کیرالہ اسٹوری کی نام نہاد عالمی دہشت گردی کو وزیر اعظم
پڑوسی ریاست کرناٹک میں نہیں لاسکے مگر وہ اپنے آپ نہایت دلچسپ انداز میں
بی جے پی کے زیر اقتدار دیو بھومی ’اتراکھنڈ‘ پہنچ گئی۔ ہندی فلموں میں
شادی کا اچانک رک جانا ایک عام سی بات ہوا کرتی تھی۔ یہ منظر ایک امیر کبیر
زمیندار کو ولن اور معمولی محنت کش کو ہیرو بنادیا کرتا تھا۔ اتراکھنڈ کی
ایک شادی کے التوا نے عارضی طور پر بجرنگ دل کو ہیرو اور بی جے پی کوولن
بنادیا ہے لیکن یہ تو صرف انٹرویل ہے۔بی جے پی رہنما اور سابق رکن اسمبل
یشپال بے نام نے ایک قدم پیچھے ضرور ہٹایا ہے مگر ہار نہیں مانی ۔ بظاہر
ایسا لگتا ہے کہ یہ فلم ایک اینٹی کلائمکس کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس کہانی کا
’ٹویسٹ‘ ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے کا اپنے والدین کی رضامندی سے ایک دوسرے
کے ساتھ شادی کرنا نہیں بلکہ اس کی تقریبات کا اعلان ہے۔ بجرنگ دل کی ساری
دبنگائی کے باوجود صرف تقریبات ملتوی ہوئی ہیں لیکن شادی منسوخ نہیں ہوئی ۔
اس لیے قوی امکان یہ ہے کہ تقریبات کے بغیر شادی ہوجائے کیونکہ مثل مشہور
ہے ’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘؟
قارئین کے اندرمذکورہ بالا ٹریلر کو پڑھنے کے بعد پوری کہانی سننے کی خواہش
پیدا ہوئی ہوگی؟اتر پردیش میں جب لوہیا نوازوں کا غلبہ مکمل ہوگیا تو برہمن
اقتدار سے اس قدر مایوس ہوئے کہ ان کے کئی سیاستدانوں نے نہوجن سماج پارٹی
کا دامن تھام لیا۔ ایسی صورتحال میں اپنی برادری کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بی
جے پی کے پہلے برہمن وزیر اعظم نے اتر پردیش کو تقسیم کرکے اس میں سے
اتراکھنڈ کو الگ کردیا ۔ آگے چل کر وہ زمانہ بھی آیا کہ اتراکھنڈ کے ایک
راجپوت اجئے کمار بشٹ نے گورکھپور میں آکر بھگوا چولا اوڑھ کر اور اپنا
نام تبدیل کرکے یوگی ادیتیہ ناتھ رکھ لیا۔ زمانے نے کروٹ لی تو وہ اپنے گرو
مہنت اودیہ ناتھ کی سیاسی وراثت پر قبضہ کرکے یوپی کا وزیر اعلیٰ بن گیا ۔
اتراکھنڈ کی نئی نویلی ریاست پر بھی بی جے پی قابض ہوگئی اور سیاستدانوں کی
اچھی خاصی فوج اس کی طابع و فرمان ہوگئی۔
اتراکھنڈ کے پوڑی میں بی جے پی رہنما یشپال بےنام کی مقامی سیاست پراچھی
پکڑ ہے۔ وہ سنہ 2018 میں تیسری بار پوڑی میونسپلٹی کے چیئرمین بنے اور اب
چوتھی بار اس عہدے کے خواہشمند ہیں۔ ویسے ایک باریشپال بی جے پی کے ٹکٹ
پرپوڑی کے رکن اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں لیکن پھر ان کی دلچسپی بلدیہ تک
محدود ہوکر رہ گئی۔ بی جے پی میں ہونے کے باوجود یشپال ہندووں کے ساتھ ساتھ
مسلمانوں میں بھی خاصے مقبول ہیں لیکن ایک نجی بلکہ خاندانی قدم نے ان کے
لیے مشکلات کھڑی کردیں۔ ہوا یہ کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی امیٹھی کے
ایک مسلمان لڑکے سے طے کردی ۔ اس شادی میں دونوں خاندانوں کی رضامندی شامل
ہے۔ اپنی بیٹی مونیکا کی خوشی دوبالا کرنے کی خاطر انہوں نے 25، 26، 27 مئی
کوپوڑی میں شادی کی تقریبات کا اعلان کردیالیکن شادی کے کارڈز تقسیم ہونے
کے بعد ہنگامہ برپا ہوگیا۔اس کارڈ کے ذریعے دلہن کی ماں اوشا راوت اور والد
یشپال بے نام نے اپنی بیٹی مونیکا اور امیٹھی کے رہائشی مونس خان کی شادی
کی تقریب کے بعد استقبالیہ میں شرکت کا دعوت نامہ دیا گیا تھا۔
اس کارڈ کے وائرل ہوتے ہی یشپال بے نام اپنی بیٹی کی شادی ایک مسلمان
نوجوان سے کروانے پر ٹرول ہونے لگے۔ اس پر ان کا پہلا ردعمل تو یہ تھا کہ
’یہ 21ویں صدی ہے اور بچے اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔‘انھوں نے یہ بھی کہا
تھا کہ اپنی بیٹی کی خوشی کے مدنظر خاندان نے شادی کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں
خاندانوں کی رضامندی کے بعد شادی کی تقریب طے پائی ہے لیکن بجرنگیوں سے یہ
خوشی دیکھی نہیں گئی۔ ہنگامہ بڑھا تو بے نام اپنے اس دلیرانہ موقف پر قائم
نہیں رہ سکے ۔مخالفت کے دباو میں یشپال نے شادی ملتوی کرکے اس کی تقریبات
کو منسوخ کر دیا۔ اس موقع پر ا انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ ’ابھی شادی کے
لیے ماحول سازگارنہیں ہے۔‘ ان کے مطابق ’جو ماحول بن گیا ہے اس کو دیکھتے
ہوئے میرے اہل خانہ اور خیر خواہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم شادی کی 25، 26،
27 مئی کو ہونے والی تقریبات نہیں کریں گے۔یشپال کی دلیل یہ ہے کہ اس ماحول
میں ’دولھے کی جانب سے آنے والے براتیوں کے ذہن میں خوف ہوگا اور اگر
پولیس کے تحفظ میں شادی یہ مناسب نہیں ہے۔ اسی لیے ہمارے خاندان نے فیصلہ
کیا کہ نا سازگار ماحول میں شادی کی تقریب نہ کی جائے۔‘
یشپال کے اس بیان میں کہیں بھی ندامت یا شرمندگی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ شادی
کی تقریبات کو منسوخ کرنے کا تو ذکر ہے لیکن رشتۂ ازدواج کو قائم نہیں
کرنے کا عندیہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب اب یہ شادی بینٖڈ باجا اور
براتی کے بغیر ہو جائے گی ۔ یشپال بے نام کا یہ مصمم ارادہ سنگھ پریوار کے
منہ پر زور دار طمانچہ ہے ۔ وہ اگر خود اپنے آدمی کو نہیں روک سکتاتو
دوسروں پر ’لوجہاد‘ کا الزام لگانے کا اسے کیا حق ہے ؟ اس میں کیرالہ
اسٹوری کے ذریعہ پھیلائے جانے والےدھوکہ ، فریب اور جعلسازی کے الزام کی
بھی تردید ہوجاتی ہےکیونکہ یشپال اور ان کے اہل خانہ پر بھلا کون دباو ڈال
سکتا ہے۔ ان ہندوتوا نوازوں نے جس طرح یشپال کو شادی کی تقریبات منسوخ کرنے
پر مجبور کیا یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ اس کی ابتداء بے ضرر
ٹرولنگ سے ہوئی مگر بہت جلد وہ لوگ دھمکیوں پر اتر آئے اوراپنے ہی آدمی
کےخلاف احتجاج شروع کردیا۔ اس کا ثبوت ایک ہندو تنظیم کے عہدیدار کی یشپال
بے نام کے ساتھ فون پر بات چیت کے آڈیو سے منظر عام پر آنا ہے۔ اس آڈیو
ٹیپ میں وہ بدمعاش یشپال کو دھمکیاں دے کرشادی سے باز رکھنے کی کوشش کرتا
سنائی دیتا ہے۔
اس شادی کو روکنے کے لیے بدری ناتھ کی یاترا پر جانے والے ہریانوی بجرنگ دل
کے کارکنوں نے پوڑی پہنچ کر ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا اور اپنا احتجاج
درج کرایا۔اس کے بعد سڑک پر اتر کر کوٹ دوار میں مظاہرہ کیا گیا۔ اس معاملے
کو لے کر ایک طرف تو بجرنگی خوب اچھل کود رہے ہیں مگر بی جے پی کے ریاستی
صدر مہندر بھٹ کو کوئی خاص اعتراض نہیں ہے۔ انھوں نے پہلے تو اس سے لاعلمی
کا اظہار کرکے ٹال مٹول کی کوشش کی اور اس سے بات نہیں بنی تو اسے بی جے پی
رہنما یشپال بے نام کا ذاتی معاملہ قرار دے کر پلہّ جھاڑ لیا۔اپنے رہنما کی
بلاواسطہ حمایت کے بعد شادی کے حوالے سے یشپال کے ارادے اور بھی مستحکم
ہوگئے۔ ان کے پائے استقلال میں ان سارے ہنگاموں کے باوجود لرزش نہیں آئی ۔
اپنےمستقبل کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’اب کیا ہوگا، کیسے ہوگا، اس کا
فیصلہ ہم بیٹھ کر کریں گے، جن خاندان والوں نے یہ فیصلہ کیا وہ دوبارہ بیٹھ
کر فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘ یعنی بجرنگی غنڈوں کو مداخلت کی
اجازت نہیں دی جائے گی ۔
اس شادی کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ یشپال بے نام کے حلقۂ انتخاب میں تقریباً
3500 مسلمان ووٹرس ہیں۔ مقامی سیاسی مبصرین کے مطابق اس شادی نے یشپال کے
لیے ان ووٹ کا ملنا یقینی بنادیا ہے اور تقریبات کی منسوخی کے باوجود ملیں
بھی ملیں گے۔ہندو انتہا پسندجس کی مخالفت کریں مسلمان بغض معاویہ میں اس کی
حمایت کردیتے ہیں ۔ بی جے پی ریاستی رہنما کے رخ سے یہ اندازہ لگانا مشکل
نہیں ہے کہ یشپال کو پارٹی کی حمایت حاصل رہے گی۔ ٹوئٹر کی پیالی میں ابال
سے قطع نظرپوڑی کے اندر اس سے کوئی تناؤ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر ہنگامہ تو
ہے مگر زمینی سطح پر وہ نظر نہیں آتا۔ ہریانہ سے آکر احتجاج کرنے اور
مجسٹریت کو میمورنڈم دینے مقامی حالات نہیں بدلتے۔ کوئی سیاستداں اگر عوام
کے مسائل میں دلچسپی لےکر انہیں حل بھی کرے تو رائے دہندگان اس کے خلاف اس
طرح کی ناٹک بازی سے متاثر نہیں ہوتے۔
اس واقعہ نےکیرالہ کی معروف نومسلم ڈاکٹر ہادیہ کی یاد تازہ کردی۔ انہوں نے
شفین نامی مسلم لڑکے سے شادی کو تو اسے ’لو جہاد ‘سے جوڑا گیا۔ بدقسمتی کے
ہائی کورٹ نے اس جھوٹ پر یقین کرکے ہادیہ کو زبردستی والد کے حوالے کرکے
این آئی اے کو تفتیش کا کام سونپ دیا۔ اس وقت بی جے پی رہنما سبرامنیم
سوامی نے کہا تھا کہ ’’میں کیرالہ کیس کو لوجہاد کا معاملہ مانتا ہوں اور
ایک ہندو لڑکی سے مسلم لڑکے کی شادی کے معاملے میں این آئی اے جانچ کی مدد
کروں گا‘‘۔ اس پر شہزاد پونا والا نے سوال کیا تھا کہ سبرامنیم سوامی کی
اپنی بیٹی کامسلمان سے شادی کرنا بھی کیا ’لو جہاد ‘ تھا؟کیابی جے پی رہنما
مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی شادیاں بھی ’لو جہاد ‘کے زمرے میں
آتی ہیں ؟ یہ قدرت کا عجب انتظام ہے کہ ہندوتوا نواز جب بھی اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف آسمان سر پر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو مشیت انہیں منہ
کے بل پٹخ دیتی ہے۔ یشپال کا واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
|