کرناٹک تو جھانکی ہے اصلی ناٹک باقی ہے

کرناٹک نتائج پر بڑے دل کا ثبوت دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹ کیا ’’کرناٹک اسمبلی انتخاب میں جیت کے لیے کانگریس پارٹی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ لوگوں کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے میری نیک خواہشات۔‘‘ پی ایم مودی نے یہ بھی لکھا کہ ’’میں کرناٹک الیکشن میں ہماری حمایت کرنے والے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور بی جے پی کارکنان کی سخت محنت کی تعریف کرتا ہوں۔ ہم آنے والے وقت میں مزید جوش کے ساتھ کرناٹک کی خدمت کریں گے۔‘‘ کرناٹک انتخاب میں سب سے زیادہ محنت تو خود وزیر اعظم نے کی ۔ اپنی ضعیف العمری کے باوجود خود کو پوری طرح جھونک دیا۔ بی جے پی کے مطابق اس نے کرناٹک میں کل 9125 ریلیاں اور 1377 روڈ شو کیے۔ انتخابی مہم کے آخری دو ہفتوں میں وزیر اعظم نے 42 ریلیاں کیں اور امیت شاہ نے 30 ریلیوں میں حصہ لیا۔ اس محنت و مشقت کے باوجود موٹا بھائی اور چھوٹا بھائی کی پذیرائی نہیں ہوئی کیونکہ وہ کوشش نتیجہ خیز نہیں رہی ۔
وزیر اعظم مودی نے جن 42 حلقوں میں ریلیاں کیں ان میں سے بی جے پی 22 سیٹوں پر پیچھے رہ گئی اور صرف 20 سیٹوں پر آگے رہی۔ اس طرح وزیر اعظم کی کارکردگی 47 فیصد تھی ۔یہ دوسرے درجہ کی کامیابی بھی امیت شاہ سے بہتر تھی کیونکہ وہ تیسرے درجہ میں رہے۔ ان ریلیوں کے علاقوں میں بی جے پی کی برتری کا فیصد 37 فیصد رہایعنی 30 ریلیوں کے علاقوں میں سے بی جے پی 19 سیٹوں پر پچھڑ گئی اور 11 پر سبقت حاصل ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ شکست قبول کرتے ہوئےسابق وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے وزیر اعظم کو تو یاد کیا مگر وزیر داخلہ کا ذکر تک نہیں کیا ۔ بومئی نے اعتراف کیا کہ ’’وزیراعظم مودی اور بی جے پی کارکنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم جیت نہیں سکے‘‘۔ وہ تو اچھا ہوا کہ یہ دونوں حضرات اترپردیش کے بلدیاتی انتخاب سےدور رہے ورنہ وہاں بھی بی جے کی لٹیا ڈوب جاتی ۔ کرناٹک انتخاب بھارت جوڑو یاترا کے بعد بننے والے برانڈ راہل کی برانڈ مودی پر فتح ہے۔
کرناٹک کے اندر بھارت جوڑو یاترانے30 ستمبر 2022 سے 19 اکتوبر 2022 تک 20 دنوں میں 511 کلومیٹر کا سفر کیا۔وہ سات ضلعوں کی 20 سیٹوں سے گزری اوران میں سے 15 پر کانگریس نے جیت درج کرائی جبکہ اس سے قبل اسے صرف 5 پر کامیابی ملی تھی یعنی تین گنا کا فائدہ ہوا۔ ایک خاص بات یہ ہے جن پانچ نشستوں کو کانگریس نہیں جیت سکی ان میں تین پر جے ڈی ایس نے فتح حاصل کی جبکہ بی جے پی کوصرف 2 پر اکتفاء کرنا پڑا۔ عوامی تحریک کا اثر آس پاس کے علاقوں پر بھی ہوتا ہے اس لحاظ سے 7ضلعوں کی کل 48 نشستوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 2018 میں 17 ؍ بی جے پی ، 15 کانگریس اور 14؍ جے ڈی ایس کو ملی تھیں۔ اس بار کانگریس نے دوگنا سے بھی زیادہ 32 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔راہل گاندھی نے اس کو محض ایک انتخابی کامیابی بتانے کے بجائے نفرت پر محبت کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’کرناٹک میں نفرت کا بازار بند ہوا اور محبت کی دکانیں کھل گئی ہیں۔‘‘ یعنی یہ محض سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی فتح ہے۔

انتخابی مہم کے دوران گوں ناگوں وجوہات کی بناءد پر نظریاتی مباحث سے اجتناب کرنے والے راہل گاندھی نے اپنے مدعا پر لوٹتے ہوئے کہا کہ ’’کرناٹک کے انتخاب میں کرونی کیپٹلزم کے قوت اور غریب عوام کی طاقت کے درمیان مقابلہ تھا۔ کانگریس کے ساتھ غریب عوام کی طاقت تھی اور اس طاقت نے سرمایہ داری کی دبدبہ کو ہرا دیا۔‘‘ وہ بولے ’’ ہم نے نفرت سے یہ لڑائی نہیں لڑی بلکہ محبت سے لڑی۔ کرناٹک کی عوام نے دکھا دیا کہ محبت اس ملک کو اچھی لگتی ہے۔‘‘راہل گاندھی کے دعویٰ کی تائید دو حقائق کرتے ہیں۔ پہلا تو کرناٹک کے اندر نفرت انگیزی پھیلانے والے زہریلے سانپوں کی شکست اور مسلمان ارکان اسمبلی کی تعداد میں اضافہ۔ 2018 کے اندر کرناٹک اسمبلی میں 7 مسلم امیدوارتھےلیکن اس مرتبہ یہ تعداد 9؍ ہوگئی ہے۔ ان امیدواروں نے کئی علاقوں میں بڑے فرق سے کامیابی درج کرائی ۔
چامراج پیٹ میں ضمیر احمد خان نے 62.22 فیصد ووٹ حاصل کیے اور ان کے مقابلہ میں بھاسکر محض 18.98 فیصد پر سمٹ گئے ۔ 54 ہزار ووٹ کے فرق سے فتح حاصل کرنے والے کانگریسی امیدوار نے بی جے پی کو روند دیا۔ شیواجی نگر اسمبلی سیٹ پر انتخاب لڑنے والے رضوا ن ارشد نے 64913 ووٹ حاصل کیے جو 58.77 فیصد ہےجبکہ بی جے پی امیدوار چندرا این کو 41719 یعنی 37.77 فیصد ووٹ ملے۔ رضوان ارشد نے 23194 ووٹوں سے یہ شاندار جیت حاصل کی۔مینگلور اسمبلی سیٹ سے یو. ٹی. قادر فرید نے نصف سے زیادہ 83219 ووٹ (52.01 فیصد) حاصل کیے۔ ان کا مقابلہ کرنے والے بی جے پی امیدوار ستیش کمپالا کو بھی 60429 ووٹ (37.77 فیصد) ملے اس طرح قادر فرید 22790 ووٹوں کے فرق سے جیتے۔ نرسمہاراجہ اسمبلی سیٹ سے تنویر سیٹھ نے 83480 یعنی 45.14 فیصد ووٹ حاصل کرکے بی جے پی امیدوار ستیش سندیش سوامی 31120 ووٹوں سے شکست دے دی ۔

بیدر اسمبلی سیٹ سے کانگریس رحیم خان نے نے 46.03 فیصد یعنی 69165 ووٹ حاصل کیے جبکہ وہاں بی جے پی کے ایشورسنگھ ٹھاکر 17779ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے ۔ دوسرا مقام جے ڈی ایس امیدوار سوریہ کانت ناگامرپلی نے حاصل کیاجنھیں 38.85 فیصد یعنی 58385 ووٹ ملے۔بیدر میں جیت اور ہار کا فرق 10780 رہا۔رام نگرم اسمبلی سیٹ پر بھی ایچ. اے. اقبال حسین نے اپنے حریف کو 10 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہرایا۔ یہاں پر کانگریس کو 87690 ووٹ (47.98 فیصد) ملے جبکہ جے ڈی ایس امیدوار نکھل کماراسوامی نے 76975 ووٹ (42.12 فیصد) حاصل کیے۔ بی جے پی کو دس فیصد سے کم ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ رام نگرم میں رام بھگت بی جے پی کی اس درگت نے ثابت کردیا کہ رام اور ہنومان کے نام پر اب عوام کو بیوقوف بنانا ناممکن ہے۔ شانتی نگر اسمبلی سیٹ سے 61030 ووٹ حاصل کرنے والے این اے حارث نے 50.87 فیصد ووٹ حاصل کیے اور 44.93 فیصد (53905) ووٹ حاصل کرنے والے بی جے پی امیدوار کے. شیوکمار کو 7125 ووٹوں سے ہرادیا۔بیلگام شمال سیٹ سے آصف سیٹھ نے 46.28 فیصد ووٹ حاصل 4231 ووٹوں کے فرق سے بی جے پی امیدوار ڈاکٹر روی پاٹل کو دھول چٹائی ۔کرناٹک میں اس بار حجاب کی گونج تھی ایسے میں حجابی کنیز فاطمہ نے گلبرگہ شمال سیٹ سے 80973 ووٹ (45.28 فیصد) حاصل کرکے بی جے پی امیدوار چندرکانت پاٹل کو 2717 ووٹ سے شکست دے دی۔

محبت کی اس دوکان کے آگے نفرت کے بیوپاریوں کی حالت قابلِ رحم تھی۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی جو سدار میا کو سدا ملا خان کہہ کر بلاتے تھے اور علی اعلان مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کو ترغیب دیتے تھے چکمگلورو اسمبلی حلقہ میں اپنے پرانے ساتھی ایچ ڈی تھمیا نے اٹھا کر پٹخ دیا۔ کانگریس کے تھمیا نے64552 ووٹ حاصل کیے، جبکہ روی کو 55678 ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ کانگریس نے ضلع کی تمام پانچ اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے چکمگلور میں کلین سویپ کیا۔متنازع ہاؤسنگ وزیر وی سومنّا کو کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا کے خلاف اتار ا گیا مگر انہیں 1,19,816 ووٹ کے مقابلے صرف 73,653 ووٹ ملے اس طرح وہ اوندھے منہ گر گئے۔ بلاری دیہی حلقہ سے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے ریاستی وزیر بی سریرامولو کو کانگریس کے بی ناگیندر نے 1,03,836 ووٹ حاصل کرکے ہرا دیا ۔سریرامولو کو صرف 74,536 ووٹ ملے۔ کانگریس چھوڑ بی جے پی میں شامل ہونے والے ریاستی وزیر صحت کے. سدھاکر کو چکّبلاپور میں کانگریس امیدوار پردیپ ایشور سے تقریباً 10,000 ووٹوں سے ہراکر غداری کی سزا دی ۔

بومئی کی کابینہ میں حجاب اور تعلیمی نصاب میں اسلام دشمنی کی علامت وزیرتعلیم بی سی ناگیش کو کانگریسی امیدوار کے شداکشری سے 17,652 ووٹوں کے فرق سے ہرا کر ثابت کردیا کہ نسل کشی کی دھمکیوں سے عوام بیزار ہوچکے ہیں۔ ناگیش ہر مذہبی تنازعے کا محور تھا۔ بی ایل سنتوش کے قریبی نے آر ایس ایس میں شامل ہوکر 2008 میں انتخاب جیتا مگر 2013 میں ہار گیا ۔ 2018 میں پھر جیت کر وزیر بن گیا۔اس نے بھگت سنگھ اور نارائن گرو کو نصاب سے نکال کرسنگھ کے بزدلوں کو بھردیا۔مسلمانوں کے بڑے دشمن ایشورپاّ کو اس کی بدعنوانی کے سبب خود بی جے پی نے دھتکار دیا۔ اس کراری شکست کے بعداب بی جے پی والے ووٹ تناسب کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ووٹ کا تناسب اتنا اہم تھا تو دوفیصد کم ووٹ کے سبب انہیں پچھلی مرتبہ حکومت نہیں بنانی چاہیے تھی ۔ موجودہ نظام میں ووٹ کے تناسب کی بنیاد پر اقتدار نہیں ملتا۔ ایک طرف ان کی حریف کانگریس نے تقریباً 5 فیصد کا اضافہ کیا جبکہ ان کے یہاں 0.22 فیصد کی کمی ہوگئی تو ایسے نصف سے کم سیٹیں جیتنے والے کیا ووٹ کے تناسب کا اچار ڈالیں گے ۔ ان نتائج سے کانگریسی پرجوش تو ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ گنگا کی وادی میں بھارت جوڑو یاترا نفرت کے مقابلے محبت کی دوکان کیسے چمکاتی ہے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1219001 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.