اسلام میں خلافت و نیابت کے
سنہری اصول اور شوریٰ اور اولی الامر کی اہلیت کا معیار دیا گیا ہے۔ اکثریت
کی نمائندہ حکومت کے قیام کے واضح اصول بھی موجود ہیں جبکہ اس نظام کے تحت
اکثریت کی ناپسندیدہ حکومت تشکیل پاتی ہے۔ اسے عوام کی اکثریت کی حمایت
حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسی شوریٰ اسلامی شوریٰ نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی
ایسے نمائندوں کو اقتدار سونپا جا سکتا ہے جو اپنی جیت کے لئے اپنی انتخابی
مہم کو میلے یا سرکس کے انداز میں چلاتے ہیں اور اپنے آپ کو منتخب کروانے
کے لئے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرتے ہیں اسلام میں اس کی گنجائش
نہیں ہے یہ ذاتی مفادات کی جنگ ہے اس میں عوام کی خیر خواہی اور خدمت کا
کوئی جذبہ کارفرما نہیں ہوتا۔
پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی
درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے
لئے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ
نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔
ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ
موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی
جاتی ہے۔ ہر امیدوار کی اولین ترجیح اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا
اور اپنے حریف امیدوار کی کردار کشی ہوتی ہے۔ امیدوار منافقت اور فریب کا
لبادہ اوڑھے ہوئے لالچ، دہونس، دھمکی اور جھوٹے وعدوں کے ہتھکنڈے استعمال
کرتے ہوئے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کی خاطر ایک ایک
دروازے پر پہنچ کر ووٹروں کا تعاقب کرتا ہے وہ تنخواہ یافتہ کارکنوں کی فوج
حتی کہ بعض اوقات انتخابی مہم کے حربوں میں خصوصی طور پر تربیت یافتہ
بیرونی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرتا ہے۔ امیدوار کی بینروں، پوسٹروں اور
پلے کارڈوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جھوٹی تشہیر کی جاتی ہے۔ مہنگی گاڑیوں
اور ٹرکوں پر سوار کرائے کے رضاکاروں کے جلوس سڑکوں پر محلے محلے اور گاؤں
گاؤں نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب
کچھ امیدوار کی اپنی خواہش اور اس کے بھاری خرچ پر ہوتا ہے۔ حمایت حاصل
کرنے کے لئے علاقائی، فرقہ وارانہ، قبائلی اور اس طرح کے دوسرے تعصبات کو
استعمال کیا جاتا ہے، بوگس اور جعلی ووٹ بھگتانا معمول کی بات ہے۔ بالآخر
جو سب سے اونچے داؤ لگا کر یہ کھیل کھیلتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔
عوامی اکثریت کی نمائندہ حکومت تشکیل نہیں پاتی موجودہ نظام انتخاب کے تحت
جو بھی حکومت بنتی ہے صحیح معنوں میں اقلیتی حکومت ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام
کے تحت ایک امیدوار کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو
سکتا ہے۔ اپنے حریف امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی سبقت ہی کامیابی کے لئے
کافی ہے اس کی نمائندگی کی حقیقت اس تجزیے سے سامنے آتی ہے:
فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں ان میں سے 50,000
افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔
کل 5 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کئے،
دوسرے نے 11,500 ووٹ حاصل کئے، تیسرے نے 11,000، چوتھے نے 9,500 اور
پانچویں نے 8,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000 ووٹ حاصل
کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائے گا حالانکہ 38,000
افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور 50,000 افراد نے بوجوہ اپنا رائے
حق دہی استعمال ہی نہیں کیا مگر وہ صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس
نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں 500 ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک
لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائے گا۔
موجودہ نظام میں نمائندگی کا تناسبمندرجہ بالا تجزیے کو سامنے رکھتے ہوئے
پاکستان میں 1970ء، 1977ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1997ء اور 2002ء کے
انتخابات کا جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جہاں امیدوار محض چند
ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے اور پورے حلقہ انتخاب کے نمائندے قرار دیے
گئے اور مجموعی طور پر برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی بہت کم
ووٹ حاصل کئے۔ مثلاً 1970ء کے انتخاب میں برسر اقتدار جماعت کو صرف 38.9
فیصد ووٹروں کی تائید حاصل تھی۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے
37.63 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوری
اتحاد نے 29.56 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 28 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس
نظام انتخاب کے تحت پیپلز پارٹی نے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل
کیں اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تناسب سے کم نشستیں حاصل کیں۔
1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37 فیصد ووٹ ملے اور
نشستیں 106 ملیں یعنی 52.8 فیصد جبکہ پی ڈی اے کو 36.65 فیصد ووٹ ملے اور
نشستیں 44 یعنی 22.7 فیصد۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت ووٹوں میں صرف ایک
فیصد کے فرق سے 62 نشستوں کا فرق پڑ گیا۔ اس کے بعد نصف سے بھی کم نشستیں
حاصل کرنے والی جماعت نے حکومت سازی کے مرحلہ پر درپردہ دھاندلی اور
اراکینِ اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کے عمل سے خرید کر حکومت بنا لی اور وہ
حکومت ملک بھر کے عوام کی نمائندہ حکومت کہلائی۔
اِس طرح مجموعی ٹرن آؤٹ کے اعتبار سے ان انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو 1977ء
کے عام اِنتخابات میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی شرح کا تناسب سرکاری اعداد و
شمار کے مطابق تقریباً 63 فیصد تھا، جو کہ بعد ازاں آنے والے اِنتخابات میں
بتدریج کم ہوتا رہا۔ 1988ء کے عام اِنتخابات میں ٹرن آؤٹ 43.07 فیصد ہوا،
1990ء کے عام اِنتخابات میں 45.46 فیصد تک پہنچ گیا، 1993ء کے عام
اِنتخابات میں 40.28 فیصد پر آگیا، 1997ء کے عام اِنتخابات میں 35.42 فیصد
کی نچلی سطح پر آگیا جوکہ 2002ء کے عام اِنتخابات میں 41.26 فیصد کی سطح پر
پہنچایا گیا۔ بعد ازاں 2005ء میں ہونے والے بلدیاتی اِنتخابات میں ووٹوں کا
ٹرن آؤٹ 30 فیصد کی اِنتہائی نچلی سطح تک گر گیا حالانکہ یہ الیکشن لوکل
سطح پر منعقد ہوئے اوران میں لوگوں نے زیادہ بڑھ چڑ کر مقامی نمائندوں کو
ووٹ دیے۔ اِس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ مہنگے اور بدعنوان
انتخابی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور اُنہیں موجودہ نظام انتخابات کے ذریعے
ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کا کوئی اِمکان دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح اگر ہم انفرادی امیدواروں کی جیت کا تناسب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے
کہ اس میں بھی توازن نہیں اور کوئی بھی امیدوار اپنے مدمقابل امیدواروں سے
محض ایک ووٹ کی برتری لے کر کامیاب ہو سکتا ہے چائے اسے رائے دہندگان کی
اکثریتی تعداد ناپسند کرتی ہو مثلاً الیکشن 90ء میں حلقہ این اے 9 کوہاٹ سے
سید افتخار گیلانی صرف 8.73 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے اور حلقہ
این اے 17 کوہستان سے مولوی محمد امین محض 5.29 فیصد ووٹ لے کر کامیاب
ہوئے۔ صوبہ سرحد میں کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی کے امیدواروں میں سے سب
سے زیادہ ووٹوں کا تناسب 30 فیصد تھا اور قومی اسمبلی کے 26 اراکین میں سے
صرف 5 امیدواروں نے 20 اور 30 فیصد کے درمیان ووٹ حاصل کئے۔
موجودہ نظام انتخابات کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات اور ان سے بننے والی
حکومتوں کو حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں کے تناسب کے جائزے سے یہ ثابت ہوتا
ہے کہ اس نظام انتخابات کے تحت نہ تو کوئی رکن پارلیمنٹ عوام کی اکثریت کا
نمائندہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان نمائندوں کے ذریعے بننے والی حکومت عوام کی
اکثریت کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے جبکہ ایک جمہوری نظام کی لازمی شرط یہ ہے
کہ جمہور (عوام کی اکثریت) کو منتخب اداروں میں واضح نمائندگی ملے جو کہ
موجودہ نظام میں کسی شکل میں بھی پوری نہیں ہوتی۔
سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظموجودہ نظام انتخابات صرف
سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اس نظام کے تحت صرف
سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ عوام کی پسند کو محدود کر
دیا جاتا ہے اور جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے
قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میں ایسی ترامیم کرتے ہیں جن سے
صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ
نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک
غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوں کوئی اصلاحات نافذ
نہیں ہو سکیں اور نہ ہی اسلامی قوانین اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا نفاذ ہو سکا ہے۔ چونکہ شریعت کا نفاذ ان بالادست طبقات کے مفاد میں
نہیں اس لئے ان طبقات کے ہوتے ہوئے عوامی حقوق کا تحفظ ہوسکتا ہے اور نہ
شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔ اس کی عملی مثال مشرف دور کی 342 ارکان پر مشتمل
اسمبلی ہے جس نے ان پانچ سالوں میں کوئی ایک بل بھی عوام کے مسائل سے متعلق
پیش نہیں کیا، البتہ اپنی مراعات اور تنخواہوں کے بارے میں تین بار اضافوں
کے بل پورے اتفاق سے پاس ہوتے رہے۔
دھن، دھونس اور دھاندلی کا آزادانہ استعمالاس نظام میں امیدوار چونکہ محض
ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے اس لئے ناجائز ذرائع اور سرکاری
پشت پناہی کے حامل امیدوار اپنے مدمقابل کو شکست دینے اور خوفزدہ کرنے کے
لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام ممکنہ طریقوں کا آزادانہ استعمال کرتے
ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخاب میں برسر اقتدار حکومتوں اور بالادست طبقات نے
دھن، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتے اور پھر الیکشن جیتنے کے
بعد بھی اپنے مدمقابل کو ذلیل و رسوا کرنے اور اس سے ہر ممکن انتقام لینے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے انتہائی بیہمانہ اور غیرشریفانہ طریقوں سے
نقصان پہنچاتے رہے۔ ان بالادست طبقات کو ہمیشہ یہ اطمینان رہتا ہے کہ ہمارے
حلقے محفوظ ہیں اور ہمارے سوا کوئی دوسرا شخص ہمارے حلقے سے منتخب نہیں ہو
سکتا اس لئے وہ اس نظام انتخابات کے تحت اپنے استحصالی، جاگیردارانہ اور
سرمایہ دارانہ مفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور ان کی اجارہ
داریاں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ ان اجارہ داریوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کے
موجودہ سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی کی توقع قطعاً نہیں کی جا سکتی۔
نااہل اور مفاد پرست افراد کا چناؤموجودہ نظام انتخابات نے ہمیشہ اسمبلیوں
میں بیشتر نااہل اور مفاد پرست افراد کو بھجوایا ہے جنہوں نے ملک و قوم کی
خدمت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا۔ ہارس ٹریڈنگ، رشوت، غبن، لوٹ
مار، خیانت اور ناجائز طریقوں پر کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لینا اور دھوکہ
دھی سے ان قرضوں کو معاف کروانا ان اراکین کا معمول رہا ہے۔ حالیہ پارلیمنٹ
ممبران میں سے اکثریت نادہندہ تھی اور انہوں نے اپنے عزیزوں کے نام پر
اربوں روپے معاف کرواتے۔ یہی قرض پاکستانی عوام پر مہنگائی اور بدحالی کی
صورت میں اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے غریب عوام اس حقیقت سے
واقف نہیں اور ہر بار اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر انہی لٹیروں کو دیتے ہیں۔
اسی طرح عوام کی خدمت اور علاقہ کی بہتری کے نام پر کروڑوں روپے کے منصوبے
منظور کروائے مگر انہیں اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ عوام کے
منتخب نمائندوں کی حیثیت سے جتنی بھی مراعات ملیں سب اپنے ذاتی مفادات کے
لئے استعمال کیں۔ کارخانوں کے لائسنس اور پرمٹ، پلاٹوں اور جاگیروں کا حصول
ان اراکین کا شیوہ رہا۔ یہ نااہل اور مفاد پرست افراد ایک بالا دست طبقے کی
حیثیت سے عوام کا استحصال کرتے رہے اور کر رہے ہیں یہ لوگ ہمیشہ انتخابات
کے مواقع پر عوام کے خادم اور غریبوں کے ہمدرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔
انتخابات جیتنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے داؤ پر لگاتے ہیں اور پھر اسمبلی
میں بیٹھتے ہی پہلے چند روز میں وہ سارا خرچہ (اصلِ زر) وصول کر لیتے ہیں
اور بقیہ سال سارے منافع کے ہوتے ہیں۔
علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ کا باعث پاکستان کے چاروں
صوبوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف مسالک کے لوگ آباد ہیں مگر
بدقسمتی سے اس نظام انتخابات کے تحت ہمیشہ علاقائی، گروہی، لسانی اور فرقہ
وارانہ مسائل کو انتخابی نعروں کے طور پر استعمال کیا گیا اور انتخابات میں
نشستوں کے حصول کے لئے مختلف سیاستدانوں نے رائے دہندگان کے جذبات کو مشتعل
کر کے اپنے لئے تائید حاصل کی۔ سندھ ایک عرصہ سے لسانی کشیدگی اور فسادات
میں جل رہا ہے۔ ہزاروں گھرانے برباد ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگ اس آگ میں
جل چکے ہیں۔ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان میں ایک عرصہ سے مذہبی کشیدگی
اپنے عروج پر ہے اور کئی لوگ اس کشیدگی کے باعث قتل ہو چکے ہیں اور سینکڑوں
بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان سب فسادات کے پیچھے نام
نہاد لیڈروں کے سیاسی مفادات کارفرما ہیں اور یہ مفادات محض اس نظام
انتخابات کی وجہ سے ہیں جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
کمزور حکومتوں کی تشکیل اور سیاسی نظام میں عدم استحکاماس نظام انتخابات کے
ذریعے جتنی بھی حکومتیں بنیں کمزور ثابت ہوئیں اور حکومتوں کی کمزوری سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی کو اپنا پیشہ وارانہ کردار چھوڑ کر
سیاسی کردار ادا کرنا پڑا نتیجتاً سیاسی نظام میں عدم استحکام رہا۔ حکومتیں
اپنی کمزوری کے باعث جلد ٹوٹتی رہیں اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک پر
حکمرانی کرتے رہے۔ ملک سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی انحطاط کا شکار ہو گیا۔
سیاسی جماعتوں کو اب اس نظام میں نہ تو کسی ٹھوس پروگرام کے پیش کرنے کی
ضرورت رہی ہے اور نہ کسی دستور و منشور کی۔ انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ
پڑھتا۔ ہر جماعت کو جیتنے والے امیدواروں (Winning Horses) کی ضرورت ہوتی
ہے اور انہی کے ذریعے انتخاب جیتا جاتا ہے اس میں عوام کا کردار محض نمائشی
اور رسمی رہ گیا ہے اس نظام میں یہی پہلو حکومتوں کو کمزور اور سیاسی نظام
کو غیر مستحکم رکھتا ہے۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر فوجی آمریت بار بار
جمہوری بساط لپیٹتی ہے اور پھر ملک اندھیروں کی نظر ہوجاتا ہے۔
اس نظام میں نمائندوں کا احتساب ممکن نہیںموجودہ نظام انتخاب کے تحت
نمائندے منتخب ہونے کے بعد بالعموم ہر قسم کے احتساب سے بالاتر رہتے ہیں۔
رائے دہندگان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں کا احتساب کر
سکیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ
پر منتخب ہونے والے نمائندوں کی گرفت کر سکیں۔ اس طرح یہ نمائندے نہ صرف
اپنی پارٹی کے منشور اور پروگرام سے انحراف کرتے ہیں بلکہ رائے دہندگان سے
کئے گئے وعدوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اگلے انتخابات پر دھن، دھونس
اور دھاندلی کی بدولت دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں اور مسلسل اپنے ہی مفادات
کا تحفظ کرتے ہیں۔ اب تو بدنامِ زمانہ ’’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘‘ کے ذریعے
سیاست دانوں کو مقدس گائے قرار دے کر انہیں ہر طرح کے احتساب سے بالا تر
قرار دے دیا گیا ہے۔
عوام اور رائے دہندگان کی عدم دلچسپیپاکستان میں اس نظام کے تحت جتنے بھی
انتخابات منعقد ہوئے ان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زیادہ سے زیادہ
45 فیصد افراد نے رائے دہی میں حصہ لیا، دو تہائی رائے دہندگان نے انتخابات
سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔
رائے دہندگان نے ہمیشہ ان انتخابات سے بیزاری کا اظہار کیا اور عدم دلچسپی
کی وجہ نظام انتخابات سے اعتبار اٹھ جانے کو بتایا۔
اس نظام انتخابات میں جس طرح کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں سنجیدہ اور تعلیم
یافتہ طبقہ اسے کما حقہ اہل نہیں سمجھتا ان کی مجبوری ہے کہ جو افراد کھڑے
ہیں انہی میں سے کسی ایک کے حق میں ووٹ ڈالیں۔
اس نظام انتخابات کے تحت امیدواروں کی مہم کے دوران جو ماحول بنتا ہے اور
اس مہم کے نتیجہ میں پولنگ کے بعد آنے والے نتائج عوام کی توقعات کے برعکس
ہوتے ہیں اور رائے دہندگان کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اس کا ووٹ ملک کی تقدیر
کے فیصلے پر واضح اختیار نہیں رکھتا کیونکہ تقدیر کا فیصلہ اور قوتوں کے
ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اس کا ووٹ دینا نہ دینا برابر ہے۔
پولنگ کے دن سیاسی دھڑے بندیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ پرچی بنوانا، پولنگ
سٹیشن تک جانا اور مختلف کیمپوں میں بیٹھنا، بعض شرفاء اس کشمکش میں اپنے
آپ کو فریق نہیں بنانا چاہتے چنانچہ وہ رائے دہی کے لئے اپنا حق استعمال ہی
نہیں کرتے۔
قومی مسائل حل کرنے میں ناکام نظام اس نظام انتخابات کے تحت جتنی بھی
حکومتیں بنیں ان کی اولین ترجیح اپنے اقتدار کو دوام دینا، اپنے مفادات کا
تحفظ کرنا، حزب اختلاف کو ملک دشمن عناصر قرار دے کر انتقامی کاروائیاں
کرنا اور اگلے انتخابات کے لئے ملکی حالات کو اپنے لئے سازگار بنانے پر
مرتکز رہی ہے۔ اس طرح ان حکومتوں کو کبھی بھی قومی مسائل کو حل کرنے کی طرف
توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی چنانچہ قیام پاکستان کے 60 سال بعد بھی
قومی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ بلکہ ہر اسمبلی پہلے سے موجود مسائل کے انبار
میں اضافہ کرکے رخصت ہوتی ہے۔
یہ نظام انتخابات سراسر ظلم اور اندھیر نگری ہےاس ملک میں ایک چپڑاسی کی
تقرری کے لئے بھی میرٹ شرط ہے اور ایک کلرک کی تقرری کے لئے بھی تعلیمی
قابلیت مقرر ہے اس کے لئے بھی تحریری امتحان اور انٹرویو لازمی ہے ایک
ڈرائیور کی تقرری کے لئے بھی ٹیسٹ اور انٹرویو ضروری ہے الغرض کسی چھوٹی
تقرری سے لے کر بڑی تقرری تک سکول، کالج، یونیورسٹی کے اساتذہ، ڈپٹی کمشنر،
کمشنر، سیکریٹری وغیرہ کی سطح تک بغیر مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے
کسی شخص کی تقرری عمل میں نہیں آتی۔
موجودہ نظام انتخابات کے تحت صرف پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایسے
ادارے ہیں جہاں ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لئے کسی قسم کی قابلیت،
تجربہ، مہارت، کردار اور ذہانت جیسی خصوصیات کی ضرورت نہیں رہی۔ بمشکل
2002ء کے انتخابات میں ارکان کی اہلیت کے لیے بی۔ اے کی شرط رکھی گئی تھی،
لیکن اِس بار اسے بھی ختم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہاں صرف درج ذیل
چیزوں کی ضرورت ہے:
سرمایہ و دولت
غنڈوں اور رسہ گیروں کی فوج
ناجائز اور غیر قانونی اسلحہ
حکومتی پارٹی کا ٹکٹ
ان شرائط کو پورا کرنے والا شخص جیسا بھی ہو قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن
منتخب ہو سکتا ہے۔ |