گفتار اور گرفتار

ہماری ریاست ہماری "ماں" اور کئی قسم کے شرور سے" اماں "جبکہ اس کے ساتھ بے پایاں محبت ہماراـ"ایماں" ہے۔اگرکوئی ماں اپنے کسی بچے کیلئے طعام کاانتظام نہ کرے یااس کو تشدد کانشانہ بنائے توبھی وہ اپنی ماں پرہاتھ اٹھانے یااس کاآنچل تارتارکرنے کاتصور تک نہیں کرسکتا ۔ریاست کے ہاتھوں دانستہ یاغیردانستہ اپنے بچوں یعنی شہریوں کے معاملے میں غلطیاں ، تلخیاں اور زیادتیاں بھی ہوجاتی ہیں لیکن اس کے باوصف ریاست کے ساتھ عداوت اوراس کیخلاف بغاوت بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ہم عدل بارے عدم اعتماد اورعدم اطمینان کااظہار کرسکتے ہیں لیکن عدالت کی ضرورت اوراہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہم کسی منصف کے فیصلے سے متفق ہوں یانہ ہوں لیکن عدالت اورعدلیہ کی عزت کرناہمارا فرض ہے۔ریاست کی مضبوطی،خودداری اورخودمختاری کیلئے ریاستی اداروں کی پائیداری اورعملداری یقینی بنائی جاتی ہے لہٰذاء اپنی محبت کے سرخ گلاب شخصیات کی بجائے ریاست پر نچھاور کیاکریں ۔جمہوری قوتوں کی خدمت میں عرض ہے وہ ریاست کی رِٹ کوتسلیم جبکہ ریاستی اداروں کی تعظیم کرتے ہوئے اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کیلئے پرامن سیاسی،قانونی ا ور آئینی جدوجہد کاراستہ اختیارکریں کیونکہ تشدد اورتعصب کاہر راستہ تاریک اور بندگلی میں جاتا ہے۔دوسری طرف یہ بات بھی یادرکھیں مشتعل اورمضطرب عوام پرتشدداحتجاجی مظاہرے کریں بھی توریاست ان کے تشدد کاجواب تحمل اورتدبر سے دیاکرتی ہے،سرکاری اہلکار ہرقیمت پرقانون کی پابندی اور پاسداری کرتے ہیں۔ایک طرف ہجوم ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف منظم فورسز کے تربیت یافتہ اہلکار ہوتے ہیں لیکن تصادم کے دوران دونوں طرف سے ایک جیسی عدم برداشت اور شدت کامظاہرہ ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔متحدہ حکومت کے ہاں بھی قوت برداشت کافقدان ہے، تعجب ہے ارباب اقتدار کی اہل سیاست اوراہل صحافت کیخلاف مزاحمت اور محاذآرائی ایک دم انتہاسے تجاوزکر گئی۔مہنگائی سے رنجیدہ عوام کی ناپسندیدہ حکومت پر تعمیری تنقیدکرنے کی پاداش میں قلم قبیلے کے سرخیل اوریامقبول جان ،آفتاب اقبال اورعمران ریاض خان کی گرفتاری بھی عدم برداشت کا شاخسانہ ہے،میں سمجھتا ہوں صحافت سے وابستہ ہردلعزیز شخصیات کو"گرفتار"کرنے سے ان کی "گفتار"اور"رفتار"پرکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ جس" آفتاب" کا "اقبال" بلندہواسے قیدوبندکے زور پر مرعوب نہیں کیاجاسکتا ۔

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اچانک وارد نہیں ہوئی اورنہ اس نے کسی آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے بلکہ پاکستان کے نام نہاد سیاستدانوں نے مختلف ادوار کے منتخب حکمرانوں کیخلاف سیاسی تحاریک کے دوران عدم برداشت اورتشدد کوفروغ دیا ،جس طرح 1990ء کی دہائی میں اپوزیشن دھڑے سے نوازشریف نے بینظیر بھٹو کی منتخب حکومت کیخلاف تحریک نجات کاآغاز کیا ،اسلام کی رو سے خاتون کوقیادت کیلئے نااہل قراردیاجبکہ اس احتجاجی تحریک کے دوران بیسیوں بار شٹرڈاؤن اورپہیہ جام ہڑتال کی کامیابی کیلئے پرتشدد احتجاجی مظاہروں اورجلاؤ گھیراؤکاسہارا لیا اور اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ طلبہ کو گمراہ کرتے ہوئے استعمال جبکہ ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا گیا ۔تحریک نجات کے دوران بھی قومی املاک کی بربادی کے واقعات رپورٹ ہوئے اورعام شہریوں سمیت پولیس کی ان گنت گاڑیوں کوبھی نذرآتش کیاگیا ،شہبازشریف کے معتمد سیکرٹری جاویداشرف بھی مال روڈ پرایک پرتشدد مظاہرے کے دوران مبینہ طورپر ایک نجی بنک کے سکیورٹی گارڈ کی گولی سے شہیدہوئے تھے۔نوازشریف کے دوراقتدارمیں اس وقت کا بھارتی وزیراعظم واجپائی نام نہاددوستی بس میں لاہور پہنچا توجماعت اسلامی کی طرف سے بدترین توڑ پھوڑاورجلاؤ گھیراؤ کے واقعات ریکارڈ کاحصہ ہیں ۔بینظیر بھٹو کے قتل پرپیپلزپارٹی کے حامی سندھ سمیت چاروں صوبوں میں توڑ پھوڑ اورجلاؤگھیراؤمیں پیش پیش تھے ۔تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری کے ری ایکشن میں شاہراہوں کی بندش سمیت توڑ پھوڑ اورجلاؤ گھیراؤ کی انتہاکردی گئی ۔ جب بھی مغربی معاشروں کے گمراہ اورمتعصب عناصرکاخبث باطن چھلکتا ہے اوروہ سراپا رحمت، سرورکونین حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کی ناموس کافانوس بجھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو پاکستان میں موسمی عشاق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کی طرف سے اپناغم وغصہ ظاہرکرنے کیلئے اپنی قومی املاک کی توڑ پھوڑ اورجلاؤ گھیراؤکاراستہ اختیارکیاجاتا ہے۔ملک میں امن واستحکام اور نظام کی تبدیلی کیلئے بحیثیت قوم ہمیں اپنا انفرادی اوراجتماعی رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ معاشرے میں عدم برداشت کاتابوت نابودکرنااشد ضروری ہے۔

کسی کواپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے اورانصاف کادروازہ کھٹکھٹانے سے نہیں روکاجاسکتا لیکن ہم میں سے کوئی اپنے بندوق بردار محافظ پربندوق نہیں تان سکتا ،اگر ہرکسی نے اپنے ہاتھوں میں بندوق اٹھالی توپھر ہمارا معاشرہ جنگل بن جائے گا ۔ فیصلہ اپنے خلاف آنے کی صورت میں کوئی فردواحد یاگروہ ججوں کو دھمکا نہیں سکتاکیونکہ اس قسم کی مجرمانہ روش ریاست کاشیرازہ بکھیردے گی۔ہمارے بیسیوں دشمن پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے عوام اورافواج پاکستان کے درمیان خونیں تصادم کے حالات اورفاصلے پیداکرنے پرکام کررہے ہیں، یادرکھیں جس طرح پاکستان کے ساتھ ہماری والہانہ محبت کاسبب کوئی سیاستدان نہیں اس طرح افواج پاکستان کے ساتھ ہماری بھرپور عقیدت اور نسبت کسی جرنیل کی مرہون منت نہیں لہٰذاء کسی جرنیل کے مبینہ منفی کردار کی سزا ہم اپنی محبوب فوج کونہیں دے سکتے۔پاک فوج کے ڈھول سپاہی وہ پھول ہیں جوکسی بھی موسم میں نہیں مرجھاتے، مادروطن کی محبت اورحفاظت کیلئے جام شہادت نوش کرنیوالے قدآور فوجی جانبازوں کے مقابلے میں پاکستان کے زیادہ تر سیاستدانوں کاوجود بونوں کی مانند ہے ۔یادرکھیں شخصیات کاآناجانا لگا رہتا ہے لیکن آزاد ملک روز روز معرض وجود میں نہیں آیاکرتے،آزادی وہ نعمت ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لہٰذاء اس کی قدر کریں ۔اگر بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ کے بغیربھی پاکستان آگے بڑھ رہا ہے توعہدحاضر کے سیاسی بونوں کی موت کے بعد بھی ان شاء اﷲ اس کاوجودبرقراررہے گا۔اپنی ماں جیسی ریاست کوپراگندہ سیاست اوراپنے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں سے مقدم رکھیں ،کسی جرنیل کا کوئی اقدام آپ کوپسند نہ آئے توبھی افواج پاکستان کیلئے اظہارناپسندیدگی یااظہار بیزاری نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے محافظ ہمارے ملازم نہیں بلکہ محسن ہے ، اﷲ ربّ العزت کے بعد ہماری زندگیاں ان کے سپردہوتی ہیں۔راقم اس نسل سے ہے جس کے بچے لاہور سے قصور کی سمت پیدل جانیوالے فوجی اہلکاروں کو کئی گھنٹوں تک سلیوٹ کیا کرتے تھے ۔فوج ایک ڈسپلن فورس ہے ۔ فوجی حکم کے پابند اورپاکستان کے فرزند ہیں ا نہیں عزت اوران کا بھرپورساتھ دیں ۔دفاع وطن کیلئے سربکف فوجی جانبازوں کی طرف میلی آنکھ سے ہرگز نہ دیکھیں اورنہ ان کے کسی محکمانہ کام میں رکاوٹ پیداکریں ورنہ ہماری گھات میں بیٹھے دشمن ملک ہمیں ترنوالے کی طرح نگل سکتے ہیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ ترسیاستدانوں کاسیاہ کردار دیکھتے ہوئے سیاست کوگالی بنادیاگیاہے ، ہمارے معاشرے میں اکثروبیشتر ایک فقرہ سننے میں آتاہے،"تم میرے ساتھ سیاست نہ کرو" حالانکہ سیاست ایک مثبت صنف کانام ہے ۔ " حکومت میں ہوتے ہوئے عوام کی فلاح و اصلاح کے کام کرنا جبکہ انہیں فسادات سے دوررکھنا" سیاست کامفہوم ہے۔سیاست بری نہیں زیادہ تر سیاستدانوں کاطرزسیاست برا ہے۔ اس منافقانہ ،آمرانہ اور جارحانہ طرز سیاست نے ریاست کواندرونی طورپرکمزوراورتقسیم کردیا۔سیاستدانوں کی برادری توبہت بڑی ہے لیکن ان میں سے دوچار کے سوا"رواداری" اور"بردباری" کسی کے پاس نہیں ۔ سیاستدانوں میں بھی متعدد گندی مچھلیاں ہیں لیکن اس کے باوجودجس طرح ریاست کیلئے سیاست از بس ضروری ہے اِس طرح کسی وردی پوش کے ویژن سے اظہاربیزاری کے باوجود پاکستان کیلئے افواج پاکستان ناگزیر ہیں۔ ہماری ایک دوسرے سے نفرت ہماری ریاست اورمعاشرت کیلئے زہرقاتل ہے۔ہمارے درمیان تصادم میں کوئی فریق نہیں جیت سکتا ، یہ ہماری اجتماعی بصیرت اورقومی حمیت کی شکست ہوگی ۔

عمران خان کی حالیہ مختصرگرفتاری کے پیچھے چھپی تیاری ، عیاری اورمکاری سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے باوجودپی ٹی آئی کارکنان کے پرتشدداحتجاجی مظاہرے ناقابل قبول ہیں کیونکہ کوئی شخصیت ریاست سے مقدم نہیں ہوسکتی۔ ان کی شاہراہوں پر موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے نامعلوم نقاب پوش افراد کو بھی توڑ پھوڑ اورجلاؤگھیراؤکرتے ہوئے دیکھا گیا ۔کپتان کو گرفتار کیا گیاتھا انہیں کوئی سزا نہیں سنائی گئی تھی،عمران خان اوران کے حامیوں کا عدلیہ اورعدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ساتھ اظہار یکجہتی کافی نہیں بلکہ انہیں ریاستی اور عدالتی نظام پراظہاراعتماد بھی کرناہوگا۔ہماری مقروض ریاست قومی املاک کی بربادی کابوجھ برداشت نہیں کرسکتی ،اسلامی تعلیمات کی روسے کوئی سچا مسلمان دوسرے مسلمانوں اوراپنے وردی پوش اہلکاروں سے نفرت نہیں کرسکتا ۔بدقسمتی سے پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے دوراوراندازمیں ریاستی اداروں سمیت ایک دوسرے کیخلاف نفرت کوہواد ی ہے ۔کسی نے ضیاء الحق سے شدیدنفرت کاانتقام افواج پاکستان سے لیا ،کوئی پرویزمشرف سے تعصب کی بنیادپرڈان لیک میں ملوث رہا توایک نے قمرجاویدباجوہ کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کیخلاف مزاحمت کابگل بجادیا ۔ان تینوں قوتوں نے محض اقتدار سے بیدخلی کے بعد ریاستی رِٹ چیلنج کرتے ہوئے مقتدرقوت کوللکارا ۔جواقتدار کے دوران عرش پرمحوپروازہوتے ہیں وہ آئینی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد چاردن فرش پرنہیں سو پاتے ،باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا ،"جوزمین پربیٹھتے ہیں انہیں گرنے کاڈر نہیں ہوتا" لہٰذاء راج اورتخت وتاج کے پیچھے دیوانہ واردوڑنے اوراقتدارکیلئے مرنے مارنے والے پاکستان میں انقلاب کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتے ۔کپتان کو اپنی آبرومندانہ رہائی کے بعد اناکے خول سے باہرنکلنا اور اپنے قدم جماتے ہوئے زمین پرچلنا ہوگا۔ کپتان ایک وفاشعار اوروفاق کے حامی لیڈر کی طرح پی ٹی آئی کے حامی کارکنان کوشخصیت پرستی کی بجائے ریاست سمیت ریاستی اداروں سے بے پایاں محبت کادرس دیں۔موصوف اپنی شخصیت اورسیاست میں ٹھہراؤپیداجبکہ سیاسی امور بارے اپنی شریک حیات کی بجائے مستندسیاسی شخصیات سے مشاورت کریں اور سیاسی داناؤں کی صحبت میں بیٹھیں۔ یادرکھیں دنیا کی ہرمتمدن اورمہذب ریاست میں حکمران طبقات آپس میں کامیابی وکامرانی اورنیک نامی کی دوڑ لگاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں حکمران اشرافیہ کے درمیان ناکامی ،بدنامی اورغلطیوں کامقابلہ ہوتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے سعدرضوی کو گرفتاری کرکے جو حماقت کی تھی ،پی ڈی ایم حکومت نے عجلت میں کپتان کو گرفتار کرکے اس سے بڑا بلنڈر کردیا۔ دنیا میں ہرسال کلینڈر تبدیل ہوتا ہے لیکن پاکستان کے ارباب اقتدارواختیار آج بھی نوے کی دہائی میں رکے ہوئے ہیں۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.