیابی ان سے ملنے کے لیے ترستی ہے۔

انتہائی نرم دل، شفیق،محنتی، ملنسار، انتہائی خوش اخلاق، پیشہ معلمی سے دلی لگاو رکھنے والی شخصیت میڈم سارہ عمر آپ کا تعلق واہ کینٹ سے ہے۔ اور آپ گزشتہ نو سال سے سعودی عربیہ (الریاض) میں مقیم ہیں۔آپ ادب سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شخصیت اور کردار کی حامل بھی ہیں۔ والدین بھی درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ اسی لئے آپ کو بچپن ہی سے گھر میں ایک ادبی ماحول ملا۔ اسی سبب مطالعہ کی طرف رحجان بچپن ہی سے تھا۔

آپ نے اسپیشل ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا اور قوت سماعت و گویائی سے محروم خصوصی بچوں کے لئے سرکاری سطح پہ تین برس تک بحیثیت استاد درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ میڈم سارہ عمر کا اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک استاد کے رشتے کے ساتھ ساتھ ایک دوست،ایک رازدار کا بھی رشتہ ہے تاکہ ان کے درمیان بلاجھجک علم کا حالات و واقعات کا تبادلہ ہوتا رہے۔

اچھا سوچنا اور اچھا لکھنا یقینا قدرت کا ایک بہترین عطیہ ہے اور خاص چنے ہوئے لوگوں کو اس انعام سے نوازا جاتا ہے ایک اچھا اور کامیاب لکھاری وہ ہے جو آپ کو اچھا سوچنے پر مجبور کر دے اور آپ کی سوچوں کو نئے راستوں کی نشاندہی کروائے۔آپ ایک زرحیز دماغ اور ادبی فکر و خیال ہونے کے باعث قلم و قرطاس کے قبیلے میں شامل ہوئیں۔

آپ لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ لائف کوچ،ولاگر،یوٹیوبر،لائف ٹرینر، ریویوور، پینٹر اور کیلیگرافر بھی ہیں۔ لکھنے کی طرف آپ کے سفر کا آغاز 2006ء میں کرن ڈائجسٹ میں شائع ایک کہانی سے ہوا۔ یہ کہانی ایک قلمی نام سے شائع ہوئی۔ پھر ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ لکھنے کا آغاز 2014ء میں الف کتاب کے آن لائن پلیٹ فارم سے ''دیو اور پری'' ایک علامتی کہانی کے طور پہ ہوا۔ اس کے بعد لکھنے کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔آپ نے بہت سی آن لائن کہانیاں لکھیں اور آپ کی بہت سی کہانیاں فیس بک پیجز پہ بھی لگتی رہیں۔

کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو افسانہ نگاری، مکالمہ نگاری، افسانچہ نگاری،سو لفظی، پچاس لفظی،شاعری،تبصرہ نگاری، کالمز، آرٹیکل سے ہوتا ہوا ناول نگاری تک جا پہنچا۔ آپ نے مختلف افسانوں، ناولز،خوفناک کہانیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب پہ بھی کام کیا ہے۔

آپ کی تحاریر اب تک کرن ڈائجسٹ، شعاع ڈائجسٹ،ردا ڈائجسٹ، سوہنی ڈائجسٹ، آنچل ڈائجسٹ، حجاب ڈائجسٹ، اجالا ڈائجسٹ، سچی کہانیاں،بچوں کا اسلام،خواتین کا اسلام،پھول، مسلمان بچے، ست رنگ، تعلیم وتربیت میگزین کے علاوہ الف کتاب اور دیگر آن لائن میگزین کی زینت بن چکی ہیں۔اس کے علاوہ آپ کے کالمز پچاس سے زائد اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔اور آپ نے کء انعامات اور ایواڈز بھی اپنے نام کئے ہیں۔

آپ اب تک آٹھ کتابوں کی مصنفہ ہونے کا شرف حاصل کر چکی ہیں

حقیقت کو لفظوں میں ڈھال کر سادگی لیکن مظبوطی و شگفتگی سے بیاں کرنا آپ کا خاصا رہا ہے ۔آپ نے بہت کم وقت میں اپنے دلکش اندازِ تحریر سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ میڈم سارہ عمر صرف ناول نگار ہی نہیں بلکہ بہت کمال کی افسانہ نگار تجزیہ نگار اور کالم نگار بھی ہیں۔آپ کی ہر تحریر آج کے دور کی حقیقت اور سچائی پر مبنی ہوتی ہے اور یہی آپ کی تحاریر کی سب سے بہترین خاصیت ہے۔

میڈم سارہ عمر صاحبہ بلاشبہ بہترین ناول نگار ہیں۔سب سے پہلے انکی کتاب '' میرے درد کی تجھے کیا خبر '' منظر عام پر آئی۔ جسے نہ صرف ادبی حلقوں میں سراہا گیا بلکہ قارئین نے بھی پسندیدگی کی سند سے نوازا۔ یہی سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ چل نکلا۔آپ اپنی تحریروں میں لفظوں کے جادو سے قاری کو اپنے سحر میں کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔آپ معاشرے کے عام سے کرداروں کی کہانیاں زیب قرطاس کرکے ان کرداروں کو امر کر دینے کے فن سے بھی خوب واقف ہیں۔

آپ کی تحریروں میں کہیں پہ بھی بھاری استعارات و تشبیہات نہیں ملتیں جو کہ قاری کو بوجھل اور بیزار کرئے۔آپ کی تحریر میں کہیں بھی غیر ضروری طوالت نہیں ہوتی۔ آپ کی تحریروں میں مہمل فلسفیانہ خیالات اور بڑے بڑے بھاری بھرکم الفاظ پڑھنے کو نہیں ملتے۔

آپ کو بہت اچھے سے علم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی کہانیوں کے ذریعے قاری کو کیا پیغام پہنچانا ہے۔
آپ کی لکھائی کی خاص بات یہ ہے کہ آپ بہت ضروری باتیں بہت عام فہم انداز میں کرتی ہیں

آپ کی تحریروں کا قد کاٹھ ایسا ہوتا ہے کہ نہ ہی اتنا پست، کہ زمین بوس لگے اور نہ ہی اتنا قد آور، کہ سمجھ سے ہی ماورا ہو۔

یہاں آپکی تصانیف کا مختصر تعارف کرواتے چلیں۔

تراب:-
آپ کی ایک کتاب جس کا نام ''تراب'' ہے جو کہ ایک ناولٹ اور مختلف افسانوں پہ مبنی ہے۔ ''تراب'' میں آپ نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ بہت جگہ پہ تربیت کا پہلو دیکھایا۔آپ کی تحریر میں بہت ذیادہ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا عنصر ملتا ہر کہانی سبق آموز ہے۔آپکی تقریبا سبھی کہانیوں میں ہمیں اپنے معاشرے کے ہی کردار ملتے ہیں جنکو ہم بچپن سے ہی دیکھتے آئے ہیں۔ آپ کے افسانے معاشرتی رویوں، لہجوں، اور طبقاتی ناہمواریوں کا حال سناتے ہیں۔ تراب کی سبھی کہانیوں میں سے کسی ایک کہانی کا انتخاب کرنا مشکل ہے۔ہر آنے والی کہانی پہلی کہانی سے زیادہ پراثر ہے۔ گلدستہ تراب میں آپکو سبھی پھول ایک ہی رنگ کے نہیں ملیں گے اس میں مختلف رنگت کے پھولوں کی آمیزش ہے۔آپ کی تحریر میں کہیں بھی کوئی بناوٹ نہیں ملتی بلکہ صاف شفاف پانی جیسی تحریر ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ آپ کی تحریر کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ آپکی تحریر قاری کو اپنے ذہن پہ دباو نہیں ڈالنے دیتی قاری اس تحریر میں ذہنی زور آزمائی سے مبرا رہتا ہے۔آپ اپنے قاری کو ذہنی طور پہ تھکنے نہیں دیتیں۔ اور جو بات آپ قاری تک پہنچانا چاہ رہی ہیں وہ باآسانی قاری پہ اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ جو کہ خود میں ایک بہت بڑی بات ہے۔

خواہش رقص جنوں:-
میڈم سارہ عمر نے اپنی پسندیدہ کتاب ''خواہش رقص جنوں'' کے کرداروں کو جس حسن سے زیب قرطاس کیا ہے وہ بلا شبہ لائق داد اور قابل تحسین ہیں۔ اس ناول میں آپ نے پیار، محبت، عشق کا رنگ لئے زندگی میں رشتوں کی اہمیت اور خوبصورتی کو دیکھایا ہے۔ اشفاق احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اگر درد زیادہ ہو تو دوا بڑھا دو۔اب یہ فقرہ میڈم سارہ عمر کی اس تحریر پہ فٹ بیٹھتا ہے کہ اگر مشکلات اور آزمائشیں زیادہ ہوں تو صرف پانچ نمازوں سے کام نہیں چلے گا۔ چھ، سات یا آٹھ نمازیں پڑھنی پڑئیں گء۔ یہ لائن اس ناول خواہش رقص جنوں کی جان ہے سارے ناول کی خوبصورتی ہی اسی مکالمے میں ہے مانو تو دریا کو کوزے میں بند کر دینا اسے ہی کہتے ہیں۔ اس کہانی کی سب سے خوبصورت بات جو کہ اسے آپکی باقی کہانیوں سے منفرد بناتی ہے وہ یہ کہ کہانی مختلف نشیب وفراز سے گرزتی ہے لیکن انسان کو توکل کا دامن کہیں پہ بھی چھوڑنے نہیں دیتی جیسے بھی حالات ہوں انسان کے جینے کی آرزو کو بجھنے نہیں دیتی۔ انسان جتنی مرضی پلاننگ کر لئے لیکن سب سے بڑا پلینر وہ ذات پاک ہے جس نے انسان کی تقدیر کو لوح و محفوظ پہ لکھ دیا ہے سوائے دعا کے کوئی بھی چیز تقدیر بدلنے کی سقت نہیں رکھتی۔یہ کہانی آپ کو اپنوں کے لئے قربانیاں دینا اور اپنوں کے لئے ہی جینا سیکھاتی ہے۔ اس ناول میں میڈم سارہ عمر نے کردارو پہ بہت سے داؤ پیچ بھی آزمائے۔۔اور ایک خاص دائرے میں رہ کے کرداروں کے ساتھ خوب کھیلا بھی۔کہیں کہانی تسسل کے ساتھ چلتی اور کہیں اس ناول میں اچانک بہت سے موڑ آتے ہیں لیکن آپ نے ناول کو اپنے ٹریک سے اترنے نہیں دیا۔ سبھی کرداروں کو ایک ساتھ لے کے چلئیں۔ سبھی کرداروں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا جو کہ اس ناول کی خوبصورتی ہے۔ اور سب سے ضروری اور بہت ہی خوبصورت بات جو کہ اس ناول میں ملتی ہے وہ یہ کہ انسان مر جاتا ہے لیکن نیکی کبھی نہیں مرتی اور یہ نیکی صدقہ جاریہ کی طرح انسان کو پیچھے چھوڑ کے خود اپنے لئے نئے رستے بنا کے انسان کو امر کر جاتی ہے۔ بہت خوبصورت ناول ہے کچھ چیزوں کو جگہ دینی نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنی جگہ خود بنا لیتیں ہیں یہ ناول بھی انہی میں سے ایک ہے

تیرے عشق کا جوگ لیا:-
تحریری میدان میں جیسے جیسے آپ قدم آگے بڑھا رہی ہیں۔ آپکی تحریر پہ گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی نظر آتی ہے۔ آپ قاری کو تسلسل کے ساتھ کہانی پڑھنے کی کوشش میں کامیاب رہی ہیں ایک طرف تراب میں آپ کا انداز بیان سادہ پر اثر اور معاشرتی اقدار پہ مبنی ہے تو دوسری طرف ''تیرے عشق کا جوگ لیا'' میں آپ قاری کو شروع میں ہی گھن چکریوں میں الجھائے رکھتی ہیں۔ دراصل یہ کہانی رمانوی پس منظر کو پیش کرتی ہے۔اس ناول میں دو مختلف کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جوکہ بظاہر مکافات عمل کا دوسرا رخ ہے۔ لیکن میڈم سارہ عمر نے کہانی کا تانا بانا ایسے بونا کہ محبت جیسے جذبے کو اپنی دانائی سے ایک ساتھ دو مختلف زاویوں سے لے کے آگے چلیں اور کہیں پہ بھی قاری کو گمان ہی نہیں ہونے دیا کہ آگے چل کے سبھی کردار ایک دوسرے سے بہت زور سے ٹکرانے والے ہیں۔ آ پکی تحریر کی خوبصورتی یہ ہے کہ آپ 130 کے زاویے سے کہانی کا کہیں پہ بھی قاری کو گمان ہوئے بغیر رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہ ناول ہمارے معاشرے کے ان کرداروں کی عکاسی کرتا ہے جن کیدل میں چاہتے اور نا چاہتے ہوئے بھی محبت جیسے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اور ان جذبات کی رو میں بہتے وہ اتنا آگے نکل جاتے ہیں خود سے جڑے رشتے بے مول سے لگنے لگتے ہیں۔ خود سے جڑے قیمتی رشتوں کو چھوڑ کر اپنی محبت کے حصول کے لئے بہت آگے نکل جاتے ہیں بغیر اس چیز کی پروا کئے کی پیچھے چھٹے رشتے کہیں اپنی آخری سسکیاں لے رہے ہوتے ہیں لیکن محبت ہمیشہ سے ہی خودغرض رہی ہے اور اندھی بھی۔ جس میں محب اور محبوب کو ایک دوسرے کے سوا شاید دنیا کی رنگینیاں بے اثر سی لگتی ہیں۔ اور جب قدرت انہی کی کی ہوئی غلطی انکی اولاد کی صورت میں دوہراتی ہے تو انہی کے نظریات محبت کو لے کے بدل جاتے ہیں۔۔
میرے درد کی تجھے کیا خبر:-
ہر تحریر کی طرح آپ کی یہ تحریر بھی
سحر انگیز ہے۔ اس ناول کا ہر سین یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کرداروں میں جی رہے ہیں ایسا کم ہی کسی تحریر میں دیکھنے کو ملتا کہ آپ کو لگے کہ آپ اس کردار میں جی رہے ہیں۔ اس کہانی میں آپ کو اپنا کردار ہو بہو نہیں تو کچھ حد تک کہیں نہ کہیں خود کی جھلک کہانی میں ضرور نظر آئے گء ایسا لگتا ہے اس ناول کے کرداروں کو ہم نے اپنی زندگیوں میں جیا ہے۔ آپ ہر سین کو اپنے اوپر ڈھلتا محسوس کریں گے۔ اس میں ان کرداروں کا رونا ہنسنا باتیں کرنا یوں لگتا ہے کہ ہم ان
کرداروں کے اردگرد ہی کہیں گھوم رہے ہیں یہ کہانی ''میرے درد کی تجھے کیا خبر'' بنیادی طور پہ ہمارے موجودہ معاشرے کے ہر گھر کی ہی کہانی ہے یہ کہانی ہر اس خاندان کے طور اطوار چال چلن رسم و رواج رہن سہن اور اصولوں پہ مبنی ہے جس گھر میں بہو اور بیٹی سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس کہانی کا پلاٹ بہت مختصر ہے پڑھنے میں آپکو یہ ایک عام کہانی لگتی ہے۔۔بلکہ آنکھوں دیکھی کہانی ہے لیکن یہ بلکل بھی عام کہانی نہیں ہے یہ ہمارے معاشرے کا دکھتا ہوا وہ زخم میں ہے جسکا درد صرف اور صرف باہر سے آئی بہوؤیں ہی برداشت کرتیں ہیں۔ اس کہانی میں گھر داری کی بہت سی حقیقتیوں کو کھول کے سامنے رکھا گیا ہے۔ میں یہاں انفرادی طور پہ کرداروں کو ٹٹولنے کی بجائے انکو مجموعی طور پہ سمیٹنے کی کوشش کروں گء۔میڈم سارہ عمر نے اس کہانی میں یہ چیز بتائی کہ کبھی کبھار ہمارے گھر کے بڑے اپنے خونی رشتوں (بیٹی) کی محبت میں اتنا ڈوبے ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا۔کہ پرائے گھر سے آئی بہو بھی انکے پیار و ہمدردی کو پانے کے لئے دن رات تگ ودو کر رہی ہے۔کہ گھر کے بڑے بھی اسے اپنی بیٹی جیسا پیار دیں اس کے لئے بھی وہی جذبات احساسات رکھیں جیسا خود کی بیٹی کے لئے رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ برابری کے ترازوں سے اتر کر اپنی بیٹیوں کی پلڑے کی طرف اتنا جھک جاتے ہیں کہ بہو بچاری کا پلڑا ہوا میں ہی ہلکورے کھا رہا ہوتا ہے کبھی کبھار گھر کا ماحول اتنا بدبو دار ہے کہ گھر کے مکین شاید اس بدبو کو سونگھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ باہر سے آنے والے فرد کے لئے وہ بدبو کس قدر اذیت کا باعث ہوگی وہ یہ نہیں سمجھ سکتے یہ ایک ایسی کہانی ہے کہ اس پہ ایک مفصل اور پر مغز گفتگو کی جا سکتی ہے۔ میرے درد کی تجھے کیا خبر واقعی ایک قابل داد ناول ہے۔

اگر میڈم سارہ عمر کی مجموعی تحریروں کاجائزہ لیا جائے تو آپ نے نہ ہی کہیں پہ کوئی اضافی ڈائیلاگز اور نہ کوئی اضافی تمہید باندھی ہے اور نہ ہی کہانی کو بڑھاوا دینے کے غرض سے کوئی غیر ضروری قلم آزمائی کی ہے آپ اپنی تحریروں کے ساتھ ہمیشہ پورا پورا انصاف کرتی ہیں۔

آپ بڑوں کے ادب کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت کے فرائض بھی انجام دے رہی ہیں۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے اب تک آپ کی تین کتابیں بھی منظر عام پہ آچکی ہیں یقینا بچوں کے ادب کے لئے لکھنا ناول اور افسانہ لکھنے سے زیادہ مشکل امر ہے۔اطفال ادب میں بچوں کی ذہنی سطح پہ رہتے ہوئے اور تربیت کے پہلو کو اجاگر کرنا ایک کھٹن مرحلہ ہے لیکن آپ اس امر کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے بچوں کی ہردلعزیز لکھاری کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

آخر میں نیک تمنائیں آپ کے لئے ہیں۔اﷲ پاک آپ کے قلم کو اور وسعت دیں اور مزید کامیابیوں سے ہمکنار کریں۔


 

Attiya Rubbani
About the Author: Attiya Rubbani Read More Articles by Attiya Rubbani: 20 Articles with 14960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.