معاشی حالات حکمرانوں کے قابو میں نہیں رہے۔ہر گذرتے
سیکینڈ کیساتھ ایک عجیب طرح کی کھینچا تانی چل رہی ہے۔نفسا نفسی کا عالم
بپا ہے۔کئی غیر جانبدار سروے رپورٹس روازنہ کی بنیاد پر سامنے آ رہی
ہیں۔ملک کو تاریخ کے خطرناک معاشی بحران کا سامنا ہے۔بے روزگاری ہر فرد کو
نکلنے کے لئے منہ پھیلاۓ بڑھتی جا رہی ہے۔مہنگائی کا بھوت عوام کی چیخیں
نکلوا رہا یے۔مختلف سروے کیمطابق بہت ساری روزمرہ کی اشیاء عام آدمی کی
پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔لوگ فاقہ کشی اور خود کشی پر مجبور نظر آتے ہیں۔اس
وقت ملک میں جرائم کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے لوگ مجبوری
میں غلط راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ایک عام آدمی خود کو گھر سے باہر اور
گھر کے اندر غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔اس سب میں ہمارے ملک میں سیاسی کشیدگی
کے علاوہ ہمارے مفاد پرست مافیاز کا بھی ہاتھ کار فرما ہے ۔جنکے تانے بانے
بہت سارے اشرفیہ کیساتھ ملتے ہیں۔جن پر کسی بھی ادارے کا ہاتھ ڈالنا تقریباً
ناممکن ہے۔اسکی بہترین مثال اگر آج سے پچاس سال پہلے کے اخبارات کا مطالعہ
کیا جائے اور آج کے اخبارات کی شہ سرخیوں کا مواذنہ کیا جاے تو ایک مماثلت
ملتی ہے ۔تب کی خبر بھی کچھ اس طرح کی ہوتی تھی ۔"حکومت کا چینی مافیاز کے
خلاف کریک ڈاؤن" اور آج بھی طاقتور مافیا کیخلاف کارروائی کے اسی معیار پر
کھڑے نظر آتے ہیں۔اور ہمارے محترم وزیراعظم ایک دن پہلے مافیاز کیخلاف بہت
جذباتی خطاب فرما رہے تھے۔جو اس باکمال مزاحیہ بات سے ملتا ہوا خطاب
تھا۔؛ایک مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں سوار ایک بندر کے علاوہ
تمام مسافر جاں بحق ھو گئے۔
حادثے کی تحقیقات ھوئیں،
بلیک باکس سے معلومات اکٹھی کی گئیں تاہم جہاز تباہ ہونے کی وجوہات کا
پتہ نہ چلایا جا سکا۔
تھک ہار کر اس نتیجے پہ پہنچا گیا کہ بندر کو train
کر کے اس قابل بنایا جائے کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کی مدد کرسکے۔
چند ہفتوں کی تگ و دو کے بعد بندر اس قابل ہو گیا کہ اشاروں کی زبان میں
کسی بھی سوال کا جواب دے سکے۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بندر کو پیش کیا گیا۔
ایک آفیسر نے بندر سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اشاروں میں پوچھا کہ جب
جہاز
تباہ ہوا تو مسافر کیا کر رھے تھے؟
اشاروں میں جواب ملا کہ کچھ سو رھے تھے، کچھ بات چیت میں مصروف تھےاور کچھ
میگزین وغیرہ پڑھ رھے تھے۔
کمیٹی کے اراکین کا حوصلہ بندھا۔
دوسرا سوال ہوا کہ ائیر ہوسٹس کیا کر رہی تھیں۔
وہ میک اپ میں مصروف تھیں۔
کمیٹی کے اراکین نے معنی خیز نظروں سے ایک
دوسرے کو دیکھا۔
ایک اور سوال ہوا۔۔
جہاز تباہ ہونے سے پہلے پائلٹ کیا کر رھے تھے؟
جواب ملا وہ سو رہے تھے۔۔
تمام اراکین ششدر رہ گئے۔۔
کچھ لمحوں بعد ایک اور سوال ہوا۔
آپ اس وقت کیا کر رھے تھے؟
بندر نے فخریہ انداز سے میز پہ پڑی عینک اٹھا کر پہنی، چہرے پر کلر سمائل
بکھیری اور دبنگ انداز
میں جواب دیا کہ
"میں اس وقت جہاز چلا رہا تھا"
"ہمارے موجودہ وزیراعظم نے کل خطاب کے دوران فرمایا"
کہ
ملک میں منافع خور مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔
مافیاز حالات کو خراب کر رہے ہیں۔
یہ ٹولہ ملک کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہا ھے۔
کاش کوئی پوچھتا
کہ آپ کیا کر رھے ہیں؟؟
جواب وہی بندر والا ہوتا
کہ
میں ملک چلا رہا ھوں۔
|