غیرت

آدمی اپنے پرکھوں کی ہڈیوں سے زرخیز دھرتی پر روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ پا سکے، اور اگر ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اپنی جنم بھومی کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے ،تو یہ اس کے لیےبہت بڑی سزا ہوتی ہے ،لیکن اگر دو وقت کی روٹی بھی میسر ہو ،اور اس کے باوجود مزید کی تلاش میں گھر کی خوشیوں کو خیر باد کر کے سفر کر جائے ،تو وہ انسان بڑا خود غرض اور کم عقل ہوتا ہے۔وطن سے دور زندگی کا سفر تو شروع ہوجاتا ہے ،لیکن توقعات دفن ہو جاتی ہیں، شاید اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ اپنی ماں کی چھاتی سے زبردستی الگ کیے ہوئے شیرخوار کی مانند نہیں ہوتا۔محبت کی شراب اسے زہر ہی معلوم ہوتی ہے، وہ اس کے دل کو حسرت سے لبریزکرنے کی وجہ سے اسے اشتیاق، اور آرزو سے معمور کر دیتی ہے اور اسے اسفنج کی طرح بے جان اور مجہول بنا دیتی ہے۔
اس کا دل جسے وطن کی چھاتی سے چھڑا لیا گیا ہے یا وہ چھوڑ آیا ہے. ہر قسم کے برے اور فاسد خیالات کو اسی طور پر جذب کرنے لگتا ہے، جس طرح اسفنج پانی کو جذب کرتا ہے،
بیروزگاری سے تنگ ہمارے نوجوان اکثر سمندر پار جانے کا سفر کرتے ہیں۔ وہاں پر جاکر پہلے شادی کرتے ہیں، شاید اس خیال کے پیش ِنظر کہ عورت کے لئے ان کی محبت ان کے حب وطن کے جذبے میں اور شدت پیدا کر سکتی ہے۔
کیونکہ عورت مرد کے لیے سب سے زیادہ کشش رکھتی ہے۔جس طرح کی کشش کا حامل اس کا وطن ہوتا ہے اور ایک انجان دیس میں اور کوئی چیز آدمی کی اتنی اچھی طرح حفاظت نہیں کر سکتی ،جتنی کی سچی محبت کر سکتی ہے،جو اسے اس کی جنم بھومی کی طرف اور اس کے محبوب کے سینے کی سمت بلاتی ہے۔
لیکن وہ شادیاں جن پر غربت و ہوس اور جدائی کی تاریک پرچھائیاں پڑی ہوئی ہوتی ہیں، وہ ہمیشہ قسمت کے ظالم کھیل اور معاشرتی انتقام کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں،اور ایسی بہت ساری کہانیاں ہماری برادری میں ہمارے علاقوں میں ہمارے آس پاس رونما ہوتی رہتی ہیں، لیکن ہماری نظروں سے اوجھل رہتی یا پھر ہم نظرانداز کر دیتے ہیں ،کیونکہ ہم اپنی زبان کھولنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہم ڈرتےہیں کہ ہماری زبان کھولنے سے شاید یہ ظلم کا پہاڑ ہماری طرف سفر شروع کر دے۔
ایسی ہی کہانی شہر سے دور ایک قصبے کی ہے کہ ،جہاں پر زیادہ تر متوسط سے بھی کم درجے کے لوگ رہائش پذیر تھے۔ جو لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسی قصبے کے ایک خاندان کا لڑکاارشد بھی تھا۔مذکورہ خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا ۔صرف ایک ماں حیات تھی ۔ باپ کا پانچ سال قبل انتقال ہو چکا تھا اور ارشد کی والدہ نے گھروں میں کام کر کے اپنے بیٹے کو پڑھایا تھا۔اس کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور پڑھ لکھ کر اس نے اپنے اسی قصبے میں اپنا چھوٹا سا گھر بھی بنایا اور اپنے خاندان کی عورتوں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنے سے منع کرنے اور تعلیم و تربیت کے لیے خواب دیکھنے لگا، بلکہ اس کی خواہش تھی کہ جس طرح خود پڑھا لکھا ہے وہ اپنے قصبے کے باقی لوگوں کے بچوں کو بھی پڑھائے ،کیونکہ وہ شہر سے پڑھ کر آیا تھا اور شہر میں اس کے بہت سارے دوست تھے،چنانچہ اس نے اپنے ان دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے قصبے کی بہتری کا کام شروع کیا، اور ایک چھوٹا سا اسکول بنا کر بچوں کو پڑھانا لکھانا شروع کردیا تاکہ ان کو وہ تمام معلومات اور ترقی سے وابستہ علم دے ، جس کی ابھی اس کے قصبے نے ایک کرن تک بھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوا۔
اس دوران اس نے اپنے ہی قصبے کی ایک خوبصورت اور جوان لڑکی کے ساتھ شادی بھی کرلی۔
دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کر رہے تھے ۔اس نے بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ آن لائن بزنس بھی شروع کر دیا، کیونکہ وہ آن لائن کام جانتا تھا۔ اس نے اپنا آن لائن کام شروع کیا اور دبئی کی ایک فرم میں ملازمت کی درخواست دے دی۔قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور وہ دبئی کے سفر پر چلا گیا۔
اس کی بیوی کومل خوبصورت ،اور جوان تھی ،مزید یہ کہ وہ گاؤں کے پڑھے لکھے شوہر کی بیوی تھی اور شوہر دبئی جا چکا تھا۔ وہ اس کی بوڑھی ماں کے ساتھ قصبے میں رہتی تھی۔وہ ایک صحت مند اور پرکشش لڑکی تھی اور خوب محنت اور دلجمعی سے کر کام کرنا جانتی تھی ۔اس کو قدرت کی جانب سے ایک خوبصورت آواز اور خوش باش طبیعت عطا ہوئی تھی۔ وہ ہنسی مذاق کی دلدادہ اور اپنے حسن کو مزید نمایاں ممتاز کرنے کی شوقین بھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ گاؤں کے نوجوانوں کی نظروں کا محورومرکز بھی تھی۔جو بھی اسے ایک بار دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا ۔چنانچہ متعدد دل جلے اپنی حرص وہوس کو محبت کانام دینے لگے اور حاضر جوابی کے طور پر وہ خود کو بچائے رکھتی ۔ اس کی چنچل ہنسی منچلوں اور دل جلوں کے دلوں میں بہت سی امیدیں پیدا کر دیتی تھی۔ تاہم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے کبھی اسے زیر دست کیا ہے۔
دنیا میں اور کوئی شخص حسد کی آگ میں اس بری طرح نہیں چلتا جس طرح شیطان اور بری عورت جلتے ہیں۔کومل چونکہ اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی اور جہاں کوئی برا کام ہونا ہوتا ہے وہاں شیطان ضرور موجود ہوتا ہے۔ایک دن اس کی بوڑھی ساس اس سے مخاطب ہوئی۔
"کومل ! تم اپنے شوہر کے بغیر کچھ ضرورت سے زیادہ خوش رہتی ہو۔ میں سوچتی ہوں کہ تمہارے شوہر کو اس بارے بتا ہی دوں۔"
"ایسا کیا ہوا اماں "وہ بنا گھبرائے بولی۔"میں نے ایسا کیا کردیا ،کہ اب آپ ارشد کو شکایت لگانے بیٹھ جائیں ۔"
"ایسی ہی بات ہے"وہ تنک کر بولی ۔"ذرا محتاط رہو اور خود کو بچا کر رکھو۔ میں تمہاری ہر ہر حرکت پر نظر رکھ رہی ہوں ۔"
"اگر آپ روایتی ساس بن کر ایسا کہہ رہی ہیں تو مجھے افسوس ہے اور مجھ سے زیادہ دکھ ارشد کو ہوگا آپ کی بات سن کر ۔"
"وہ میرا بیٹا ہے اور میں جانتی ہوں اس سے کیا کہنا ہے اور ہاں میں روایتی ساس نہیں بن رہی مگر تم حالات کو اسی جانب لے جارہی ہو۔"
"اماں ! وہم کا علاج نہیں ہوتا اور اگر آپ کو میرا ہنسنا پسند نہیں ہے تو میں اب ہنسنا تو نہیں چھوڑ سکتی ۔" اس نے قدرے درشتی سے کہا اور بڑھیا کے چہرے کی جھریوں میں مزیداضافہ ہوتا چلا گیا ۔وہ بولی۔
"تمہارا شوہر پردیس میں دھکے کھارہا ہے،اور تم یہاں ہنسی کھیل میں مصروف ہو۔"
"خدا کا خوف کریں اماں وہ پردیس میں ہے مگر الحمدللہ صحیح سلامت ہے"وہ فوراً سےبولی۔" اب میں اس کا سوگ منانے بیٹھ جاؤں؟"
"ہائے اللہ ! اب تم میرے جوان جہان بیٹے کا جیتے جی سوگ مناؤ گی؟" بڑھیا بھڑک اٹھی اور کومل نے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ بڑھیا کی کند ذہنی کا علاج نہیں کرسکتی تھی اور نہ ہی اپنی طبیعت ومزاج کے خلاف خود کو سوگ کے سانچے میں ڈھال سکتی تھی۔وہ تھی ہی ایسی ہنس مکھ ،ملنسار اور قدرے منہ پھٹ بھی۔ تاہم وہ بدکردار اور بےحیا عورت ہرگزنہیں تھی۔چنانچہ وقتاً فوقتاً اس نے پرسکون انداز میں اپنی ساس کو یقین دلانے کی کہ اسے اپنے شوہر سے بے حد محبت ہے اور وہ اس کو ہر وقت یاد کرتی ہے اور وہ بتانا چاہتی تھی کہ اس کے پاس اپنے اوپر لعنت ملامت کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو دھوکہ دے۔
لیکن بوڑھی عورت اپنے مکروہ شکوک کے ذریعے برابر اس کی توہین کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بہو کے خلاف بےہودہ افواہیں بھی پھیلانا شروع کر دیں۔
"اللہ معاف کرے، میری بہو نے تو شرم وحیا کو فراموش ہی کردیا ہے۔"ایک دن وہ اپنی ایک ہم عمر خاتون سے کہے بغیر نہ رہ سکی۔
"ہائے اللہ ! یہ کیا کہہ رہی ہو صغری " وہ سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔"کومل ایسی لگتی تو نہیں۔"
"میسنی ہےوہ "اس نے جل کر کہا۔"پہلے تو میرے معصوم بیٹے کو جال میں پھنسایا۔ اب پتہ نہیں کس کس کو خواب دکھا رہی ہے۔"
اس طرح کی کئی باتیں اس نے صغری کے گوش گزار دیں اور وہ تو تھی ہی چلتا پھرتا اشتہار۔اس نے پر کا کوا بنایا اور اسے پورے محلے میں اڑا بھی دیا۔
کہتے ہیں کہ جس طرح جنگل کی آگ پھیلتی ہے اور دور سے نظر آ جاتی ہے ہے اسی طرح بری بات بغیر کسی تصدیق کے زبان زد عام ہو جاتی ہے۔ چھوٹا سا قصبہ تھا کومل کو جب بدلتی ہوئی نظروں کے ساتھ یہ باتیں سننے کو ملیں تو وہ بہت ڈر گئی۔ اس نے اپنی ساس کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اپنی مفسدانہ ہرزہ سرائیوں سے اس کی زندگی تباہ و برباد نہ کرے۔ مگر وہ عورت ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس نے اپنا مشن جاری وساری رکھا۔
اولین تو کوئی امکان نہیں تھا کہ اس کی بوڑھی ساس صغری بیگم اپنے رویے میں کچھ لچک پیدا کرتی۔ تاہم عین ممکن ہے وہ کچھ خوف ِ خدا کر بھی لیتی ،مگر دوسرے دن ہونے والے ایک واقعے نے اس کی تشکیک کو تقویت و یقین کا روپ دے دیا تھا۔وہ صبح نو بجے کا وقت تھا ،جب اچانک دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
"اماں! ذرا باہر دیکھیے کون ہے؟"
کومل نے اپنے کمرے سے اسے پکارا مگر بڑھیا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"اوہ ! اماں تو واش روم میں ہے"اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اپنا دوپٹہ درست کرتی ہوئی دروازے پر چلی گئی ۔
"السلام علیکم "اس نے جونہی ہلکا سا دروازہ کھلا،اس کے عین سامنے کھڑے نوجوان نے شائستگی سے کہا۔"ارشد گھر پر یے؟"
"وعلیکم السلام "اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔وہ ایک خوش شکل نوجوان تھا۔ یقیناً اسے معلوم نہیں ہوگا کہ ارشد
بسلسلہ ِروزگار بیرون ِملک ہوتا ہے ۔
"وہ تو دوبئی میں ہوتے ہیں.آپ کو نہیں معلوم ؟"
"نہیں، مجھے واقعی نہیں معلوم "وہ قدرے حیران ہوتے ہوئے بولا۔" میں اتفاق سے اس طرف آیا ،تو سوچا ،ملتا چلوں ،آپ اس کی۔۔۔۔؟"
"میں اس کی بیوی ہوں....."
"ارے واہ! شادی کرلی،بیرونِ ملک بھی چلا گیا اور مجھے بتایا تک نہیں ۔"اس کے لہجے میں شکایت در آئی۔
کومل گفتگو کی طوالت سے گھبرا رہی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی،کہ اس کی ساس اسے اس سے باتیں کرتے دیکھ لے چنانچہ وہ اسے دروازے سے ہی رخصت کرنے کا کوئی بہانہ سوچ رہی تھی۔
"میرا نام ارسلان ہے۔ اب میں چلتا ہوں۔ پھر کبھی آؤں گا۔"اس نے خود ہی اس کی مشکل آسان کردی تھی۔
"ٹھیک ہے! آپ پھر کبھی آجائیے گا۔"اس نے جلدی سے کہا اور دروازہ بند کردیا۔
"یہ کون تھا۔ جسے پھرکبھی آنے کا کہہ رہی تھیں؟"وہ جونہی پلٹی صغری بی بی کی کرخت آواز نے اس کے رونگھٹے کردیے ۔نہ جانے وہ کب سے اس کے عقب میں کھڑی باتیں سن رہی تھی اور اب دروازہ کھول کر ارسلان کو گھور بھی رہی تھی جو کہ گلی کی نکڑ میں غائب ہورہا تھا۔"اچھا ! تو یہ گلا کھلائے جارہے ہیں ،میرے معصوم بیٹے کو پردیس بھیج کر۔" اس نے ناگواری سے کہا۔
"دیکھو اماں! وہ ارشد کا بچپن کا دوست تھا اور اسی کا پوچھ رہا تھا۔"وہ اسے قائل کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ مگر بڑھیا نے مان کر ہی نہیں دیا اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
"تم مجھے پاگل سمجھتی ہو؟" بڑھیا چڑھائی کرتے ہوئے بولی ۔' میں اپنے بیٹے کے سب دوستوں کو جانتی ہوں۔
اس لوفر لچے کو تو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔"
"اماں ! اب تم میرے صبر اور برداشت کا امتحان لے رہی ہو"وہ رونے لگی۔"قسم لے لو! میں اسے نہیں جانتی۔"
"میرے سامنے یہ ٹسوے مت بہاؤ"وہ اس کے آنسوؤں کی پروا نہ کرتے ہوئے بولی۔" میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔"جواباً کومل نے قسم کھا کر کہا۔"میں نے کبھی اپنے شوہر سے بے وفائی کا سوچا تک نہیں اور کبھی خواب میں بھی دھوکا دینے کا خیال تک نہیں آیا۔"
"میں خوب جانتی ہوں,تم جیسی عورتوں کی جھوٹی قسمیں اور دھوکہ خواب میں نہیں حقیقت میں دیا جاتا ہے۔ ایسی قسموں کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے؟" اس کے لہجے طنز کے ساتھ نفرت بھی در آئی تھی ۔وہ کہہ رہی تھی ۔"میں بھی کبھی جوان اور خوبصورت تھی، مگر مجال ہے جو کبھی آنکھ اٹھا کر بھی کسی کو دیکھا ہو۔"
"نہ مانو ! میرا رب سب سے بہتر جاننے والا ہے۔"اس نے جھلا کر کہا۔

"رب تو جانتا ہی ہے،اور میں بھی جانتی ہوں"وہ اپنی بات پر بضد تھی۔"میں نےکل ہی اپنے بیٹے کو لکھ دیا تھا کہ آکر اپنی ناموس کی نیلامی کا تم سے حساب لے۔"
"اماں! یہ کیا کہہ رہی ہو؟ کیا ظلم کردیا ہے تم نے؟ کیا تم نے واقعی لکھ دیا ہے"؟کومل کا دہشت کے مارے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
"ہاں لکھ دیا ہے۔"وہ اسے گھورتے ہوئے بولی ۔
"ہائے میرے اللہ ! ارے ماں تو نے یہ کیا کر دیا؟ مجھ سے بےبنیاد نفرت میں تم اس حد تک بھی چلی گئیں ۔"اس کا دامن صاف تھا،مگر فطری تقاضوں کے تحت وہ اپنے آنسوؤں کو نہیں روک پارہی تھی۔
اگلے دن جب اس کی ساس سوکھی لکڑیاں لینے گاؤں سے دور جنگل کی طرف گئی، تو وہ بھی اپنی چادر میں کلہاڑی چھپائے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔اس کے چہرے پر تناؤ اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔بدنامی کا داغ عورت کے لیے جہنم سے کم نہیں ہوتا کیونکہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یہاں عورت کو دیکھا ہی شک کی نظر سے جاتا ہے اور اگر یہ شک یقین میں بدل جائے یا جھوٹ ہی زبان زدعام وخاص ہو جائے تو آخری سانس تک یہ طوق اس کا مقدر بن جاتا ہے۔وہ جنگل میں داخل ہوئی تو بڑھیا خشک لکڑیوں کی گٹھڑی باندھ رہی تھی ۔اس پر نظر پڑتے ہی وہ جل کر بولی ۔
"تمہیں تو گھر سے باہر نکلنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے، اب جنگل میں کیا لینے آئی ؟"
"میں تم سے حساب لینے آئی ہوں"اس نے قہربار لہجے میں کلہاڑی نکالتے ہوئے کہا ۔اب بوڑھی کا ماتھا ٹھنکا ۔ بلاشبہ وہ حدسے زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔
"کیسا حساب ؟" وہ تھوک نگلتے ہوئے مستفسر ہوئی۔"اور یہ کلہاڑی کیوں لے کر آئی ہو؟"
"اسی سے تو حساب کرنا ہے"وہ غراکر بولی ۔"تاکہ تم جیسی مکار عورتوں کو سبق ملے کہ کبھی کسی معصوم پر الزام نہیں لگانا چاہیے ۔"
"یہ ۔۔کک ۔۔۔کیا کہہ رہی ہو تم ؟" وہ ہکلاکر بولی۔
"ہاں اماں ! یہ میری برداشت کی آخری حد ہے "اس نے کلہاڑی ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا ۔"تم نے مجھے لاوارث سمجھ کر پورے گاؤں میں بدنام کردیا ہے۔ اسی کا حساب لینے آئی ہوں۔"
اس سے پہلے کہ بڑھیا کچھ بولتی ،کلہاڑی اس کے سر کو دوحصوں میں تقسیم کرچکی تھی۔اس کی کھلی ہوئی خوفزدہ آنکھوں میں موت منعکس ہوکر رہ گئی تھی۔ بےیقینی اور خوف کی پرچھائیاں ثبت ہوگئی تھیں ۔
"عورت اگر بے گناہ ہو تو اس کے لیے عصمت فروش سمجھے جانے سے کہیں بہتر ہے کہ اس کو قاتل کہا جائے۔" اس نے نفرت آمیز لہجے میں کہا اور کلہاڑی وہیں پر پھینک کر واپس قصبے میں آگئی ۔یہاں تک کہ سب کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا تھا۔ قصبے کے تمام لوگ تقریباً اس کی شہادت دینے کے گئے تھے کہ وہ بے گناہ ہے لیکن اس کے اعتراف جرم نے قصبے کے بڑوں کو مجبور کر دیا کہ کومل کا مقدمہ مذہبی پیشوا کے روبرو پیش کیا جائے اور پھر جو فیصلہ ہو وہ قابل قبول ہو گا ۔اس فیصلہ کو سنتے ہی لوگوں کی آنکھوں میں آنسوں کی لڑیاں تھیں ۔سب ہاتھ جوڑے کھڑے کومل کے لیے منت سماجت کر رہے تھے کہ وہ بے گناہ ہے۔ اس کی زندگی تباہ کی گئی ہے۔
یہ قصبہ شہر سے باہر تھا اور یہاں کے نوے فیصد گھر مسلمان تھے۔ارشد بھی ان میں سے ہی تھا۔ اپنی مذہبی رہنما کے سامنے کومل کو قصبے والوں نے لا کھڑا کیا ۔
مذہبی پیشوا نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ یہ عورت پاک دامن نہیں ہے۔ یہ اس کی بدقسمتی کی پہلی منزل تھی شاید ۔
مذہبی پیشوا بڑی دیر تک قدیم روایات کو برقرار رکھنے اور ان کا احترام کرنے کی ضرورت و اہمیت پر تقریر کرتا رہا اور لوگوں کو خبردار کرتا دکھائی دیا کہ وہ اس غلطی کا شکار نہ ہوں جو ماضی میں شاید یونانیوں نے فرنیے کو بری کر کے کی تھی۔ جس کے حسن نے انہیں اس کے قابل اعتراض اطوار کی طرف سے اندھا کر دیا تھا ۔
انہوں نے ہر وہ بات کہی جو انہیں کہنی چاہیے تھی اور غالبا انہی کی بدولت کو مل کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کومل کے شوہرارشد کی طرح اس کے گاؤں کا رہنے والا ایک شخص کاشف بھی سمندر پار کام کرنے کی تلاش میں چلا گیاتھا۔ اپنے وطن سے دور اور اپنی جوان بیوی کو پیچھے خوابوں کا تانا بانا بننے کے لیے گھر چھوڑ گیا۔
تین سال ہوئے تھے کاشف کو بیرون ملک گئے ہوئے کہ اس کو اپنی ماں کا ایک خط ملا کہ جس میں لکھا ہوا تھا کہ اس کی بیوی مہوش نے خود کو اس کے باپ کے (یعنی کے خود اس عورت کے میاں کے سپرد کر دیا) اور اب وہ وہاں اس کی بیوی بن کر رہتی ہے.(شاید شیطان نے اسی بستی میں پھر ایک بری عورت کو اپنے ساتھ ملا کر ایک زندگی برباد کرنے کا سوچ لیا تھا).
کاشف نے خط پڑھا اور پہلے ہی جہاز کا ٹکٹ خرید کر اپنے گھر اسی طرح خلاف توقع نمودار ہو گیا جیسے آسمان سے ٹپک پڑا ہو ۔
اس کی بیوی اور باپ نے تعجب کا اظہار کیا۔وہ چونکہ ایک سمجھدار اور شکی قسم کا نوجوان تھا ،چنانچہ اس نے شروع میں اپنے دل کی بات دل میں ہی رکھی۔وہ چاہتا تھا کہ پہلے اس افواہ کی تصدیق کر لے کیونکہ اس نے اس سے پہلے کومل کی کہانی کو سن رکھا تھا۔کاشف اپنی بیوی سے محبت اور احترام کے ساتھ پیش آتا اور کچھ دن دونوں گویا نئی شادی کے رنگ میں نظر آئے۔عہد شباب کے پر جوش جشن سے لطف اٹھاتے زندگی انجوائے کر رہے تھے ۔
اس کی ماں نے اس کے کانوں میں زہر انڈیلنے کی بڑی کوشش کی لیکن اس نے اپنی ماں کو روک دیا اور کہا۔
" بس بہت ہوگیا میں فیصلہ خود کروں گا لہذا مجھے تنگ نہ کیا جائے۔"
اسے معلوم تھا کہ جس شخص کے ساتھ زیادتی ہو چکی ہو، اس کا یقین نہیں کیا جا سکتا ،بھلے وہ اس شخص کی اپنی ماں ہی کیوں نہ ہو ۔
تقریبا آدھا موسم پیار و محبت،سکون و طمانیت کی کیفیت میں گزر گیا اور شاید وہ تمام عمر اسی طرح رہتے اگر اس کے باپ نے ایک دفعہ اپنے بیٹے کی مختصر عرصے کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھا کر اپنی بہو سے دوبارہ اظہار عشق شروع نہ کر دیا ہوتا۔ لیکن اب اس نے بوڑھے کرم کی عشق بازیوں کو ٹھکرا دیا اور اس طرح اسے بہت خفا کر دیا۔ وہ اس سے اس طرح یک بارگی محروم ہونا برداشت نہیں کر سکتا تھا اور اس نے لڑکی سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
"تم اب زندہ نہیں بچوگی، دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں، بہت پچھتاؤ گی تم ۔" اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
"اور اب تم بھی نہیں بچوگے"اس نے اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔"تم سے جو ہو سکتا ہے کر گزرو۔"
"ٹھیک ہے! میں زیادہ بولنے کے قائل نہیں ہوں " وہ غرا کر بولا۔"اب دیکھ ہوتا ہے کیا ہے۔" چنانچہ اگلے ہی دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا۔
" کیا تم جانتے ہو کہ تمہاری بیوی تم سے بے وفائی کرتی رہی ہے؟"
اس اچانک ہونے والی نامناسب بات نے کاشف کو چونکا کے رکھ دیا تھا۔
"کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے ؟" اس نے براہ ِ راست اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"جس شخص نے اس کے دامن ِ عصمت کو داغدار بلکہ تار تار کیا ہے،اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کے جسم پر ایک بڑا سا پیدائشی نشان ہے ،کیا یہ درست ہے؟"
"یہ بات کہنے والے کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔"وہ تڑپ کر بولا ۔
بے حس باپ نے خوشی سے سرہلاتے ہوئے کہا۔
" ہاں اور کیا ہے، بدچلن عورتوں کو جان سے مار ڈالنا چاہیے۔"
" ہاں بالکل ابا جان آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں"وہ بولا۔" اور بدچلن مردوں کو بھی ۔"کاشف سیدھا اپنی بیوی کے پاس پہنچ گیا اور اس کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر بولا۔
"میری بات سنو کان کھول کر میں جانتا ہوں کے تم نے مجھ سے بے وفائی کی ہے۔ اس محبت کی خاطر جو تمہاری غداری سے پہلے اور بعد میں بھی ہم دونوں کے درمیان رہی ہے مجھے یہ بتا دو کہ وہ کون شخص ہے؟"
مہوش یوں تڑپی جیسے کسی نے اس کی کہنے پر اچانک سے بید رسید کر دیا ہو ۔وہ بےیقینی سے اسے دیکھتے ہوئے تھوک نگل رہی تھی ۔اس کا چہرہ ہلدی کے جیسا ہورہا تھا ۔
"سچ بتاؤ گی تو میں تمہیں معاف بھی کرسکتا ہوں ۔"وہ اسے جھنجھوڑ کر بولا ۔
"تت۔۔۔ تمہارا لعنت کا مارا باپ ہی تمہیں بتا سکتا ہے ۔"اس نے لرزیدہ لہجے میں گویا انکشاف کرتے ہوئے کہا۔
"تو کیا وہ شخص میرا باپ ہے؟"کاشف کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔
"ہاں ! اس نے میرے ساتھ زبردستی کی۔ مجھے دھمکیاں دیں اور اس طرح مجھے زیر کیا لیکن پوری بات سن لو۔"
وہ واپس پلٹتے ہوئےرک گیا!
اس کی سانسیں بھی رکنے لگی تھیں ۔
"بولو۔" اسے اپنی آواز پاتال کی گہرائیوں سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
"وہ تمہارا باپ ایک درندہ ہے۔اس نے متعدد مرتبہ تمہاری امانت کو پامال کیا ہے۔"
کاشف یہ سنتے ہی گھر کے اندر دوڑ کر گیا اور اپنی بندوق اٹھائی بھاگتا ہوا کھیت کی طرف جا پہنچا جہاں پر اس کا باپ گیا ہوا تھا۔ وہاں اس نے وہ سب باتیں کیں جو اسے مہوش نے بتائی تھیں اور پھر اس نے گولی مار کر اپنے باپ کو ختم کر دیا۔کاشف رویا چلایا اور بندوق کے کندھے سے باپ کی کھوپڑی کو کچل ڈالا ۔
ابھی بھی اس کا غصہ کم نہیں ہوا تھا ۔اس کی آنکھوں میں خون باقی تھا۔ پھر وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور اپنی بندوق میں کارتوس بھرتے ہوئے اسےخون آشام نگاہوں سے گھورنے لگا
وہ جان بخشی کی التجائیں کرنے لگی۔ وہ روتے ہوئے بولا۔ "مجھے انصاف کا تقاضا کرنا ہے اور اگر میں نے بھی تمہارے ساتھ زیادتی کی ہوتی تو تم بھی یہی فیصلہ ہوتا۔"
اور یہ کہتے ہوئے اس نے مہوش کو گولیوں سے چھلنی کر کے رکھ دیا ۔
اس کے بعد کاشف نے خود کو پولیس کے سپرد کر دیا جب وہ گاؤں کی سڑک پر سے گزرا تو لوگوں نے اس کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔ اور بہت سے آدمیوں نے کہا۔ "کاشف! تم نے غیرت مندی کا کام کیا ہے،چنانچہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔"
مقدمے کے دوران میں اس نے ایک ایک کھڑے شخص کی طرح اور تجربہ دار شخص کی طرح زوردار خطابت کے ساتھ انتہائی سخت اور مدلل انداز میں اپنی وکالت کی۔
مہوش اور اپنے باپ کا قتل چونکہ اس نے انتہائی عالمِ طیش میں غیرت وغیظ کے باعث کیا تھا،چنانچہ عدالت نے کچھ ماہ کا کارروائی کے بعد اسے باعزت بری کردیا ۔وہ ایک سورما فاتح کی طرح واپس آیا ۔اس کی اس طرح مدح و ستائش ہوتی تھی کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے اپنی ناموس پر داغ لگنے کا بدلہ خون سے لینے کی پرانی روایت پر سختی سے عمل کیا ہے ۔اس دوران کومل بھی جیل سے سزا کاٹ کے آگئی۔وہ سردی کا زمانہ تھا وہ زمانہ جب فطرت خوشیاں منانا چاہتی ہے ۔وہ وقت جب لوگ عید کی تیاریوں میں مشغول ہوتے ہیں۔وہ وقت جب لوگ ہر چیز سے زیادہ اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کے درمیان اپنے گرم گرم گوشہ عافیت میں چین سے بیٹھے ہوں،لیکن کومل اور کاشف ناخوش اور مغموم وافسردہ تھے، کیونکہ ان کی شہرت اس قسم کی شہرت نہیں تھی جو ان کے لیے ان کے ہم جنسوں کا احترام حاصل کر سکتی۔
ایک قاتل بہرحال قاتل ہی ہوتا ہے۔ بے شک وہ سزا کاٹ کے آئے یا بچ جائے وہ لوگوں کو چونکا اور ہلا سکتا ہے۔مکمن ہے بےجرم وبے داغ بھی ثابت ہو سکے لیکن اس سے محبت کیسے کی جا سکتی ہے؟ ایک نہ چاہتے ہوئے خوف کا لوگوں کے دلوں میں گھر رہتا ہی ہے، ان دونوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے ۔ دل ٹوٹے ہوئے تھے دونوں مقدمے کی تکلیف دہ ڈرامے کی صعوبتیں جھیل چکے تھے۔
معاشرے کی حقیقت ہے کہ غم زدہ شخص کو غم بانٹنے والا چاہیے ہوتا ہے۔ یہ بات کسی شخص کے لیے تعجب خیز نہیں تھی کہ یہ قسمت کے ستائے ہوئے دو انسان ایک دوسرے کے نزدیک آئیں اور ایک دوسرے کی ٹوٹی ہوئی زندگی میں کچھ رنگ، کچھ روشنی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ وہ دونوں بھی جواں سال تھے اور دونوں محبت کے متلاشی تھے۔ایک دن وہ قصبے کےپارک میں اسےمل گئی تھی،اور پھر وہ اکثر پارک میں نظر آنے لگے تھے تاہم ابھی یہ کنفرم نہیں ہوپایا کہ آیا وہ دلی طور پر بھی ایک دوسرے کے قریب ہوئے ہیں یا نہیں ۔
"ہم یہاں ماضی کی ان سب تکلیف دہ یادوں کے درمیان رہ کر کیا کریں گے؟"ایک دن کاشف نےہمت کرکے کومل کو چھوتے ہوئے کہا-
وہ یک دم سے کاشف کا ہاتھ لگنے سے کچھ ڈر سی گئی اور ایک قدم پیچھے ہٹی پھر بولی ۔
"اگر میرا شوہر واپس آیا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا۔ کیونکہ اب میں نے واقعی عملی طور پر اس سے ںےوفائی کی مرتکب ہورہی ہوں ۔"
"تمہاری بات درست ہے "وہ متفق ہوتے ہوئے بولا ۔"مگر جو اتنے سالوں سے حتی کہ اپنی ماں کی موت پر بھی نہیں آیا تم اس کے انتظار میں زندگی کیوں خراب کررہی ہو؟"
"کیونکہ وہ میرا شوہر ہے اور ابھی اس نے مجھے طلاق نہیں دی ۔"وہ بولی۔
"کومل ! کیا یہ ممکن ہے اور وہ اتنا اعلی ظرف ہوگا کہ اپنی ماں کی قاتل کے ساتھ پھر سے زندگی شروع کرسکے؟" کاشف کے اس خیال نے اسے سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
"میں کچھ نہیں کہہ سکتی "وہ افسردگی سے بولی۔"ہوسکتاہے اسے مجھ پر یقین آبھی جائے۔,"
"ہوسکتا ہے پہلے آجاتا اب اسے ہرگز یقین نہیں آئے گا۔"اس نے قطعی لہجے میں کہا اور وہ اسے مستفسرانہ نگاہوں سے گھورنے لگی۔وہ بولا ۔
"شاید تمہیں اندازہ نہیں ہے،کہ تمہارا اور میرا نام اب زبان زدعام وخاص ہوچکا ہے۔"
اس بات پروہ چونکے بنا نہیں رہ سکی۔ اسے بھی اڑتی اڑتی خبریں مل جاتی تھیں کہ وہ اور کاشف قصبے بھر میں بدنام ہوچکے ہیں ۔چنانچہ کافی دنوں کےبحث ومباحثہ اور دلائل کے بعد کاشف نے اسے مطمئن کرہی لیا ۔اب وہ کچھ دنوں میں یہاں سے دور کسی اور مقام پر جانے کا سوچ رہے اور مستقبل کے حسین خواب دیکھ رہے تھے۔
ہم جذبات کی رو میں بہہ کر کئے ہوئے قتل کو معاف کرسکتے ہیں۔ ناموس کی خاطر کیے ہوئے جرائم کو معاف کر سکتے ہیں، اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے لیکن کیا یہ دونوں ٹھیک ہیں کہ جو انہی روایات کو کچل رہے ہیں جن کے نام پر اس قدر خون بہایا گیا۔
یہ سخت اور خوفناک رہے ہیں۔ ان عشق کی راہوں میں سوائے بدنامی کے اور کچھ نہیں ماضی کی صدائے بازگشت بلند سے بلند تر ہوتی گئی یہاں تک کہ آخر کار وہ اس کی ماں کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس کی ماں زبیدہ ایک مضبوط اور مغرور عورت تھی۔ جو پچاس سال کی ہونے کے باوجود ابھی تک کوہستانی لوگوں کی مخصوص خوبصورتی کی حامل تھی۔کومل سے اس کا رابطہ اور آناجانا بہت کم ہی تھا ۔
شروع شروع میں تو اس نے ان توہین آمیز افواہوں کا یقین ہی نہیں کیا ۔کومل سے متعلق جو کہا اور سنا جارہا تھا،اس پہاڑی اور پہاڑ مزاج عورت نے اسے سنجیدہ ہی نہیں لیا۔وہ جانتی تھی کہ کومل ایک ہنس مکھ اور ملنسار مزاج کی حامل ہے۔
"بہتان ہے۔۔۔ یہ بکواس ہے"اس نے پریقین لہجے میں کہا تھا۔ "کا تم لوگ بھول گئے کہ میری بیٹی نے اپنی عزت و ناموس کی خاطر کتنی تکلیف اٹھائی ہے؟"
"نہیں ہم نہیں بھولے مگر یہ جو کہاسناجارہا ہے سچ ہے ۔"کسی نے کہا۔زبیدہ نے کسی بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور دوسرے ہی دن طویل مسافت کے بعد کومل کے پاس پہنچ گئی ۔
"بیٹی کومل !لوگ تمہارے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں،میں تمہارے بارے میں ایسی باتیں نہیں سننا چاہتی، نہ ہی میں ایسی باتوں پر یقین کررہی ہوں ۔"
"ایسا کچھ نہیں ہے امی "وہ آزردگی سے بولی ۔"مگر ہم لوگوں کی زبانیں تو بند نہیں کرسکتے۔"
"کومل ! ماضی قریب میں تم نے جو کیا وہ قتل کے باوجود ایک عزت دار اور باوقار عورت کا کام تھا، جو اپنی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے یہ قدم اٹھاتی نظر آئی، اور اسے ہمیشہ سب لوگوں کے لئے سبق بنے رہنا چاہیے۔"
کومل پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔
"مجھے اندازہ ہے ارشد اب نہیں آنے والا۔ تم اپنی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ کر ہی لو"زبیدہ کی اس بات نے اسے ڈھارس دی ۔"یا پھر کسی عالم سے مشاورت کرلو۔"
"میں ایسا ہی کروں گی ،اور میں خلع کے لیے درخواست دے چکی ہوں۔"
"یہ تم نے درست کیا ہے۔"زبیدہ نےاسے تسلی دی اور وہاں سے سیدھےکاشف کے پاس پہنچ گئی ۔لاشعوری طور پر وہ اس شخص سے متنفر اور بیٹی کی ذات سے مشکوک ہوچکی تھی۔ رسمی حال احوال کے بعد کاشف نے مدعے کی بات پر آتے ہوئے کہا ۔
"میں کومل کو دل و جان سے چاہتا ہوں۔ وہ بھی میری ہی طرح بدقسمت ہے۔ مجھے اجازت دیں اسے اپنے ساتھ کسی اور ملک لے جاؤں۔ اس طرح سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
" تم بھاگنا چاہتے ہو؟"وہ برہمی سے بولی۔"میں اس کی اجازت ہرگزنہیں دے سکتی ،بہتریے کہ تم کومل کا پیچھا چھوڑ دو،وہ بدنام ہورہی ہے ۔"
"یہ بھی ممکن نہیں "وہ قطعی لہجےمیں بولا۔"میں اسے کسی قمیت پر نہیں چھوڑ سکتا۔"
"میری نظر تم پر رہے گی ۔"وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
وقتِ رخصت وہ ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔
اسی دن سے زبیدہ نے کاشف کا چوری چھپے تعاقب کرنا شروع کر دیا۔ یہ جان کر زبیدہ کو افسوس ہوا کہ اس کی بیٹی کومل نے اس کے ساتھ غلط بیانی کی ہے۔وہ اب بھی چوری چھپے کاشف سےمل رہی تھی ۔ایک مرتبہ اس نے اپنی بیٹی اور کاشف کو فرار ہونے کے منصوبہ بناتے سن لیا اور اس منحوس لمحے میں اس نے ایک خوفناک کام کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔وہ غالبا کرسمس ڈے تھا ۔ اتوار کو لوگ چرچ میں عبادت کے لیے جمع ہورہے تھے ۔ عورتیں بھڑک دار تہواری لباس پہنے اور شوخ رنگ چادریں اوڑھے آگے کی صفوں میں جھکی ہوئی تھی اور ان کے پیچھے مرد دونوں تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ کاشف اور کومل بھی عیسائیوں کے بھیس میں ان کی مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ازاں بعد زبیدہ کو معلوم ہوا تھا کہ کاشف عیسائی تھا اور اس نے کومل کو بھی شیشے میں اتار لیا تھا۔ چنانچہ اب سیخ پاہونا اس کا اولین حق تھا ۔وہ لوگوں سے کچھ دیر کے بعد گرجا گھر کے اندر داخل ہوئی ۔وہ بھی اپنی ساری لباس پہنے ہوئے اور اپنے اوپر ایک بڑی شوخ چادر اوڑھے ہوئے تھی ۔ وہ دبے پاؤں آگے بڑھتی رہی ۔اپنی بغل میں تیز دھاری کلہاڑی کو چھوکر اس نے یقینی بنایا اور کاشف کے عین قریب پہنچ گئی۔دوسرے ہی لمحے اس اپنے بغل میں پوشیدہ کلہاڑی نکالی اور کاشف کے سر پر یکے بعد دیگرے تین وار کیے ۔اس پر ایک جنونی کیفیت طاری ہوچکی تھی۔وہ اسے یوں کاٹ رہی تھی جیسے کوئی لکڑکارا لکڑیاں کاٹتا ہے ۔عبادت گزار مجمعے پر دہشت طاری ہوگئی تھی۔لوگ جدھر کو منہ آیا ادھر بھاگتے ہوئے منتشر ہورہے تھے۔"بچاؤ بچاؤ ۔"
صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔متعدد لوگ بے ہوش ہو کر پتھر کے فرش پر گر پڑے۔ بہت سے لوگ بچوں کی طرح رونے لگے، لیکن زبیدہ ایک دیہاتی انتقام کی دیوی کی طرح بدنصیب ماں ہی اپنی بیٹی کومل اور کاشف کے سروں پر کلہاڑی تانے کھڑی رہی۔ اس نے کاشف کے ساتھ ساتھ کومل کا بھی سرپاش پاش کر کے رکھ دیا تھا۔
وہ کئی لمحوں تک اس طرح کھڑی رہی اور جب لوگوں کے ہوش و حواس کچھ درست ہوئے اور انہوں نے اسے پکڑ لیا تو وہ زور زور دعا مانگنے لگی اور چمکتی ہوئی آنکھوں کو آسماں کی طرف اٹھا لیا۔وہ رب کا شکر ادا کرنے لگی۔
" اے میرے مالک تو نے مجھے یہ طاقت عطا کی کہ میں اپنی بد چلن بیٹی اور اس کی عزت و ناموس کا انتقام لینے کے لیے کامیاب ہوئی۔ میں نے آج اس معاشرے کے اس ظالم کردار کو بھی مار دیا جو لوگوں کی بیٹیوں کو ورغلاتے ہیں۔ شکر ہے مالک تمہارا کہ تم نے معاشرے میں اس حیوان کی جان لینے کے لئے مجھے چنا ،مجھے ہمت دی۔ مجھے طاقت دی ۔ میں تیری شکر گزار ہوں ۔یہ لوگ دنیا کے پر داغ اور دین پر دھبہ تھے ۔"
"کاشف زندہ ہے." معاً اسے مجمعے میں سے یہ آواز سنائی دی ۔کوئی کہہ رہا تھا ۔
اسے ڈاکٹرکے پاس لے جایا جا رہا ہے، جہاں اس کے مہلک زخموں کی مرہم پٹی کی جائے گئی۔ "
اس پر کپکی طاری ہو گئی اور مجنونانہ آنکھیں گھما گھما کر کہنے لگی۔
"نہیں نہیں! مجھے خدا کی ذات پر ایمان ہے یہ شخص ضرور مرے گا۔ میں نے اس پر تین تین کاری وار کیے ہیں۔ میرے ہاتھوں نے اسے محسوس کر لیا تھا اور خدا عادل ہے یہ آدمی ضرور مرے گا۔"
"اس عورت پر جلد ہی مقدمہ چلنے والا ہے اور یقینا اس کو سخت سزا دی جائے گی۔"
" لیکن سخت سے سخت سزا بھی کسی ایسے شخص کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔"
" جو یہ سمجھتا ہے کہ اسے دوسروں پر تشدد کرنے کا حق حاصل ہے جو یہ سمجھتا ہےکہ اسے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حا حاصل ہے؟ ،کیا لوہے پر ہتھوڑے پڑتے ہیں تو وہ نرم ہو جاتا ہے ؟"
لوگ مختلف قسم کی دلیلیں بیان کر رہے تھے ۔
آخر کار زبیدہ کو عدالت میں جج کے سامنے پیش کیا گیا۔
"تم کچھ کہنا چاہتی ہو اپنی صفائی میں,کیا تم اپنا جرم قبول کرتی ہو؟"جج نے استفسار کیا ۔
"میں مجرم ہوں،میں قبول کرتی ہوں۔ میں مانتی ہوں کہ آدمی کو وہیں بڑھنا اور نشوونما پانا چاہیے جہاں خدا نے اسے پیدا کیا ہے اور جہاں دھرتی پر کوئی اسے پیار کرتا ہو ۔ وہاں رہنا اس کا حق ہے بے شک وہ عورت ہو یا مردجج صاحب میں مزید کچھ کہنا چاہتی ہوں اگر آپ اجازت دیں۔"
وہ جج کی جانب مستفسرانہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔
"تم اپنی صفائی میں جو کہنا چاہتی ہو ،کہو۔" جج نے کہا ۔
" نہیں! میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا چاہتی ۔ میں نے جرم کیا ہے اور مجھے سزا ملنی چاہیے ۔میں کسی بھی رعایت کی مستحق نہیں ہوں۔ اگر آج میں نے رعایت مانگی یا آپ نے رعایت دی تو یہ معاشرہ درست نہیں ہو گا۔"
"تو پھر تم کیا کہنا چاہتی ہو؟"جج نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
"جج صاحب! معاشرے کو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہےاور یہ تعلیم و تربیت صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے ۔اچھے برے کی تمیز ماں بتا سکتی ہے ۔ اولاد کے بدلتے رنگوں کو سماج کی رنگینیوں سے بچانے کا فن ایک ماں جانتی ہے ۔ میں بھی ایک ماں ہوں اور میں نے ہوس کی رنگینیوں میں ڈوبے دو شیطان صفت انسان کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ حیا کا دامن چھوڑ کر اپنی ہوس کو محبت کا لقب دے کر جینا چاہتے تھے۔ جو ہمارے گھر، قصبے،اور معاشرے کے لیے ناقابلِ معافی جرم تھا"کچھ دیر کے لیے وہ خاموش ہوئی۔جج سمیت پوری جیوری اسے توجہ سے سن رہی تھی ۔اسے معلوم ہوگیا تھا کہ کاشف بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا ۔وہ پشیمان اور دکھی ہرگزنہیں تھی ۔وہ دوبارہ گویا ہوئی۔
"جج صاحب !بڑے لوگوں کی آزمائش بڑی ہوتی ہے۔ماں ہونے کے ناطے میری بھی آزمائش بڑی تھی اور میں کامیاب ہوئی لیکن میرا طریقہ غلط تھا۔ مگر پھر بھی مجھے کوئی دکھ نہیں ۔ میری التجا ہے سماج کی ماؤں سے کہ نظر رکھیں محبت اور ہوس کے فرق کو سمجھیں تاکہ آپ اپنی اولادوں کو سمجھا پائیں۔
کسی بیٹی پر اٹھتی نظر کو گھر میں اپنی بیٹی ،بہن بھول جاتی ہے ورنہ کبھی نہ اٹھتی.بوجھ بننے سے؛یاد بننازیادہ بہتر ہے ۔اپنے ھمسفر سے اپنے جیسا ہونے کی امید مت کریں۔قلم اور عورت دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں،لیکن بد قسمتی سے دونوں طاقتیں اپنا وجود ؤ مقام کھو چکی ہیں ۔کہتے ہیں کہ الہام ماؤں کو بھی ہوتے ہیں لیکن ماں اگر اس قابل ہو تو ورنہ ہر گھر میں شیطان جگہ بنا لیتے ہیں."
یہ کہتے ہوئے زبیدہ نے سر جھکا لیا اور خاموش ہو گئی۔
عدالت میں تالیوں کو گونج تھی ۔ ہر آنکھ بھیگ رہی تھی ۔
"زبیدہ بیگم! تم نے ہربات سوفیصد درست کہی ہے۔ مگر عدالت جذبات سے نہیں قوانین سے چلتی ہے۔" جج کہہ رہا تھا" تاہم عدالت آپ کے دلائل سے متفق اور جذبات کی قدر کرتی ہے ۔"
تھوڑی ہی زبیدہ کو سزائے عمر قید سنا دی گئی۔عدالت کے دروازے میں کھڑا ارشد آبدیدہ ہورہا تھا ۔وہ کل ہی دبئی سے واپس آیا تھا ۔اسے معلوم تھاکہ اس کی ماں نے کومل کے ساتھ زیادتی کی ہے۔وہ کومل سے کی گئی ہرزیادتی کا ازالہ کرنے آیا تھا۔✍
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 565996 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More