الحمرا آرٹس کونسل تاریخ کے زندہ اوراق کی لازوال
داستانوں میں سے ایک ہے مگر جس طرح ہمارے دوسرے قومی اداروں کا حشر ہو ا ہے
اس سے بھی بڑھ کر اس ادارے کی عزت اور وقار کو مجروع کیا گیا اقربا پروری
اور لوٹ مار کی داستانیں تو ہیں ساتھ میں یہاں ترقیوں کی لوٹ سیل اور کلچر
کے نام پرجو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ناقابل یقین ہے اس ادارے میں ترقیوں کا
ایسا طوفان ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا یہاں جو کمانے اور کھلانے والا
ہے وہ دنوں میں گریڈوں کی سڑھیاں پھلانگتا ہوا 17اور 18ویں سکیل میں پہنچ
جاتا ہے 10ویں گریڈ میں آنے والا چند سالوں میں گریڈ 19حاصل کرلیتا ہے اسکے
مقابلہ میں ہمارے سکولوں کے قابل فخر اساتذہ کرام نوکری کے پہلے دن سے جس
سکیل میں آتے ہیں اسی میں ریٹائر ہوکر گھر چلے جاتے ہیں سرکاری سکولوں میں
پڑھانے والے ہمارے روحانی باپ اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکول میں پڑھا نہیں
سکتے اور بیرون ملک بچوں کو پڑھانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے اپنی تنخواہ سے
گھر کا چولہا جلانے والے ساری عمر اپنا گھر نہیں بنا سکتے اچھی سواری نہیں
رکھ سکتے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد گذر بسر کے لیے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا
شروع کردیتے ہیں 16ویں سکیل میں آنے والے ایس ایس ٹی 15سال قوم کے بچوں
کامستقبل بناتے بناتے اگلے سکیل کی خواہش لیے بزرگی کی دہلیز پر قدم رکھ
دیتے ہیں مگر انکی ترقی نہیں ہوتی ہماری ٹاپ کی بیوروکریسی میں سے اکثریت
انہی سرکاری سکولوں کے اساتذہ سے پڑھی ہوئی ہے نہ انہوں نے اپنے اساتذہ کے
بارے میں سوچا اور نہ ہی کسی حکومت نے اب نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی
اس طرف توجہ تو دے رہے ہیں ٹیچرز ابھی تک اپنی ترقیوں سے محروم ہیں کیا
ہمارے استاد کرپشن نہیں کرسکتے کیا وہ بھی دوسروں کا حق نہیں کھا سکتے کیا
وہ لوٹ مار نہیں کرسکتے کیا وہ اپنی نوکری سے بددیانتی نہیں کرسکتے کیا وہ
سکولوں کے فنڈز ہضم نہیں کرسکتے کیا وہ کلچر کے نام پر فحاشی نہیں پھیلا
سکتے کیا وہ بھی اپنے بچوں کو مہنگے پرائیوٹ سکولوں اور یورپ میں نہیں پڑھا
سکتے ؟ وہ یہ سب کام بڑے احسن انداز سے کرسکتے ہیں اورایک شاطر قسم کے نوسر
باز سے زیادہ کرپشن کرسکتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے کیونکہ ان کے سامنے قوم کا
مستقبل ہوتا ہیوہ خود ہر پریشانی اور ظلم برداشت کرلیتے ہیں اپنی تنخواہ کے
علاوہ کسی سے کوئی امید اور توقع نہیں رکھتے کیونکہ والدین کے بعد استاد ہی
وہ شخصیت ہوتی ہے جو بچے کو وطن سے محبت سکھاتی ہے حالانکہ ان اساتذہ کو جب
کبھی اپنے ہی متعلقہ دفتر میں کام پڑ جائے تو وہاں پر بیٹھے ہوئے کلرک
بادشاہ سے لیکر اوپر تک افراد نے ہر کام کے ریٹ مقرر کررکھے ہیں خاص کر
خواتین ٹیچروں کو تو کھاجانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں بات کہاں سے شروع
ہوئی اور کہاں تک پہنچ گئی الحمرا کی بات کررہا تھا کہ اتنا شاندار ماضی
رکھنے والی اس عمارت کے اندر بیٹھے ہوئے افراد بھی ہمارے باقی اداروں کے
کرپٹ مافیا سے کسی طور بھی کم نہیں یہاں پر نہ تو کوئی ڈھنگ کا ایگزیکٹو
ڈائریکٹر لگ سکا اور نہ ہی اس ادارے کی شان و شوکت بڑھانے والا کوئی فرد
آیا اس ادارے میں سفارش پر بھرتی ہونے والوں نے خوب ترقی کی مال بنایا مدت
ملازمت ختم ہوئی تو دوبارہ پھر آرڈر کروالیے اس ادارے کی جتنی شاندار اور
تاریخی حقیقت ہے اتنی ہی جاندار یہاں کرپشن ہوتی ہے ابھی حال ہی میں ریٹائر
ہونے والا ذوالفقار ذولفی گریڈ10سے 19میں پہنچ کر ریٹائر ہوگیا ناصر کھوسہ
جب چیف سیکریٹری پنجاب تھے تو اس دور میں موصوف انٹی کرپشن کے قابو میں بھی
آئے لیکن نوکری بچ گئی اور ترقیاں بھی ملتی رہی اور اب پھر انہیں الحمرا کی
خدمت ٹرپا رہی ہے کہ دوبارہ آنے کے لیے اپنی ڈوریاں ہلانا شروع کردی امید
ہے وہ دوبارہ پھر اسی طرح الحمرا کی خدمت کا مشن جاری رکھیں گے جس طرح پہلے
کرتے رہے ہیں اگر ترقیوں کا یہی میعار رکھنا ہے تو پھر باقی اداروں میں
بیٹھے ہوئے نان گزٹڈ ملازمین کا کیا قصور ہے انہیں بھی گریڈ 18اور 19سے
نواز دیا جائے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ تعلیم کی اگر ان پوسٹوں پر
قابل افراد کو لگایا جائے تو ادارے بھی ترقی کریں گے اور پاکستان بھی آگے
نکلے گا اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم پستی اور کرپشن کی انتہا تک تو پہلے ہی
پہنچے ہوئے ہیں اخلاقی لحاظ سے بھی ہم تباہ ہوجائیں گے الحمرا کی تاریخ اور
اسکی خوبصورتی دیکھیں کہ سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی یہ عمارت کو الحمرا آرٹس
کونسل (الحمرا ہال، الحمرا کلچرل کمپلیکس، الحمرا آرٹ گیلری اور لاہور آرٹس
کونسل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جسکا ڈیزائن نیئر علی دادا نے بنایا تھا
اوریہ 1992 میں مکمل ہوا تھا الحمرا آرٹس کونسل لاہور شاہراہ قائد اعظم
(مال روڈ) پر واقع ہے آرٹس کمپلیکس کی ابتدا نیئر علی دادا کے الحمرا آرٹس
کونسل (AAC) کے لیے 1000 نشستوں پر مشتمل آڈیٹوریم ڈیزائن کرنے کے ابتدائی
کمیشن سے ہوئی جس کے وہ ایک ہی رکن تھے الحمرا آرٹ کونسل کو حکومت نے یہ
جگہ آزادی کے فوری بعد دے دی تھی کہ یہاں پر کلچر اور کلچر سے وابستہ افراد
کو پرموٹ کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے اس ادارے نے کلچر کو تو پس پشت ڈال دیا
خود کو اس بے دردری سے پرموٹ کیا کہ دوسرے ادارے والوں کی بھی خواہش رہی کہ
اس ادارے میں ایک بار تعیناتی ہو جائے تو پھر انہیں کسی اور جگہ جانے کی
ضرورت نہیں کیونکہ یہاں ہر چیز کھلی اور وافر دستیاب ہے یہاں کوئی پوچھنے
والا نہیں اور ترقیاں بولی میں ملتی ہے کلچر یہاں ایسا ہے کہ رات کو چلنے
والے اسٹیج ڈراموں میں گانوں پر واہیات ڈانس اور تہذیب سے ہٹ کر بولے جانے
والے جملے سادہ لوح شہریوں کے ذہنوں پر برا اثر ڈالتے ہیں قبضہ گروپ ایسے
ہیں کہ کسی نئے آدمی کو گھسنے نہیں دیتے آئندہ کئی کئی سالوں کے لیے ہال بک
کردیے گئے ہیں جب اس ادارے میں کوئی آتا ہے تو بے سروسامانی کی حالت ہوتی
ہے اور یہاں سے وہ رخصت ہوتا ہے تو اسے زندگی کی تمام سائیشیں میسر ہوتی
ہیں اسی لیے تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لوگ اس ادارے کی جان نہیں چھوڑتے رہی
بات چیئرمین کی اسے ابھی تک کسی نے قبول ہی نہیں کیا محسن نقوی ہی اس ادارے
کی قسمت بدل سکتے اور تو کسی میں کوئی دم ہے نہ جرات اور نہ ہی حوصلہ ۔
|