دنیا والوں ہمیں سمجھاؤ!کیا یہ
امریکی دوستی ہے...یا دشمنی..؟
واہ ...واہ ...!!یہ کسی ترقی ہے ...؟پاکستان جنوبی ایشیاکا واحد ملک ہے جو
مہنگائی میں سب سے آگے نکل گیاہے...
نااہل حکمرانوں ضدی سیاستدانوں اور بے بس ومفلوک الحال عوام کو مبارک ہوں
....
دنیاوالوں !اَب آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ امریکی دوستی ہے ...یادشمنی کہ اِس
نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنی خیر خواہی کے بے لگام دعوے تو بہت بلند کئے
ہیں مگر اِس نے عملی طور پر اِس کا مظاہر ہ کبھی نہیں یا بہت ہی کم کرکے
دکھایاہے اور اِس پر ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے کہ ہمارے ملک کو مسائل کی دلدل
میں دھنسانے والی جہاں اور بہت سے حقیقتیں واضح ہیں تو وہیں دو ایسی بھی
حقیقتیں ہیں جن سے اَب کسی بھی حال میں انکار ممکن ہی نہیں رہا ہے اُن میں
سے ایک یہ ہے کہ امریکا جو آج ہمارا ایک بڑاہمدرد اور دوست بناہواہے اَب یہ
بات سمجھنی ضروری ہے کہ یہ نہ تو ہمارا ہمدرد ہے اور نہ ہی یہ کبھی ہمارا
اچھادوست ثابت ہوسکتاہے اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی کی
ایک بڑی وجہ اِسی امریکاسے دوستی اور آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے ملک میں
مہنگائی بڑھانے والے غیر ضروری وہ مشورے اور اِن کی جانب سے گاہے بگاہے
ہمارے حکمرانوں اور حکام کو ملنے والے وہ ڈکٹیشنز ہیں جن کی وجہ سے ملک میں
ایک طرف بے تحاشہ مہنگائی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف یہی امریکااورآئی ایم
ایف سمیت ورلڈ بینک ہیں جن کی بیجامداخلت کی وجہ سے پاکستان میں توانائی کا
بحران کنٹرول سے باہر ہوتاجارہاہے۔
جبکہ ہمارے نزدیک پاکستان میں بجلی کی صورت میں توانائی کی سنگین ہوتی صورت
حال کا ذمہ دار بھی امریکا ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہے اور اِس کے ساتھ
ہی ہماراخیال یہ ہے کہ امریکا جس کی نظریں ہمارے توانائی کے شعبوں میں اپنے
قدم جمانے کے لئے لگی ہوئیں ہیں اِس لئے یہ ہمارے حکمرانوں پر پہلے ہی یہ
بات واضح کراچکاہے کہ یہ پاکستان میں پاورسیکٹر میں استحکام لانے اور اِسے
کمرشل بنیادوں پر مضبوط بنانے کے لئے اپنی کمرشل طور پر مکمل حمایت اور
خدمات پیش کرنے کو تیارہے تووہیں یہ پاکستانی حکام پر زوردے کریہ بھی کہہ
چکاہے کہ توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے توانائی سیکٹر میں جہاں نظم
ونسق قائم کرنے کی ضرورت ہے تو وہیں اِس شعبے میں مالیاتی انتظامات کو
بہتربنانے اورنجی شعبہ کی شراکت بڑھانے کے لئے ریگولیٹری اصلاحات متعارف
کرانے کے لئے بھی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں اوراِس حوالے سے
دوسری جانب یہ نہ صرف ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے بھی یہ نکتہ
انتہائی افسوسناک اور باعث تشویش ہوناچاہئے کہ ”امریکا نے کسی ابہام سے پاک
اور واضح اوردوٹوک الفاظ میں ایران کی جانب سے پاکستان میں بجلی کے بحران
کو کنٹرول اور ختم کئے جانے اور ایران ،پاکستان گیس پائپ لائن سمیت مختلف
شعبہ جات میں تعاون کو مزید بڑھانے جیسی ایرانی پیشکش پر شدیدتشویش کا بھی
اظہار کیااور ساتھ ہی حکومت پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن پر اپنے
انوکھے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ امریکی یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ
پاکستان دوستی ہم سے کرے او ر ایران جیسے ہمارے دشمن سے تعلقات بڑھائے
امریکیوں کا کہناہے کہ امریکی قوانین کے مطابق اِس پر پابندی لگائی جاسکتی
ہے جس پر مصالحت پسند پاکستانی حکام نے حسبِ عادت اپنے خوشامدی رویوں اور
اپنی مصالحت پسندانہ طبیعت کے مطابق امریکاکو یقین دہانی کرائی ہے کہ گیس
پائپ لائن کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ہم ہر صورت میں امریکی قوانین کو
مدِنظر رکھتے ہوئے اِس کی پاسداری خود پر لازم رکھیں گے اور اِس پر بھی
امریکیوں کو یقین نہ آیااور اُنہوں نے پاکستان حکام کو ٹکاسایہ جواب دیاکہ
اگر پاک ایران گیس منصوبے پر نظرثانی نہ کی گئی تو امریکا کسی قسم کی بھی
پاکستان کو مالی امداد دینے کا پابندنہیں ہوگااور جب اِس سے بھی بات نہ بنی
تو امریکیوں نے پاکستانی حکام کو بھاشاڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈز دینے سے
بھی انکارکردیا ۔
پاکستان میں توانائی کا بحران ہویا پاک ایران گیس پائپ لائن سمیت دیگر شعبہ
جات میں تعاون بڑھانے کی بات ہوامریکاکاہمیشہ سے ہی پاکستان پر ایسادباؤ
رہاہے اور یہ ہر موقع پر پاکستان کو ایران کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے پر
اپنی بے مقصد کی ناراضی کا اظہار کرکے پاکستان کو بلیک میل کرتاآیاہے اِس
ساری صورت حال میں ہم یہ کہناچاہیں گے کہ دنیاوالوں ہمارے ساتھ یہ کیسی
امریکی دوستی ہے یا دشمنی جو خود بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کرتااور نہ ہی کسی
کو ہمارے لئے کچھ بہتر کرنے دیتاہے۔اگر یہ واقعی ہمارے ساتھ مخلص ہے اور
ہمیں توانائی سمیت دیگر شعبہ جات میں پیداہونے والے مسائل سے نجات دلانے کے
لئے سنجیدہ ہے تو پھر اِس حوالے سے یہ اپنی خدمات انجام دے یاایران اِسے
کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوناچاہئے ....مگر اِس ساری صورت حال میں ہم بس یہی
کہیں گے کہ امریکا ہمارے ساتھ نہ خود مخلص ہے اور نہ ہی یہ چاہتاہے کہ کوئی
اور اپنے خلوص اور نیک نیتی کے جذبوں کے تحت پاکستان کے مسائل حل کرے۔
اور اِسی کے ساتھ ہی مسائل کی گھٹری کے بوجھ تلے دبی ایسی بے بس اور مفلوک
الحال عوام جس نے دیدہ اور دانستہ طور پر اپنے ووٹوں سے ایسے نااہل
حکمرانوں اور اپوزیشن کے ضدی سیاستدانوں کو ایوانوں تک پہنچانے میں اپنا
اہم کردار اداکیا ہے کہ جنہوں نے عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اُلٹا ہر دم
اِس کے مسائل میں اضافہ کرنا اپنا فرض اولین سمجھاہے اِن کے لئے بھی یہ
موقع انتہائی خوشی اور مسرت کے ساتھ قابلِ مبارکباد بھی ہوناچاہئے کہ اِن
کی کاوشوں اوراِن ہی کی ناقص پالیسوں کے بدولت اَب ( مجھ سمیت)ملک کی
اٹھارہ کروڑ عوام کی سوچوں اور توقعات سے بھی بڑھ کر وطن عزیز پاکستان
جنوبی ایشیا کا ایک ایساواحدملک قراردیاجاچکاہے کہ جوکے مہنگائی کے مقابلے
میں اپنے خطے کے دیگرممالک میں سب سے آگے نکل کر وکٹری اسٹیند پر
کھڑاہوگیاہے یوں بے لگام مہنگائی کے حوالے سے اَب اِس کے نزدیک خطے کے بہت
سے امیر غریب ممالک زیر ہوگئے ہیں اِس بات کااندازہ عالمی بینک کی اِس
رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ جس میں برملااعتراف کرتے ہوئے عالمی بینک
نے کہاہے کہ پاکستان اپنی اہمیت اور ساکھ کے حوالے سے کسی اور شعبہ ہائے
زندگی میں اپنے خطے کے دوسرے ممالک سے آگے نکل میں کامیاب ہوسکاہو یاناں
مگر یہ ایک مُصمم حقیقت ہے کہ اِس ملک کے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں ،
سیاستدانوں اور اِدھر اُدھر سے حکومت میں شامل ہونے والی دیگر ضروری اور
غیر ضروری اشخاص نے ہر دورِ حکومت میں اپنی ناقص اور فرسودہ پالیسیوں کے
باعث اپنے ملک کو مہنگائی کے حوالے سے خطے کے دوسرے ممالک سے ضرور آگے
نکالنے میں ایک دوسرے کی معاونت کی ہے اور آج پاکستان میں قائم رہنے والی
موجودہ حکومت جوخالصتاََ ایک عوامی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے اِس کے
کرتادھرتاؤں نے تو اپنے دورِ اقتدار کے تین ساڑھے تین سالوں میں تومہنگائی
کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور اُنہوں نے اِس سارے عرصے کے دوران عوام پر
پے درپے مہنگائی کے ایسے بم گرائے ہیں کہ عوام اِس دورِحکومت میں اَنگنت
گرائے جانے والے مہنگائی کے بموں سے مر ی نہیں ہے تو کم ازکم مرنے کے قریب
ضرور پہنچ چکی ہے ۔
یہاں راقم الحرف کا یہ خیال ہے کہ عوام کو اِس حال تک پہنچ جانے کے بعد اَب
خدانخواستہ میرے منہ میں خاک کسی دشمن ملک کو ہماری عوام کو مارنے کے لئے
کسی اور حربے کی ضرورت نہیں ہوگی بس اِس کے لئے مہنگائی کے ایسے اور بہت سے
بم کافی ہوں گے جو امریکا یا اور کوئی ملک ہمارے حکمرانوں کے ساتھ دوستی کا
ہاتھ بڑھاکر ہمارے یہاں اپنے مشوروں سے ایسے حالات پیداکردے کہ مہنگائی کا
تسلسل جاری رہے اور ہمارے حکمران اِن کے مشوروں کی روشنی میں مہنگائی کے بم
اپنے عوام پر گراتے رہیں گے تو ایک وقت ایسابھی آجائے گاکہ جس سے دم توڑتی
عوام خود بخودمرجائے گی۔
اگرچہ عالمی بینک نے اپنی اِس رپورٹ میں پورے وثوق کے ساتھ اِس بات کا بھی
تذکرہ کرتے ہوئے اِس تشویش کا اظہار کچھ یوں کیاہے کہ”اِس میں کوئی شک نہیں
کہ پاکستان مہنگائی کے حوالے سے خطے میں سب سے آگے نکل گیاہے اور اِسی
مہنگائی کے مسلسل ہونے والے اضافے سے پاکستان کے دہی علاقوں کے علاوہ اَب
شہری علاقوں میں بھی غربت کی شرح میں ڈھائی فیصد اضافے کا ہوناقابلِ
حیرانگی ہے۔
یہاں ہم اپنے قارئین کے گوش گزار یہ نکتہ بھی لاناچاہتے ہیں کہ اِس رپورٹ
میں عالمی بینک نے اِس جانب بھی اشارہ کیاہے کہ ”پاکستان میں صنعتی اور
رہائشی علاقوں میںبجلی کی( طویل ترین لوڈشیڈنگ اور وولٹیج کی کمی بیشی جیسے
مسائل کے باوجود بھی) قیمتوں میں ہونے والا مسلسل اضافہ،سیلاب اور ناقص
پالیسیاں مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ہیںاور اِس کا اپنی رپورٹ میں
طنزاََ یہ بھی کہناہے کہ پاکستان جو دنیاکی ایک ایٹمی طاقت ہے یہاں پچھلے
کئی مہینوں کے دوران بجلی کی قیمت میں 17فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جو خود
ایک بڑا سوالیہ نشان ہے....؟ جس کی وجہ سے تمام شعبے بُری طرح متاثر ہوئے
ہیں اور قارئین کرام !ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہے
بلکہ عوام الناس کے لئے یہ خبر اور زیادہ پریشانی کا باعث ہوگی کہ عالمی
بینک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیاہے کہ ”پاکستان میں افراط زرکی شرح
14فیصدسے زیادہ ہے جبکہ کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کی شرح
20فیصد یا اِس سے بھی زائدہے جو کہ خطے میں سب سے زیادہ ہے بینک کے مطابق
یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے اٹھارہ کروڑ کی غریب آبادی والے ملک پاکستان
میں افراط زرمیں اضافے کی وجہ سے ہی مہنگائی کا گراف بھی اپنی بلندترین سطح
پرپہنچ گیاہے اوریہاں غربت بھی بڑھ رہی ہے اور حکمرانوں کی یہی وہ ناقص اور
فرسودہ پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان جیسے دنیا کے مفلوک الحال ملک
میں اَب بالترتیب شہری علاقوں میں بھی ڈھائی فیصداور دیہی علاقوں میں ڈیڑھ
فیصدکے حساب سے غربت کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اِس منظر اور پس منظر میں اگر پاکستان میں ہرلمحہ اور ہر سانس بڑھتی ہوئی
مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے اِس کا جائزہ لیاجائے تو بلاشبہ ہر فرد کا یہ
خیال ہوگا کہ اِس کے ذمہ دار پاکستان میں آنے والے وہ تمام حکمران اور
سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں اپنی حکمرانی کے جیسے تیسے
جھنڈے توگاڑے مگر یہ توانائی جیسے اہم ترین شعبے کو استحکام بخش بنانے کے
لئے دانستہ طور پر کوئی توجہ نہ دے سکے ۔اور آج یقینایہی وجہ ہے کہ پاکستان
میں توانائی کے شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہوسکی ہے اور یہ شعبہ تباہ حالی
کاشکار ہے۔
جبکہ اِدھرانتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس کے باوجود بھی آج ہمارے
حکمرانوں کی جانب سے اِس حوالے سے یہ بھی بڑے بڑے دعوے ضرور کئے جاتے ہیں
کہ پاکستان میں توانائی کے بحران پر کنٹرول کرنے کے لئے یہ اقدامات کرلئے
گئے ہیں ....تو وہ منصوبہ تیارکرلیاگیاہے...؟جبکہ حقیقتاََاِس حوالے سے اَب
تک کچھ بھی نہیں کیاجاسکاہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکا اِنہیں(ہمارے
حکمرانوں کو) ہر معاملے میں دھوکہ دیتاہے مگر اِس کے باوجود بھی ہمارے
حکمرانوں ، سیاستدانوں اور مٹھی بھر وہ امریکی پٹھوعوام جودل وجان سے
امریکا کو اَب بھی اوروں سے اچھاسمجھتے ہیں اِن سب کی نظریں اپنے دھوکے باز
اور اعیار اِسی دوست امریکا کی جانب لگی ہوئیں ہیں جو کبھی بھی ہمارے کسی
بھی مسلے کا نہ تو حل نکال سکاہے اور نہ ہی ہمارے جسموں پر معاشی واقتصادی
،سیاسی اور اخلاقی طور پر لگے کسی زخم کو بھرنے کے لئے کبھی کسی مرہم اور
پھاہاجیسا کام ہی آیاہے مگر پھر بھی ہم اور ہمارے حکمران اور ہمارے
سیاستدان ہیںکہ اِس کی مدد اور امداد کے منتظر ہیں اِس پر ہم ایک بار پھر
یہی کہتے ہوئے اپنے کالم کا اختتام چاہیں گے کہ دنیاوالوں اَب تم ہی بتاؤ
اور ہمارے نااہل حکمرانوں اور ضدی سیاستدانوں سمیت امریکی ویزے کے شدت سے
طالب اُن پٹھو عوام کو بھی سمجھاؤ جو یہ سمجھ نہیں سکے ہیں کہ یہ امریکی
دوستی ہے ....یا دُشمنی....؟ |