بھارت کی ازلی خواہش پاکستان کو جھکانا اور ہندوستان کی
تقسیم کو غلط ثابت کرنا تھا جس کی خاطر اس نے ۶ ستمبر ۱۹۶۵ کو پاکستان پر
حملہ کیا تا کہ اکھنڈ بھارت کے خواب میں حقیقت کے رنگ بھر سکے ۔پاکستان ایک
نوزائیدہ ملک ہونے کے ناطے مالی اور عسکری مشکلات کا شکار تھا لہذا اپنے سے
چھ گنا بڑے ملک کے حملہ کو پسپا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔بھارت اپنی
قوت کے گھمنڈ اور اپنی فوجی برتری کے نشہ میں بد مست تھا لہذا اسے یقین تھا
کہ وہ پاکستان کو شکست سے ہمکنار کرکے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکتا ہے
،شائد یہی وجہ تھی کہ اس کے فوجی کمانڈرز نے لاہور جم خانہ میں شراب و شباب
کی محفل سجانے کے خواب سجا رکھے تھے۔کمانڈرز جنگ کو بیتا ہوئے سمجھ رہے تھے
۔ان کا گمان غلط بھی نہیں تھا کیونکہ قوت و حشمت ہاتھوں میں مقید ہو تو
ایسی ہی سوچ جنم لیتی ہے۔دشمنی ،نفرت اور انتقام میں اندھے بھارت کو
پاکستان کی سر زمین چائیے تھی جس کیلئے وہ رو زِ اول سے تیاری میں جٹا ہوا
تھا ۔لیکن اسے کیا خبر تھی کہ وہ جس محاذ کو تر نوالہ سمجھ کر اپنی فتح کے
جشن منانے کی منصوبہ سازی کر رہا تھا وہاں پر میجر عزیز بھٹی جیسا سپوت اس
کی افواج کا انتظار کر رہاتھا ۔وہ اپنے جانبازوں کے ساتھ اپنی جان کو اپنی
مٹی کی خاطر قربان کرنے کا تہیہ کئے ہو ئے تھا ۔ بھارتی حملہ سے ہر فرد خوف
و ہراس کا شکار تھا۔کمزور کے پاس اپنی جان کے علاوہ قربان کرنے کیلئے کچھ
بھی نہیں ہوتا لہذا وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر لئے دشمن پر ٹوٹ پڑنے کیلئے
بے تاب ہو تا ہے۔ میجر عزیز بھٹی تشویش کی ان لرزہ انگیز ساعتوں میں اپنے
مورچہ سے نکلے اور زندہ دلانِ لاہورسے یوں مخاطب ہوئے(میرے عزیز ہم وطنو تم
امن سکون سے سو جاؤ کیونکہ پاک فوج کے جوان آپ کی حفاظت کی خاطر محاذِ جنگ
پر پہرہ دے رہے ہیں۔ان کے خون کی سرخ بوندیں پاک دھرتی کو سیراب کرنے کیلئے
بے تاب ہیں۔وہ کٹ تو سکتے ہیں لیکن دشمن کے ناپاک قدموں کو پاک دھرتی کو
چھونے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔۔اہلِ جہاں نے دیکھا کہ میجر عزیز بھٹی نے
اپنی قوم سے جو وعدہ کیا تھا اسے اپنی جان کی قربانی دے کر سچ ثابت کر دیا۔
ایک چھوٹی مملکت نے اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کی پیش قدمی روک دی تھی۔ پاک
فوج کے سر فروشوں کیلئے وطن کی حرمت اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی لہذا پاک
فوج کے جوانوں نے اپنی جان مادرِ وطن،اس کی مٹی ،اپنی بیٹیوں ، بہنو ں ماؤں
اور بھائیوں کیلئے قربان کر دی تو وطن نے انھیں شہید کا خطاب دے کر ازلی
زندگی سے ہمکنار کر دیا ۔،۔
میرے دل کے نہاں خانوں میں کہیں ایم ایم عالم ہے،کہیں میجر طفیل ہے،کہیں
کیپٹن سرور شہید ہے ،کہیں میجر شبیر ہے،کہیں پر کرنل شیر خان ہے اور کہیں
پر راشد منہاس ہے ۔ یہ وہ چند نام ہیں جو مجھے توانائی عطا کرتے ہیں ، مجھے
حوصلہ دیتے ہیں اور مجھے اپنے وطن کی خاطر مر مٹنے کا جذبہ عطا کرتے ہیں۔یہ
نام نہ ہوں گے تو مجھے رہنمائی کہاں سے ملے گی ؟کیا یہ قیامت کی گھڑی نہیں
کہ وہ سر فروش جن کے نام سے بھارتیوں کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی
وطنِ عزیز میں کچھ بلوائیوں نے ان کی عظمت کو زمین بوس کرنے کا مظاہرہ کیا
۔وہ نام جو ہماری روح میں زندہ ہیں اور ہماری نگاہوں میں ستا رو ں کی مانند
چمک رہے ہیں ان کی تصویروں کو جنونی بلوائیوں نے اپنے پاؤں تلے کچلنے کی
جسارت کی ۔ تصویریں یوں مٹا نہیں کرتیں،محبت یوں دم نہیں توڑتی،وفائیں یوں
ختم نہیں ہوتیں، اور نہ ہی جان لٹانے والے آگ کے شعلوں میں یوں خاکستر ہو
تے ہیں۔ارشادِ خدا وندی ہے( وہ لوگ جو راہِ حق میں مارے جائیں انھیں مر دہ
مت کہو وہ زندہ ہیں مگر تمھیں اس کا شعور نہیں ہے) اسی حقیقت کو اقبال جیسے
عظیم شاعر نے ایک مصرعہ میں اپنے ہی رنگ میں بیان کیا ہے ( صلہِ شہید کیا
ہے تب و تاب ِ جاودانہ)۔وطنِ عزیز آج کل ایک عجیب کیفیت سے گزر رہا
ہے۔سیاست اور جنگ میں سیاسی اصولوں کا خون ہو رہا ہے ۔سیاست کا اپنا میدان
ہے اور اگر سیاست اپنی حدود میں رہے تو اس کی خو بصورتی میں چار چاند لگ
جاتے ہیں لیکن جب سیاست اپنی حدوں سے تجاوز کر جاتی ہے تو پھر آگ اور خون
کے دریا میں بدل جاتی ہے۔سیاست تو نام ہی تحمل اور برداشت کا ہے۔اختلافِ
رائے تو سیاست کی بنیاد ہے لیکن کچھ لوگ اختلافِ رائے کو بردا شت کرنے
کیلئے تیار نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے مخالفین کا قلع قمع چاہتے ہیں۔وہ اپنے
مخالفین کو زندہ رہنے کا حق تفویض کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔وہ مخالفین
کو ملیا میٹ کرنا اور ان کانام و نشان مٹا نا اپنی سیاست کا طرہِ امتیاز
سمجھتے ہیں۔،۔
ایسی سوچ باہمی ٹکراؤ اور مخاصمت کو جنم دیتی ہے جو اپنے اندر شعلوں کو
پروان چڑھا تی ہے۔پوری دنیا میں سیات کا چلن یہی ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں
اپنا اپنا منشور عوام کی عدالت میں پیش کرتی ہیں اور پھر عوام جس جماعت کو
چاہتے ہیں اپنے مینڈیٹ سے نواز تے ہیں لیکن اگر مقصود دوسروں کو برا بھلا
کہنا اور ان کی توہین کرنا قرار پائے تو پھر کوچہِ سیاست پرا گندہ ہو جاتا
ہے،ماحول ٹکراؤ انگیز ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کا وجود برداشت سے باہر ہو
جاتا ہے ۔نفرت کی چنگاریاں ایسی منفی سوچ کو تیز آلاؤ میں بد ل دیتی ہیں۔
محبت نفرت میں بدل جائے تو یہ خون مانگتی ہے اور پھر نفرت کے انہی فلک
انگیز شعلو ں میں اپنے پرائے کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ دیوتا شیطان کی شبیہ
اختیارکر لیتا ہے جس کا مٹا دیا جانا ضروری قرار پاتا ہے۔ قائدین کا اپنے
پیرو کاروں کو گھیرا ؤ جلاؤ کی تبلیغ کرنا اور دوسروں کے گھروں کو نشانہ
بنانے کا ہدف دینا پہلی ترجیح بن جائے تو معاشرے جنگل کا منظر پیش کرنے لگ
جاتے ہیں اور قابلِ فخر علامتیں پاؤں تلے رووندھی جاتی ہیں۔وطنِ عزیز میں ۹
مئی کو بلوائیوں نے جس طرح آگ اورخو ن کی ہولی کھیلی اس نے ادب،شاعری اور
لٹریچر کے معنی بدل ڈالے ۔ ٹرائے کی جنگ سے شروع ہونے والے انسانی المیہ کو
جمہوریت نے اپنے گھنے پروں میں چھپا کر انسانی تقدس،احترام اور تکریم کے
نئے نظریات سے روشناس کروایا تو باہمی مخاصمت اور جنگ و جدل کو پسپا ہو نا
پڑا ۔دنیا میں پر امن ،شفاف اور غیر جانبدار انتخابات سے اقتدار کی مسند کی
قسمت کا فیصلہ ہو نے لگا لیکن اس کے باوجود اگر کوئی جماعت اس راہ سے بھٹک
جائے تو اس کا انجام نوشتہِ دیوار ہو تا ہے۔اندھی تقلید میں بلوائیوں نے جس
راہ کا انتخاب کیا اس نے وطنِ عزیز کی عظمت کو داغدارتو کیا لیکن اس نے
بلوائیوں کو بھی نشانِ عبرت بنا ڈالا ۔آج وہ نفرت اور گراوٹ کا استعارہ بن
چکے ہیں اور ان پر عرصہِ حیات تنگ ہو گیا ہے۔یہ بات میرے حیطہِ ادراک سے
ماوراء ہے کہ وہ سارے سرفرو ش جھنوں نے اپنا گوہرِ زندگی کو وطن کی بقا
،استحکام ،میری خوشیوں ،میری حیات، میری زندگی،میری آزادی اور میرے ارمانوں
کی برو مندی کی خاطر قربان کیا کچھ بلوائیوں نے انہی کی تصویروں کو اپنے
پاؤں تلے روندھنے کا قبیح عمل کیا۔ایسی گری ہوئی حرکت سے شہدا ء کے
خاندانوں کے اذہان پر جو اثر ہوا ہواور ان کے والدین اور اولاد جس اذیت سے
گزرے مجھے اس کا ادراک ہے۔صوفی غلام مصطفے تبسم نے تو کہا تھا (اے مان نے
ماناں والیاں دے ۔جھناں گودیاں لال کھڈائے نیں۔۔اینا ں دشمن کولوں کی ڈرنا
جیڑے مو ت کولوں وی ڈردے نیں ) جمیل ا لدیان عالی نے تو کمال کر دیا جب اس
نے کہا ( اڑ کے پہنچے گے تم جس افق پر۔ ساتھ جائے گی پرواز میری۔اے شجاعت
کے زندہ نشانو۔ میرے نغمے تمھارے لئے ہیں)۔ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز (
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو ۔یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی ) فضاؤں میں
طلاطم پید ا کرتی ہوئی جب عوام کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے) تو عوام کی آنکھیں
آنسو ؤں سے لبریز ہوجاتی ہیں ۔یہی شہیدوں کی حقیقی شناخت اور مقام ہے۔افق
کی شان بننے والے ان جری جوانوں کو سلام پیش کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے جس
سے چشم پوشی قومی جرم ہے ۔،۔ |