مقبوضہ کشمیر۔۔ جی 20 اجلاس۔۔ بھارتی مکاری عیاں؟

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہندوستان کے بعد سے اب تک ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس کی تپش ہزاروں انسانی زندگیوں کو نگل چکی ہے اور جنت نظیر مقبوضہ وادی میں قابض بھارت کی طرف سے ظلم و ستم کا ہولناک سلسلہ جاری ہے۔ بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کشت و خون کی ہولی کھیلنے کے باوجود کشمیریوں کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان کا حق دینے کو تیار نہیں ہے۔

تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر 1947ء، 1965ء ,1971ء اور 1999ء میں جنگیں بھی ہوچکی ہیں لیکن مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔

1947 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ کے بعد بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگی اور 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے ۔1950 میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا گیا جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی ۔

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ایک ایسی خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے اور دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام ملتا تھا یعنی بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائیداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں، ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مماثلت نہیں رکھتے ۔

چنانچہ کشمیریوں کے علاوہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتاتھا، یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائیداد حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی کو کسی بہانے سے بھی مرکزی حکومت اپنے استعمال کیلئے حاصل نہیں کرسکتی تھی۔

کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ ہونے والے عہد و پیمان کے مطابق ریاست پر بھارت کے مرکزی آئین کا صرف کچھ امور میں نفاذ ہوگا۔ریاست اپنا آئین وضع کرے گی جو ریاست میں سرکاری ڈھانچے کو تشکیل دے گا۔مرکزی حکومت کی کوئی بھی انتظامی تبدیلی صرف اس وقت ریاست میں کی جا سکے گی جب ریاستی اسمبلی اجازت دے گی۔

اس دفعہ کو صرف اس وقت تبدیل کیا جاسکتا ہے جب دفعہ میں تبدیلی کے تقاضے پورے ہوں اور ریاست کی مرضی اس میں شامل ہو جس کی ترجمانی وہاں کی ریاستی اسمبلی کرتی ہے۔دفعہ میں تبدیلی صرف ریاستی اسمبلی کی سفارشوں پر کی جاسکتی ہے، مرکز اس کا مجاز نہیں ہے۔

کشمیر کے مسئلے اور آرٹیکل 370 پر روشنی ڈالنے کا مقصد قارئین کو معاملے کی سچائی اور گہرائی بتانا ہے جس سے اب تک لوگوں کو مکمل آگہی حاصل نہیں ہے اور ان دنوں مقبوضہ وادی میں جی 20 ورکنگ گروپ کے اجلاس نے کشمیر کے زخم کو پھر کرید کر ہرا کردیا ہے۔

مقبوضہ وادی میں اجلاس کے انعقاد سے بھارت دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ بھارت کی جانب سے خطے کو دی گئی خودمختاری ختم کرنے کے بعد حالات معمول پر آچکے ہیں اور امن بحال ہو گیا ہے جبکہ اپنے اس ڈھونگ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

1999 کو وجود میں آنے والے جی 20 کا اولین مقصد معاشی معاملات پر رابطہ کاری تھی تاہم 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اس فورم کو 2008 میں سربراہان مملکت کا درجہ دے دیا گیا۔

جی 20 فورم کے ایجنڈے پر اب اقتصادی معاملات کے علاوہ تجارت، ترقی، صحت، زراعت، انرجی، موسمیاتی تبدیلی اور انسداد کرپشن کے موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔

جی 20 میں 19 ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان ممالک میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، جنوبی کوریا، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، برطانیہ، اور امریکہ شامل ہیں۔

کشمیر میں ہونے والے ورکنگ گروپ کے اجلاس میں صرف سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے ممبر ممالک ماہرین کی شمولیت درکار تھی ، جی 20 کا سب سے اہم اجلاس جی 20 سمٹ ہے جبکہ 9 سے 10 ستمبر کو نئی دہلی میں متعلقہ ممالک کی سمٹ ہوگی۔

اجلاس کے موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں، سری نگر میں ہزاروں فوجی تعینات ہیں، مقبوضہ خطے میں کئی چیک پوائنٹس، خار دار تاریں اور دھاتی جالیوں سے لپٹے پوائنٹس ختم کرکے سیکورٹی اہلکاروں کو جی20 اجلاس کے اشتہاری بورڈز کے پیچھے چھپایا ہوا ہے اور یہ سب اقدامات کرنے کا مقصد لوگوں کو یہ دکھانا ہے کہ حالات معمول پر آچکے ہیں۔

بھارت نے اس طرح کا اقدام پہلی بار نہیں اٹھایا بلکہ سیاحت کے موضوع پر جی 20 ممالک کا بھارت میں یہ تیسرا اجلاس ہے اور اس سے پہلے دو اجلاس گجرات اور مغربی بنگال میں ہو چکے ہیں۔ گجرات میں ہونے والا اجلاس پاکستان سے ملحقہ علاقے رن آف کچ میں تھا۔ رن آف کچ کا علاقہ بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین تنازعے کا باعث رہا ہے۔

پاکستان نے اس اجلاس کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنایا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ’متنازع علاقہ‘ ہے اور اس اجلاس کو سری نگر میں منعقد کر کے بھارت ’جموں و کشمیر کی بین الاقوامی متنازع حیثیت‘ کو مدہم کرنا چاہتا ہے۔

یہاں خوش آئند بات یہ ہے کہ چین، ترکیہ، سعودی اور مصر نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے جبکہ برطانیہ نے واضح کیا ہے کہ اجلاس میں شرکت کے باوجودبرطانیہ کی دیرینہ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر کی صورت حال پر دیرپا سیاسی حل تلاش کرنا ہے جو کہ کشمیری عوام کی امنگوں کو ملحوظ خاطر رکھے۔‘امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ کہا کہ ’ہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان حل طلب مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے رہیں گے۔‘

اقوام عالم کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ بھارت جی20 کی صدارت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور بھارت مقبوضہ وادی میں اجلاس منعقد کرکے کشمیر میں امن وامان کی صورتحال معمول کے مطابق دکھا نا چاہتا تھالیکن بھارت کی چال الٹ گئی اور دنیا کی دنیا کی توجہ اس دیرینہ مسئلہ کی طرف مبذول ہوگئی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ بااثر ممالک کے دو ٹوک موقف کی وجہ سے بھارت کی مکاری بے نقاب ہوگئی۔

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان روایتی، عوامی ،قانونی اور سیاسی سفارتکاری سمیت تمام ممکنہ اقدامات اٹھاکر کشمیر کے مسئلے کو پوری شدت اور قوت سے اجاگر کرنے کی کوشش کرے ۔ مزید براں او آئی سی اور سلامتی کونسل کو کشمیر کے نہتے، بے بس اور لاچار انسانوں کی مشکلات سے آگاہ کرے تاکہ مسئلۂ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کی جاسکے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 38486 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More