روحانی محبت

میں ہمیشہ سے ہی اپنی اور پیاری دادی امی کی گہری محبت کے بارے میں لکھنا چاہتی تھی۔ میں اپنے اور اپنی پیاری دادی امی کے خوب صورت رشتے کو لفظوں میں پرونا چاہتی تھی مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ میں اپنی اور اپنی پیاری دادی امی کی جذباتی، روحانی اور بے لوث محبت کو آپ سب کے سامنے پیش کرسکتی۔
لیکن خدا کے مقرر کردہ وقت کے مطابق میں میری پیاری اور ہر دل عزیز دادی امی کی پوتی اپنی اور اپنی دادی امی کی بے لوث محبت، وفاداری، خلوص میں لپٹی ہوئی کہانی کو پیش کرنے جا رہی ہوں۔ اُمید کرتی ہوں کہ اس دادی پوتی کی بے غرض محبت کی داستان پڑھ کر میرے پڑھنے والوں کا لفظ ’’محبت‘‘کے بارے میں دیکھنے اور سوچنے کا نظریہ بدل جائے گا۔
آغاز اپنے بچپن سے ہی کروں گی۔ میری والدہ ملازمت پیشہ خاتون تھیں تو ہم بہن بھائیوں کی دیکھ بھال میری دادی امی ہی کیا کرتی تھیں۔ لیکن اپنے بہن بھائیوں میں اپنی دادی امی سے میرا لگاؤ اور محبت سب سے زیادہ تھی کیونکہ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ حساس تھی اور جس کی وجہ سے میری دادی امی مجھ پر توجہ زیادہ دیتی تھیں۔
وہ گھنٹوں میرا سر اپنی گود میں رکھ کر مجھے بادشاہوں، پریوں اور پرندوں کی نصیحت آمیز کہانیاں سناتی رہتی تھیں۔ جب میرا سکول میں داخلہ کروایا گیا تو ہر بچے کی طرح میں بھی سکول نہیں جانا چاہتی تھی۔ سکول جانے کے نام پر مجھے رونا آجاتا تھا لیکن میری بھولی بھالی پیاری سی دادی امی میرے ساتھ سکول جایا کرتی تھیں اور چھٹی ہونے تک میرے ساتھ سکول میں ہی رہتی تھیں۔
یہ لکھتے ہوئے میرے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی ہے، بالکل ایسے ہی تھا جیسے اُنہوں نے میرے ساتھ سکول میں داخلہ لے لیا ہو اور ہم دونوں نرسری جماعت میں ساتھ ہی پڑھتے ہوں۔ میری دادی امی کا میرے ساتھ سکول جانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں کلاس میں ٹِک کر بیٹھوں اور سکول نہ جانے کے لیے ضد نہ کروں۔ اس طرح میری دادی امی میری گہری سے گہری دوست بنتی گئیں۔
میں جس سکول کی طالبہ تھی اس سکول میں ہمجولیاں پڑھنے کے لیے طالب علموں میں تقسیم ہوا کرتی تھیں جو بچوں کی اصلاح کا کام کرتی تھیں۔ میں یہ ہمجولیاں گھر لے کر آتی اور اپنی دادی امی کو ان رسالہ جات میں سے اقوالِ زریں اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی تو میری دادی امی مجھے انعام کے طور پر گُڑ، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی سے بنا ہوا پانڈہ جسے پنجیری بھی کہتے ہیں مجھے کھانے کو دیتیں۔
کیا ہی خوب صورت دن تھے۔ دل چاہتا ہے کہ میرا بچپن لوٹ آئے اور پھر کبھی ختم نہ ہو۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں جماعت ہفتم کی طالبہ تھی، میری دادی امی بہت بیمار ہوگئیں حتیٰ کہ اُن کو فالج ہوگیا۔ وہ ہِل جُل بھی نہیں سکتی تھیں اور میں چونکہ اپنی دادی امی سے بے حد محبت رکھتی تھی تو میں اُن دِنوں اپنے سکول سے چھٹیاں کرنے لگی۔ میں گھر ہی میں اپنی دادی امی کا خیال رکھنے اوراُن کی خدمت کرنے کے لیے رہنے لگی۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میرے بچپن سے ہی خدا نے میرے ہاتھوں کو، میری روح کو میرے گھر کے بزرگ اور میری پیاری دادی امی کی خدمت کے لیے چُنا۔
میں اُس وقت ۱۲ سال کی تھی، میں دادی امی کو اپنی گود میں اُٹھا کر بیت الخلا لے کر جاتی تھی اور بروقت اپنی دادی امی کی صحت مندی، عمر درازی کی دعائیں مانگا کرتی تھی۔
لیکن ایک روز ایسا بھی آیا کہ میری دادی امی کی طبیعت زیادہ بگڑنے کے باعث اُنھیں ہسپتال لے جایا گیا۔ لیکن ڈاکٹرز نے جواب دے دیا کہ اب یہ اس دنیا سے رخصت ہونے والی ہیں، اِن کے بچنے کے کوئی اِمکانات نہیں۔ میرے گھر پر سب اُمید کھو چکے تھے۔ والد صاحب کو میں نے ٹینٹ لگانے والے ایک بھائی سے بات کرتے ہوئے سُنا جن کو وہ جنازے کی رسومات کے لیے گھر کے سامنے ٹینٹ لگانے کا بول رہے تھے۔ ہر طرف مایوسی کا عالم تھا۔ لیکن میں میری دادی امی کی لاڈلی پوتی خدا سے لڑنے لگی۔ خدا سے شکوے شکایات کرنے لگی۔ میں رو رو کر خدا سے اپنی دادی امی کی زندگی مانگ رہی تھی۔ میرے گھر پر میری دادی امی کے بستر کے اِردگرد میرے تمام رشتے دار رو رہے تھے کہ اب یہ اس دنیا سے رخصت ہونے والی ہیں۔
لیکن میں خدا کے آگے رو رہی تھی۔ خداِ کریم جو سمندر کی گہرائیوں سے بھی زیادہ اپنے بچوں کو پیار کرتا ہے، ایک بارہ سال کی بچی کو اپنے سامنے روتا کیسے دیکھ سکتا تھا۔ اُس پوری رات میرے تمام رشتے دار رو دھو کر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے کیونکہ میری دادی امی میں روح باقی رہی۔
اگلے دن میری دادی امی نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اُس سے اگلے دن میری دادی امی نے کھانا کھایا۔ اُس سے اگلے دن میری دادی امی اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔
میری دادی امی خود چل پھر سکیں اس کے لیے میں اپنی دادی امی کی ٹانگوں، ہاتھوں اور پاؤں کی روز تیل کی مالش کرتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میری دادی امی بالکل ٹھیک ہوگئیں۔
میرا ایمان ہے کہ خدا انھیں ضرور نئی زندگی بخشتاہے جن کے ساتھ وہ لوگ موجود ہو جن کے اندر بے لوث، بے غرض سچی محبت کرنے والے خوب صورت نیک انسان کی روحانی روح بستی ہو۔
’’محبت بھی بالکل ایسے ہے، جس کا تعلق روح سے ہے۔‘‘
اُس واقعے کے بعد جب بھی میری دادی امی تھوڑی سی بھی بیمار پڑتیں، میں خدا سے اپنی دادی امی کے لیے صحت و تندرستی اور عمر درازی کے لیے بہت دعائیں مانگتی، روزے بھی رکھتی۔ یہ مجھ پر خدا کا فضل تھا کہ خداوند کریم میری دادی امی کے لیے مانگی ہوئی دعاؤں کو کبھی بھی رد نہیں کرتاتھا اور میری دادی امی ہر بیماری کے بعد پھر سے اُٹھ کھڑی ہوتیں۔ چنگی بھلی ہوجاتیں۔ میرا دادی امی کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط تھا۔ اپنے سکول کے دنوں کا ایک بہت پیارا سا واقعہ یاد آرہا ہے اور لکھتے ہوئے بہت ہنسی بھی۔
میرے سکول کے دنوں میں ایک انڈین چینل ’’سٹار پلس‘‘کا ایک ڈرامہ مجھے بہت پسند تھا جس کی میں ایک بھی قسط دیکھنا نہیں چھوڑتی تھی۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ اُس انڈین چینل نے میرے پسندیدہ ڈرامے کا وقت بدل کر وہ وقت رکھ دیا جب میں سکول میں ہوتی تھی لیکن میں اپنی دادی امی کی ڈیوٹی لگا کر جاتی تھی کہ آپ نے وہ ڈرامہ لازماً دیکھنا ہے اور مجھے سکول سے گھر واپسی پر بتانا ہے کہ آج کی قسط میں اس ڈرامے میں کیا ہوا ہے۔اس طرح اپنی پیاری دادی امی کو میں نے وہ ڈرامہ دیکھنے کا پابند کردیا اور سکول سے واپسی پر وہ مجھے باقاعدہ ڈرامے کی قسط بتایا کرتی تھیں کہ آج ڈرامے میں کیا ہوا۔
ایک بار میرے دونوں بڑے بھائیوں نے ٹی وی پر الگ الگ چینل دیکھنے کی خواہش کی۔ اسی ضد کی وجہ سے ان کا جھگڑا ہوگیا اور میرے والد صاحب نے غصے سےTVکو ایک بکسے میں بند کرکے تالا لگادیا۔ ٹی وی بکسے کے اندر بند ہوچکا تھا جس وجہ سے میری دادی امی میرے کہے مطابق میرا پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے سے قاصر ہوگئیں۔ پھرمیرے اصرار کرنے پر میری پیاری سی دادی امی ہمارے پڑوس میں یہ ڈرامہ دیکھنے جاتیں اور میرے سکول سے واپسی پر باقاعدگی سے مجھے کہ آج کی قسط میں کیا ہوا، بتایا کرتی تھیں۔
تیری محبت کو چھپا لوں اپنے سینے میں
تجھے چوم کر تیری بانہوں میں بھر جاؤں میں
تجھے اپنی آنکھوں میں بسا کر تیرا دیدار کرتی جاؤں میں
تیری یادیں میرے جیون کی ساتھی بن جائیں
تیری خوب صورت باتیں میرے جیون کو سنوار جائیں
تو ہے مجھ میں، میں ہوں تجھ میں
تیری محبت سے لِپٹ کر ہماری کہانی بیان کر جاؤں میں
ایک وقت ایسا تھا کہ ہمارے گھر میں UPS اور جنریٹر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ لائٹ جانے پر گرمیوں میں پوری پوری رات پنکھا جھلنے میں گزر جاتا تھا۔ میں اپنی دادی امی کے پاس سویا کرتی تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں اپنے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ حساس تھی تو گرمیوں کے موسم میں جب بھی بجلی جاتی تو گرمی بھی مجھے اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ بجلی بند ہونے اور شدید گرمی کے باوجود میرے بہن بھائی گہری نیند میں سوئے ہوتے تھے سوائے میرے۔ مجھے تو شدید گرمی میں بجلی کے جانے پر اور پنکھے کی ہوا نہ ملنے پر نیند ہی نہیں آتی تھی۔ اُس وقت رات کو ۲ بجے تک بجلی آنے کا امکان ہوتا تھا لیکن میری پیاری دادی امی میرے ساتھ جاگی رہتیں اور مجھے پنکھا جھلتی رہتیں۔وہ مجھے مزے مزے کی کہانیاں سناتی رہتیں اور جب بجلی آجاتی تو میں اپنی دادی امی کے ساتھ چپک کر سوجایا کرتی۔
میرے میٹرک کے امتحانات سے ۲ مہینہ پہلے مجھے السر کی بیماری نے آگھیرا۔ مجھے ایک مہینہ ہسپتال میں داخل رہنا پڑا۔جب میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تو میرے میٹرک کے امتحانات میں صرف ایک مہینہ رہ گیا تھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے میٹرک کے امتحانات نہ دینے کا مشورہ دیا۔ لیکن سال ضائع ہونے کا ڈر میرے سر پر سوار ہوگیا۔ مجھے ہر حال میں میٹرک کے امتحانات دینے تھے لیکن میری تیاری کچھ خاص نہ تھی۔میرے اندر بس یہ ڈر تھا کہ میں اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاؤں گی، اس لیے مجھے ہر حال میں میٹرک کے پیپر دینے ہیں۔ ایسے میں میری دادی امی نے میرا حوصلہ بندھایا۔ میری دادی امی ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتیں۔ میرے پڑھنے کے دوران میرے ساتھ ہی بیٹھی رہتیں اور جب میں رات کو تھک کر سوجاتی تو میری دادی امی مجھے پڑھنے کے لیے رات کے ڈھائی بجے اُٹھا دیتیں اورصبح آٹھ بجے تک میرے ساتھ بیٹھی رہتیں۔ میں تھک جاتی تو میرا سر دباتیں،وہ میرا سر اپنی گود میں رکھ کر سہلاتیں اور میرے لیے بہت سی دعائیں کرتیں۔ میری دادی امی کا ’’مقدسہ مریم‘‘ پر بہت اعتقاد تھا اور وہ ہر وقت میرے لیے مقدسہ مریم کے نام کی روزری پڑھتی رہتی تھیں۔
جب میں میٹرک کے پیپر دے رہی تھی تو مجھے ایک پیپر بہت مشکل لگ رہاتھا اور اُس پیپر میں کوئی چُھٹی بھی نہ تھی۔ میں نے اپنی دادی امی سے کہا کہ میرا کل کا پیپر بہت مشکل ہے،مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ جب میرا پیپر شروع ہوگا اُس وقت سے لے کر میرے گھر واپس آنے تک آپ نے میرے لیے بس دعا میں ہی بیٹھے رہنا ہے، اور کوئی کام نہیں کرنا ہے۔ یہ بات میں نے بس ایسے ہی کہہ دی تھی، لیکن اگلے دن جب میں پیپر دے کر خوشی خوشی گھر واپس آئی تو میری بھولی بھالی پیاری سی دادی امی روزری پڑھ رہی تھیں۔ امی سے پوچھنے پر مجھے پتا چلا کہ جب سے میں پیپر دینے گئی ہوں تب سے اب تک یہ میرے لیے دعا میں ہی بیٹھی ہوئی ہیں۔یہ سنتے ہی میں نے اپنی دادی امی کو گلے لگا لیا اور انھیں بتایا کہ میرا پیپر بہت اچھا ہوگیا۔
میں نے میٹرک فرسٹ ڈویژن سے کیا اور اس سفر میں میری دادی امی نے میرا ساتھ دیا۔ دن گزرتے گئے اور میری قربت میری دادی امی سے مزید بڑھتی گئی۔ میں اپنی دادی امی سے ڈھیر ساری باتیں کرتی۔ اپنا ہر احساس، ہر خواہش، ہر نظریہ اپنی دادی امی کو بتاتی۔ روزانہ سہ پہر تین بجے کا یہ معمول بن چُکا تھا کہ میری دادی امی ڈرائینگ روم میں رکھے صوفے پر بیٹھ جاتیں اور میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتی۔ میری دادی امی میرے سر کو سہلاتیں، میرا ماتھا چومتی اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیتیں۔
زندگی آگے بڑھی اور میں نے بی کام میں داخلہ لے لیا۔ لیکن مجھے بی کام میں اکاؤنٹنگ کا سبجیکٹ بہت مشکل لگنے لگا۔ اس لیے میں نے بی کام چھوڑ کر بی اے رکھ لیا۔جب بی اے میں آئی تو مجھے پھر سے بی کام آسان لگنے لگا کیونکہ اب مجھے بی اے کی انگلش پریشان کر رہی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھ سے پڑھا نہیں جاتا تھا۔ ایک دن میں نے انگلش کا ہوم ورک نہیں کیا تھا کیونکہ مجھے اس کی سمجھ نہیں آتی تھی تو میری ٹیچر نے مجھے غصے سے کہا تھا:
’’تم نالائق ترین ہو، تم زندگی میں کبھی بھی کچھ نہیں کرسکتی ہو۔‘‘
اُس دن میں بُری طرح سے اداس ہوگئی اور میرا بہت رونے کو دل کر رہا تھا۔ میں آنکھوں میں نمی لیے گھر آئی،میں کسی سے بھی بات نہیں کر رہی تھی۔ میں گھر میں چہکتی تھی، شور مچاتی تھی لیکن اُس دن میں بالکل خاموش تھی۔ لیکن کسی نے بھی غور ہی نہیں کیا کہ میں اتنی خاموش کیوں ہوں؟
میں اپنی دادی امی کے کمرے میں چلی گئی اور دادی امی کے بستر پر اُن کے ساتھ خاموشی سے لیٹ گئی۔ میری دادی امی میرا ماتھا چوم کر کہنے لگیں:
’’میری بِٹیا رانی آج اتنی چُپ چُپ کیوں ہے؟‘‘
میں اپنی دادی امی کو کچھ بھی نہیں بتانا چاہ رہی تھی، لیکن میری دادی امی بار بار اصرار کرنے لگیں۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ میری شہزادی کیوں اُداس ہے؟ کیوں اتنی چُپ ہے؟
میں نے اپنی دادی امی کے اصرار کرنے پر انہیں گلے لگا لیا اور روتے ہوئے انھیں بتایا کہ میری ٹیچر نے مجھے آج بہت ڈانٹا،انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں بہت نالائق ہوں اور میں زندگی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ میری دادی امی نے میرے آنسو پونچھے اور مجھ سے کہا:
’’میری بیٹی تو اُڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔‘‘
میری دادی امی نے مجھے بہت پیار کیا۔ میں اور میری دادی امی روز حضرت مریم کے نام کی روزری پڑھتی تھیں۔ میری دادی امی کا حضرت مریم پر بہت ایمان تھا اور وہ مقدسہ مریم سے میرے لیے بہت دعائیں مانگا کرتی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ میری دادی امی کی نظر کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ میرے بی اے کے فائل پیپرز سے تقریباً کچھ مہینے پہلے میری دادی امی کی آنکھوں کا آپریشن ہوا اور آپریشن کے بعد میری دادی امی اور زیادہ بیمار ہوگئیں، بہت کمزور ہوگئیں۔میری دادی امی تندرست نہیں ہو پا رہی تھیں۔ میری دادی امی کے بیمار ہونے کی وجہ سے میں پڑھ نہیں پا رہی تھی۔ میں ہر وقت اداس رہنے لگی۔
ایک شام میں اپنی دادی امی کے کمرے میں گئی تو میری دادی امی سوئی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دادی امی کے ماتھے پر رکھا اور اُن کے لیے خدا سے التجا کرنے لگی:
’’اے خداوند! آپ جانتے ہیں کہ میں اپنی دادی امی سے بے لوث محبت کرتی ہوں، اس قدر محبت کہ جتنی میں خود سے بھی نہیں کرتی۔‘‘
مگر اس بار میری دعا میں یہ جملے بھی شامل تھے کہ :
’’اے خدا رحیم و کریم! اگر میری دادی امی کو کچھ ہو گیا تو میں کبھی بھی نہیں پڑھ پاؤں گی۔میں آپ سے فریاد کرتی ہوں، التجا کرتی ہوں کہ میری دادی امی کو بالکل تندرست کر دیجیے، ٹھیک کر دیجیے،چنگا بھلا کر دیجیے۔‘‘
لیکن میرا آخری جملہ ان الفاظ پر ختم ہوا کہ:
’’اے خداوند!جب تک میں گریجویشن پاس نہیں کر لیتی تب تک میری دادی امی کو کچھ بھی نہ ہو،گریجویشن کرنے کے بعد میں آپ کے آگے اپنی دادی امی کے لیے، ان کی لمبی عمر کے لیے مزید التجا نہیں کروں گی ۔‘‘
لیکن یہ جملے، یہ دعا محض آئے ہوئے وقت کو ٹالنے کے لیے تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ میں اپنی دادی امی کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔ لیکن اس بار پھر سے خدا نے میری دعا سن لی۔ اُس رات میں نے اپنی دادی امی کو خواب میں بالکل تندرست دیکھا۔ اور جب صبح ہوئی تو خدا کی قدرت، رحم اور جلال سے میری دادی امی تندرست دِکھ رہی تھیں۔ میری دادی امی اپنے بستر پر خود ناشتا کر رہی تھیں۔میں بھاگ کر اپنی دادی امی سے لِپٹ گئی اور اپنی پیاری سی دادی امی کو بہت لاڈ کرنے لگی، اُنھیں چومنے لگی۔ میں اپنی دادی امی کے ساتھ پنجا لڑایا کرتی تھی اور خود ہی جان بوجھ کر ہار جایا کرتی تھی کیونکہ میری دادی امی دن بہ دن ضعیف ہوتی جارہی تھیں۔ اس وجہ سے بظاہر تندرست دِکھنے کے باوجود جسمانی طور پر کمزور ہوتی جا رہی تھیں۔ میں اپنی دادی امی کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ کیونکہ میں اس بات کو کبھی بھی قبول نہیں کرنا چاہتی تھی کہ میری دادی امی عمر بڑھنے کی وجہ سے دن بہ دن جسمانی طور پر کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ اور جب میں پنجا لڑانے کے کھیل میں اپنی دادی امی سے جان بوجھ کر خود ہار جاتی اور اپنی دادی امی کو کہتی کہ دیکھیے دادو آپ آج بھی مجھ سے زیادہ طاقتور ہیں اور آپ مجھے ہرا دیتی ہیں تو میری دادی امّی مُسکرا کر مجھے کہتیں:
’’بٹیا میں سب جانتی ہوں۔‘‘
اپنی دادی امی کے بہت منع کرنے کے باوجود میں دادی امی کو گھنٹوں دباتی رہتی کیونکہ میں ہر وقت انہیں تندرست اور سکون میں دیکھنا چاہتی تھی اور میری پیاری دادی امی مجھے ہر وقت ڈھیر ساری دعائیں دیتی رہتیں۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے گھر پر کوئی نہیں تھا سوائے میرے اور میری دادی امی کے، اور اوپر سے بجلی بھی چلی گئی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ اُس وقت ہمارے گھر میں جنریٹر ہوتا تھا لیکن مجھے چلانا نہیں آتا تھا۔میری دادی امی گرمی میں سوئی ہوئی تھیں اور شدید گرمی کی وجہ سے میری دادی امی پسینے سے شرابور تھیں۔میں اپنی دادی امی کوگرمی میں پسینے سے لت پت نہیں دیکھ سکتی تھی۔ میری دادی امی سکون سے سو سکیں، اس کے لیے میں نے ہاتھ کا بنا ہوا پنکھا جھلنا شروع کیا اور میں پورا گھنٹہ بنا تھکے اپنی دادی امی کو پنکھا جھلتی رہی۔ ایک گھنٹے کے بعد لائٹ آئی اورمیں اپنی دادی امی سے لپٹ کر سوگئی۔
محبت ہو تو بے غرض ہو ورنہ نہ ہو
قربت سے بھرے لمحے ہر پل ہوں
تیرا لمس میری دنیا ہو
تیری مسکراہٹ میری زندگی ہو
تیرا سکون میری چاہت ہو
تیری خوشی میرا مقصد ہو

مزید زندگی آگے بڑھی، میری پیاری دادی امی مکمل ہی بستر سے لگ گئیں۔ بڑھاپے اور کمزوری کے باعث وہ بالکل بھی چل پھر نہیں سکتی تھیں۔ وہ ہر وقت اپنے بستر پر لیٹی رہتیں۔ دسمبر کی دوپہر میرے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ آج میں ہر حال میں اپنی دادی امی کو آسمان دکھاؤں گی، سورج دکھاؤں گی،سردیوں کی دھوپ سیکاؤں گی کیونکہ ایک مہینہ ہو گیا تھا میری دادی امی ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں اور اُداس رہتی تھیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوتا کہ میں اپنی دادی امی کو سردیوں کی دھوپ میں بٹھا کرآسمان دکھاتی، پرندے دکھاتی کیونکہ اُس وقت ہم کرائے کے گھر میں رہتے تھے اور چھت چو تھی منزل پر تھی، اور گھر پر بھی کوئی بڑا نہیں تھا جو میری مدد کرتا لیکن میں مزید اپنی دادی امی کو ایک ہی کمرے میں پڑے نہیں رہنے دینا چاہتی تھی۔
میں نے سب سے پہلے اپنے کرائے والے گھر کی چو تھی منزل جہاں پر چھت تھا، جا کر چارپائی لگائی۔ پھر تکیوں کا بندوبست کیا۔ پھر گرم پانی کر کے ٹب میں اوپر لے کر گئی۔ پھر نمک اور سرسوں کا تیل بھی اوپر لے کر گئی تاکہ نمک اور سرسوں کا تیل ٹب میں موجود گرم پانی میں ڈال کر اپنی دادی امی کے پیروں کی ٹکور کر سکوں۔ چھت پر اپنی دادی امی کو آرام دینے کے لیے میں نے تمام بندوبست کر لیے۔ اب باری تھی میری دادی امی کو چھت پر لے کر جانے کی جو کہ بے شمار سیڑھیوں کے بعد چوتھی منزل پر آتا تھا لیکن میری محبت اس قدر زیادہ تھی کہ میں مزید اپنی دادی امی کو ایک ہی کمرے میں بند پڑا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ میں نے اپنی دادی امی کو گود میں اٹھا لیا اور انھیں سیڑھیوں کو پار کرتے ہوئے چوتھی منزل پر لے جانی کی کوشش کرنے لگی۔ جوں جوں ایک سیڑ ھی پار کرتی میرا سانس پھولتا جا رہا تھا اور ساتھ میری دادی امی کا بھی، وہ بار بار میری فکر کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں:
’’میری بٹیا! میرے پیچھے کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہے۔‘‘
سیڑھیاں پار کرتے ہوئے کئی بار مجھے ایسا لگا کہ کہیں میرے ہاتھوں سے میری دادی امی گر نہ جائیں۔ سیڑھیاں پار کرتے ہوئے کئی بار تھکتے ہوئے اپنی دادی امی کو گود میں لیے کسی سیڑھی پر بیٹھ بھی جاتی۔ پھر ہمت کرتی،اٹھتی اور دوبارہ سیڑھیوں کو پار کرنا شروع کر دیتی۔ لیکن ان سب میں میری دادی امی بھی میری وجہ سے تھکیں۔اُن کی سانسیں بھی میرے ساتھ پھولیں۔کتنی بار سیڑھیاں پار کرتے ہوئے اپنی دادی امی کو مضبوطی سے تھامنا کمزوری میں بھی بدلا۔ میری دادی امی میرے ہاتھوں سے پھسل سکتی تھیں، گِر سکتی تھیں اور میری دادی امی صرف میری خوشی کے لیے مجھے من مانی کرنے دے رہی تھیں۔ سیڑھیاں پار کرتے ہوئے میری دادی امی میری بہت زیادہ فکر کر رہی تھیں۔ آخر کار ہم اپنی منزل پر پہنچ ہی گئے، جہاں پر میں نے اپنی دادی امی کے آرام کے لیے سارے بندو بست کیے ہوئے تھے۔
پہلے میں نے اپنی دادی امی کو چارپائی پر بٹھایا، پھر اُن کو دبانے لگی تا کہ میری وجہ سے جو اُن کو تھکاوٹ ہوئی اُس کو ختم کر سکوں۔ پھر میں نے اپنی دادی امی کے پاؤں کو گرم پانی کے ٹب میں ڈالا تا کہ میری دادی امی کو سکون محسوس ہو اور پاؤں کی سوجن بھی ختم ہو جائے۔ اُس کے بعد میں نے اپنی دادی امی کے بازوؤں اور ٹانگوں کی تیل سے مالش کی اور دوپہر کا کھانا بھی میں نے اور میری دادی امی نے سردیوں کی دھوپ میں اکٹھے چھت پرہی کھایا۔ میری زندگی کے انتہائی خوب صورت، قربت اور محبت سے بھرے لمحات جو اب کبھی بھی نہیں آئیں گے۔
شام کو میرے والد گھر آئے اور میری دادی امی کو خود گودمیں اُٹھا کر نیچے لے کر آئے۔میری دادی امی اُس دن تازگی محسوس کر رہی تھیں، مجھے بہت پیار کر رہی تھیں۔اُس دن میں نے اپنی دادی امی سے کہا:
’’میری پیاری سی دادو! میں آپ سے بے لوث محبت کرتی ہوں،اتنی کہ آپ اس محبت کو ماپ ہی نہیں سکتیں۔ میری محبت آپ کے لیے لاثانی ہے۔یہ دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دیکھنا ایک وقت آئے گا کہ سب مجھے آپ کے نام سے جانیں گے یعنی انعم نہیں بلکہ رابعہ انعم کے نام سے جانیں گے۔‘‘
میری دادی امی نے مسکرا کر کہا:
’’میری شہزادی! جتنی آپ مجھ سے محبت کرتی ہو اُس سے کہیں زیادہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی۔‘‘
یہ قربت سے بھرے لمحات دن بہ دن بڑھنے لگے۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا اور میری دعائیں، روزہ و ریاضت میری دادی امی کی لمبی عمر کے لیے مزید سے مزید تر بڑھتے جا رہے تھے۔
میں ہر وقت اپنی دادی امی کو لے کر پریشان رہنے لگی۔ جتنی پریشان رہتی، اُس سے کئی گنا زیادہ اپنی دادی امی کے لیے دعا کرتی، اُن کے لیے روزے رکھتی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری دادی امی کے پاس میرے والد سونے لگے۔ چو نکہ میری دادی امی اکثر رات کو پانی پینے یا باتھ روم جانے کے لیے اُٹھتی تھیں تو کمزوری اور بڑھاپے کے باعث زمین پر گِر پڑتیں، ایسے میں میرے ابو میری دادی امی کی ٹانگ کے ساتھ اپنی ٹانگ پر ڈوپٹہ باندھ کر سوتے تھے تاکہ میری دادی امی رات میں اُٹھیں تو اُنھیں پتا چل جایا کرے۔ رات میں سونے کے وقت میری دادی امی خود سے میرے والد کو نہیں بتایا کرتی تھیں کہ مجھے پیاس لگی ہے یا مجھے باتھ روم کے لیے جانا ہے تاکہ میرے ابو کی نیند خراب نہ ہو، جس کی وجہ سے کئی بار میرے والد نے میری دادی امی کو زمین پر گرے پایا تھا۔یہی وجہ تھی کہ میرے والد میری دادی امی کی ٹانگ کے ساتھ اپنی ٹانگ ڈوپٹے سے باندھ کر سوتے تھے تاکہ میری دادی امی کو مزید پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک روز میرے والد کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے اور انھیں واپسی میں کافی دیر ہوگئی۔ میں کسی کام میں بہت مصروف تھی،اس لیے دادی امی کے کمرے میں جاکر انھیں نہ دیکھ سکی۔مجھے لگا کہ میرے ابو اب تک تو گھر آچکے ہونگے اور وہ میری دادی امی کے پاس ہی ہونگے۔میں کچھ ضروری کام کرنے کے باعث بہت تھک گئی تھی اور اپنی دادی امی کے کمرے میں جا کر اُن کو نہ دیکھ سکی۔ تھکن کے باعث میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ تقریباً رات پونے دو بجے میری آنکھ کھلی اور میں بہت بے چینی محسوس کرنے لگی۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن رات دو بجے میں نے اپنی کُھلی آنکھوں سے دادی امی کا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جو مجھے بار بار کہہ رہی تھیں:
’’انعم بچا لے مجھے!انعم بچا لے مجھے!‘‘
میں نے خوف سے اپنا سر جھٹکا اور بھاگ کر دادی امی کے کمرے میں گئی۔ دیکھا تو میرے والد اُس دن گھر ہی نہیں آئے تھے اور میری دادی فرش پر گری ہوئی تھیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر بہت گھبراگئی اور میں نے اپنی دادی امی کو جھٹ سے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ میرے شور مچانے پر میرے بہن بھائی اور میری والدہ سب اُٹھ گئے۔ میری والدہ میری دادی امی کے لیے پانی لے کر آئیں۔ میں نے دادی امی کو پانی پلایا۔ ہم سب نے مل کردادی امی کے لیے دعا کی۔
ایک بار پھر سے دعا با اثر رہی اور میری دادی امی نے کہا:
’’اب میں ٹھیک ہوں۔‘‘
میں اُس رات اپنی دادی امی کے ساتھ ایسی جکڑ کر سوئی کہ بیان نہیں کر سکتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ میری دادی امی کے لیے میری بے چینی،اُداسی بڑھتی جا رہی تھی۔میں زیادہ سے زیادہ اپنی دادی امی کے لیے دعا کرنے لگی۔ اُن کی صحت و تندرستی اور عمر درازی کے لیے روزے رکھنے لگی۔
میرے والد رات کو میری دادی امی کے پاس ہی اُن کی دیکھ بھال کے لیے سویا کرتے تھے، وہ میرے صبح اُٹھنے سے پہلے دادی امی کو ناشتا کر واکر اپنی نوکری پر جایا کرتے تھے۔ اکثر یوں ہوتا کہ میں صبح دادی امی کے کمرے میں جاتی تو وہ دعا کر رہی ہوتیں۔ایک روز جب میں صبح اٹھی تو سب اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر جاچکے تھے۔ جب میں اپنی دادی امی کے کمرے میں گئی تو یوں لگاجیسے وہ بہت گہری نیند میں سوئی ہوئی ہیں۔ میں اُنھیں اُٹھانے کے لیے اُن کے قریب گئی تو دیکھا کہ اُن کی سانسیں نہیں چل رہیں۔ میں بہت گھبرا گئی۔ ایک لمحے کے لیے تو ایسا لگا کہ میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی ہو۔ میں دادی امی کو اپنی گود میں رکھ کر فرش پر ہی بیٹھ گئی اور اُن کے سینے پر سرکھ کر بس خدا سے یہ ہی کہتی جا رہی تھی:
"Send her back
Send her back"
واپس بھیج دیجیے میری دادی امی کو، اے خدائے کریم! میں اپنی دادی امی کے بغیر نہیں رہ سکتی، انھیں واپس بھیج دیجیے۔
میں آنسو بہاتے ہوئے خدا سے التجا کرنے لگی۔ میرے آنسوؤں سے میری دادی امی کا سینہ مکمل طور سے بھیگ چکا تھا۔تقریباً 15 منٹ کے بعد میری دادی امی نے کھانسنا شروع کیا۔ میری دادی امی زندگی کی طرف واپس آئیں۔کچھ دیر بعد انھوں نے آنکھیں کھولیں اور پھر مکمل طور سے سانسیں بحال ہوتی گئیں۔ میں اپنی دادی امی کو ساتھ والے کمرے میں لے آئی اور انھیں ٹوتھ برش کروایا، اُن کا منہ ہاتھ دھلوایا اور پھر میری جان میں جان آئی کہ اب میری دادی امی بالکل ٹھیک ہیں۔
میں اکثر اپنی دادی امی کو مہندی اور لال رنگ کی نیل پالش لگا دیا کرتی تھی۔ لیکن میری دادی امی کو نیل پالش اور مہندی کی خوشبو پسند نہیں تھی،وہ سنگھار کو سخت ناپسند کرتی تھیں۔ میرے والد جب تین برس کے تھے تو میرے دادا ابو اِس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور اُس وقت میری دادی امی جوان تھیں۔ میرے دادا ابو کی وفات کے بعد میری دادی امی ان چیزوں سے دور رہیں لیکن صرف میری خوشی کے لیے نیل پالش اور مہندی مجھے اپنے ہاتھوں پر لگانے دیتی تھیں۔ اسی دوران میرا گریجویشن کا رزلٹ آگیا،جس میں مجھے کامیابی ملی۔ یہ کامیابی میری دادی امی کی بدولت ہی تھی لیکن میری گریجویشن میں کامیابی کے بعد میری دادی امی مزید بیمار رہنے لگیں اور میری دعائیں اور روزہ و ریاضت میری دادی امی کے لیے مزید بڑھنے لگے۔
میرا تعلق مسیحی خاندان سے ہے۔ ایک رات میں اپنے والد کے ساتھ میری دادی امی کی لمبی زندگی اور صحت و تندرستی کے لیے دعا مانگنے چرچ گئی۔میں چرچ کے اندر جس جگہ دعا کر رہی تھی میرے سامنے بہت بڑے سائز کی مشعل جل رہی تھی۔ دعا کرتے کرتے میری آنکھیں کھلیں تو میں نے دیکھا کہ جلتی ہوئی مشعل اپنے آپ ہی بجھ گئی ہے اور میرا دل یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا۔ میں نے اپنے والد کو اس متعلق آگاہ کیا لیکن انھیں مشعل جلتی دکھائی دے رہی تھی۔وہ مجھے بار بار یہ ہی کہہ رہے تھے کہ مشعل جل رہی ہے لیکن میری آنکھیں مشعل کو بجھا ہوا ہی دیکھ رہی تھیں۔
اس واقعے کے بعد میں بہت زیادہ گھبرا گئی اور گھر آ کر میں نے سارا واقعہ اپنی امی کو سنایا۔میری امی نے مجھے تسلی دی اور مجھ سے کہا:
’’تمھیں مزید دعا کرنے کی ضرورت ہے،تم مت گھبراؤ۔‘‘
میری دعائیں میری دادی امی کے لیے مزید سے مزید تر بڑھتی جا رہی تھیں۔ میں اب میری دادی امی کو ایک پل بھی اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ میں پہلے سے زیادہ اپنی دادی امی کے کھانے پینے کا خیال رکھنے لگی۔
ایک روز میں دادی امی کے پاس بیٹھے ہوئے انھیں لاڈ کر رہی تھی کہ اچانک میری دادی امی سنجیدگی سے بولیں:
’’او میری بٹیا رانی! اب بس کر دے، اب مجھے جانے دے۔میں صرف تیری وجہ سے رُکی ہوئی ہوں،اب بس کر دے، اب بس کر دے!‘‘
یہ سنتے ہی مجھے بہت غصہ آیااور میں نے ان سے کہا:
’’آئندہ مجھے ایسا نہیں کہنا۔ آپ کے بغیر میں ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتی۔‘‘
لکھتے لکھتے مجھے دادی امی کا محبت بھرا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک بار میرے پیٹ میں شدید درد تھا اور میرے گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔میری دادی امی فالج کی بیماری لاحق ہونے کے باعث ہر وقت بستر پر لیٹی رہتی تھیں۔میرے پیٹ کا درد بڑھتا ہی جا رہا تھا اور گھر میں کوئی دوا بھی نہ تھی۔ میں بہت اداس ہو کر اپنی دادی امی کے کمرے میں جا کر نیچے فرش پر بیٹھ کر پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر خود ہی رونے لگی اور بار بار بس یہ ہی کہہ رہی تھی کہ میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میری دادی امی نے جب مجھے روتا دیکھا تو وہ اُٹھنے کی کوشش کرنے لگیں۔وہ اُٹھ ہی نہیں پا رہی تھیں،بس بار بار یہ ہی کہے جارہی تھیں کہ میں اپنی بٹیا کو ’’قہوہ ‘‘بنا کر دیتی ہوں۔ جب میری دادی امی قہوے کا ذکر کر رہی تھیں تو میں بھاگ کر باورچی خانے میں گئی اور میں نے اپنے لیے قہوہ بنا کر پیا اور 5 منٹ کے اندر میں بالکل ٹھیک ہوگئی۔
تجھ جیسی محبت کی انتہا نہ پائی کسی سے
نہ دی کسی نے، نہ ملی کسی سے
میں تیری پر چھائی، تو میرا سایہ
تیری آغوش، تیری قربت میرا سرمایہ
لکھتے لکھتے میرا قلم رک رہا ہے کیونکہ آخر کار وہ وقت آپہنچا جب قدرت نے مجھ سے میرے گھر کی ساری صفائی کروائی۔ میں اپنے گھر کی صفائی بالکل ایسے کر رہی تھی جسے میرے گھر میں بہت سے مہمان آنے والے ہیں، جیسے مہمانوں کی آمد کے لیے میں سارا گھر صاف کر رہی تھی جبکہ دور دور تک میرے گھر میں کوئی تقریب نہیں تھی اور جب میں سارے گھر کی صفائی کر چکی تو میں اپنی دادی امی کے سامنے جا کر اس خوشی سے ڈانس کرنے لگی کہ میں نے سارے گھر کی بہت اچھے سے صفائی کرلی۔ میری دادی امی مجھے ڈانس کرتا دیکھ کر تالیاں بجانے لگیں اور پھر میں نے اپنی دادی امی سے کہا:
’’خدا کا شکر ہے۔‘‘
اور میری دادی امی نے اپنی زبان سے اپنی زندگی کا آخری لفظ بولا جو کہ عبرانی زبان میں ہے ’’ہللویاہ‘‘ جس کا مطلب ہے:
’’خد ا کی تمجید ہو۔‘‘
اس کے بعد میری نظر سامنے لگے شیشے پر پڑی اور شیشے میں مَیں خود کو دیکھنے لگی۔شیشے میں میں خود کو دیکھتے ہوئے خود سے مخاطب ہوئی اور میں نے خود سے کہا:
’’آج میں بہت خوش ہوں لیکن کل مجھے بہت رونا پڑے گا۔‘‘
اُس وقت میں یہ نہیں جانتی تھی کہ اِن لفظوں کے ذریعے سے قدرت کی جانب سے مجھے آنے والے وقت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
اگلے روز جب میں صبح اٹھی تو میری دادی امی’’کو ما‘‘میں جاچکی تھیں۔ میرے لاکھ اُٹھانے پر بھی نہیں اُٹھ رہی تھیں۔ میرے والد میری دادی امی کو ہسپتال لے گئے اور میری دادی امی کو ہسپتال داخل کر دیا گیا۔میں بہت بے بسی محسوس کر رہی تھی۔ میری دادی امی کو فوری طور سے این۔ جی ٹیوب اور یورین بیگ لگا دیا گیا۔
میری دادی امی پہلے خود اپنے ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلاتی تھیں پھر خود کھانا کھاتیں۔ ہم ایک دوسرے کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے اور میری نظروں کے سامنے میری دادی امی کو خوراک کی نالی کے ذریعے سے خوراک دی جانے لگی۔
میں اپنی دادی امی کا ہاتھ پکڑے ہر وقت ہسپتال میں اپنی دادی امی کے پاس بیٹھی رہتی اور اُن کی صحت و تندرستی کے لیے دعائیں مانگتی رہتی۔ اس دوران میرے تایا زاد بڑے بھائی نے مجھ سے کہا:
’’آپ کو خدا نے دادی امی کی خدمت کے لیے چُنا ہے۔‘‘
اور میں سوچنے لگی،یہ خدمت تو میں ساری زندگی کرنا چاہتی ہوں کیونکہ میں نے اپنی دادی امی سے یہ سیکھا کہ:
’’سب سے بڑی ڈگری جو خدا کو بہت پسند ہے جس کی کرسی بہت بڑی ہے اور وہ کرسی ترقی کی صورت میں خدا کی جانب سے ہے۔ اُس ڈگری کا اجر اور مقام بہت بلند ہے اور وہ ڈگری خدمت کی ڈگری ہے۔‘‘
میری دادی امی جس ہسپتال میں داخل تھیں، وہاں اتوار کے روز ٹرانسفارمر پھٹنے کی وجہ سے بجلی چلی گئی۔ سخت گرمی کا موسم تھا اور سخت گرمی کے موسم میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سب مریض گرمی سے نڈھال ہو رہے تھے اور میری دادی امی ’’کوما‘‘میں تھیں۔ اُن کو شاید گرمی کا احساس بھی نہ ہو لیکن چونکہ میں اپنی دادی امی کو ذرا بھی گرمی برداشت کرتے نہیں دیکھ سکتی تھی تو میں نے پورے ہسپتال میں شور مچانا شروع کر دیا اور میں ہسپتال میں تمام ڈاکٹرز، نرسز اور ملازمین سے لڑ رہی تھی کہ میں اپنی دادی امی کو سخت گرمی میں بغیر پنکھے کے نہیں دیکھ سکتی۔ میری دادی امی بجلی جانے پر مجھے پنکھا جھلتی رہتی تھیں اور پھر میں اپنی دادی امی کو اُن کے بیمار ہونے پر انہیں ذرا بھی تکلیف نہیں ہونے دیتی تھی۔میں اپنی دادی امی کو بجلی جانے پر گھنٹہ گھنٹہ پنکھا جھلتی رہتی تھی۔ میرے شور مچانے اور دادی کے لیے میری بے لوث محبت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی بجلی کا ٹرانسفارمر ٹھیک کروا دیا گیا اور بجلی لائی گئی۔
میری دادی امی کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی لیکن میں اپنی دادی امی کا ہاتھ تھامے ہر وقت اُن کے پاس بیٹھی رہتی۔ ڈاکٹر بار بار بس یہ ہی کہہ رہے تھے کہ ’’اب ہمارے بس میں کچھ نہیں، لیکن نہ جانے کیوں ان کی روح آزاد نہیں ہو رہی۔‘‘
میری نیند بُری طرح سے غائب ہو چکی تھی۔ اسی دوران کسی نے میری اور میری دادی امی کی بے لوث محبت سے حسد کھا کر مجھ سے کہا کہ میری دادی امی مجھ سے محبت نہیں کرتیں بلکہ میرا فائدہ اُٹھاتی تھیں کیونکہ اُن کو پتا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی بھی میری خدمت نہیں کرے گا۔ لیکن یہ بات محض حسد میں کہی گئی تھی اور اس بات کو میں بہت اچھی طرح سمجھتی تھی۔میں نے آگے سے یہ جواب دیا:
’’اگر میری دادی امی میرا فائدہ اٹھاتی بھی تھیں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر مجھ سے محبت بھی نہیں کرتی تھیں تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میری محبت اس قدر ہے، اتنی خالص ہے کہ میرے اور میری دادی امی کے لیے میری محبت ہی کافی ہے۔‘‘
میری دادی امی نے جتنا اپنا آپ مجھے دیا میں نے بدلے میں اُس کا آدھا بھی ادا نہیں کیا۔ اُنہوں نے اپنی محبت، خدمت کی ساری وفائیں مجھ پر لوٹا دیں۔
اس واقعے کے بعد میں تھوڑی دیر کے لیے گھر گئی۔ لیکن میں بے حال تھی اپنی دادی امی کی بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھ کر اور ڈاکٹر کا بار بار مجھ سے یہ کہنا کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن نہ جانے کیوں ان کی روح آزاد نہیں ہو رہی۔جب میں گھر آئی تو میں اپنی دادی امی کے کمرے میں اُن کے بستر پر بیٹھ کر بہت روئی۔مجھے میرے وہ الفاظ یاد آنے لگے جو میں نے اپنی گریجویشن کے امتحانات ہونے سے کچھ مہینے پہلے اپنی دادی امی کے بیمار ہونے پر کہے تھے کہ:
’’اے خداوند! جب تک میں گریجویشن میں کامیابی حاصل نہیں کر لیتی تب تک میری دادی امی کو کچھ بھی نہ ہو۔ اِن کو تندرست کردو، صحت دو، میرا وعدہ رہا کہ جب میری گریجویشن ہو جائے گی، مجھے کامیابی مل جائے گی، اے خداوند! میں آپ کو مزید فورس نہیں کروں گی،میں آپ سے مزید التجا نہیں کروں گی۔‘‘
لیکن میرے یہ جملے دل سے ادا نہیں کیے گئے تھے، میں تو بس وقتی مصیبت کو ٹالنا چاہتی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ میں اپنی دادی امی کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی تھی، نہ اُن کے بغیر کوئی پل سوچ سکتی تھی لیکن میں اپنی دادی امی کو تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی اور خدا نے میری زبان کو میری دادی امی کے لیے مزید دعا و التجا کے لیے روک دیا۔ اس بار میں اپنی دادی امی کی لمبی عمر کے لیے دعا نہ کر پائی۔
میں واپس اپنی دادی امی کے پاس ہسپتال آئی۔ میں مسلسل اپنی دادی امی کے لیے روزوں میں تھی لیکن اُس روز میرا روزہ قدرت کی جانب سے ٹوٹ گیا جب کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا، میرے اپنی دادی امی کے لیے رکھے گئے روزے کبھی بھی نہیں ٹوٹے تھے لیکن خدا کی مرضی سے میں اُس روز اپنی پیاس پر قابو نہ رکھ سکی اور میں پانی پی بیٹھی۔ وہ روزہ میری دادی امی کی لمبی عمر کے لیے رکھا گیا تھا، وہ میرا میری دادی امی کی لمبی عمر کے لیے آخری روزہ تھا جو ٹوٹ گیا اور 5 منٹ کے بعد ہسپتال میں میری دادی امی کے بستر کے سامنے ٹیبل پر پڑا ہوا شیشے کا گلاس اپنے آپ ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے کانچ کے ٹکڑوں میں بکھر گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب خدا نے میرادل مضبوط کر دیا اور میں اس حقیقت کو جان گئی کہ میں مزید اپنی دادی امی کو اذیت میں مبتلا نہیں کر سکتی جو میری ہی بدولت آزاد نہیں ہو پارہیں اور اذیت سہہ رہی ہیں۔ میں اپنی دادی امی کے پاس گئی اور اپنے آخری جملے اپنی دادی امی سے کہے:
’’میری پیاری دادی امی! میں آج آپ کو آزاد کرتی ہوں۔ اب ہم آسمان پر ملیں گئے تب تک المسیح اور حضرت مریم آپ کا خیال رکھیں گے۔لیکن میری ایک خواہش ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہوں تو المسیح اور مقدسہ مریم کے ساتھ صرف اور صرف آپ مجھے لینے آئیے گا، پھر ہم کبھی جدا نہ ہوں گے۔‘‘
اپنی دادی امی کا میں نے ماتھا چوما اور اُن کا داہنا ہاتھ میں نے خود پکڑ کر اپنے سر پر رکھا اور کہا:
’’دادو! پیار دو۔‘‘
وہ اُس وقت بھی کوما میں تھیں لیکن اُن کا چہرہ اُس دن بہت سکون سے بھرا ہوا تھا۔ اور پھر میں ہسپتال سے اپنی دادی امی کو الوداع کہہ کر چلی گئی۔ جب میں ہسپتال سے جارہی تھی تو میں خود سے باتیں کیے جارہی تھی کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ سب مجھے میری دادی امی کے نام سے جانیں گے۔ میری دادی امی کا نام رابعہ تھا اور میرا نام انعم۔ جب یہ دو نام ملتے ہیں تو ’’رابعہ انعم‘‘ بنتا ہے اور میں خود سے وعدے کر رہی تھی کہ میں اس نام کو ہمیشہ زندہ رکھوں گی۔ میری دادی امی 15 دن ہسپتال میں داخل رہیں اور اس دوران میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوئی۔ یہ وہ وقت تھا جو میرے لیے بالکل ایسے ہی تھا جیسے،’’ ایک ماں اپنے بچے کو، اپنے جسم کے حصے کو پل پل اذیت میں دیکھ رہی ہے، نہ اُس کو جانے کا کہہ سکتی ہے اور نہ اُس کو رہنے کا کہہ سکتی ہے ۔‘‘
13 جون، جس دن میں نے اپنی دادی امی کو الوداعی جملے کہے اور گھر آگئی۔ اُس روز میں بہت بے چین تھی۔ ایسی بے چینی مجھے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ رات 11 بجے میرے کان میں میری دادی امی کی زور دار چیخ سنائی دی جس میں وہ میرا نام لے رہی تھیں ...’’انعم!‘‘
اس چیخ میں بچھڑنے کی اذیت تھی۔ اُسی دوران، اُسی لمحے میرے گھر کے پی ٹی سی ایل نمبر پر فون کی گھنٹی بجی اور فون میرے بھائی نے اُٹھایا۔ وہ کال میرے والد کی تھی جس میں انھوں نے میری دادی امی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دی تھی۔
رات 1بجے میری دادی امی کے مٹی کے مجسمے کو گھر لایا گیا۔ میرے بھائی نے بہت کوشش کی کہ میں اپنی دادی امی کا آخری دیدار کروں،ان کے پاس جاؤں، اُن کو دیکھوں، آنسو بہاؤں لیکن میں کیسے اپنی دادی امی کی سانسوں کو بند ہوا دیکھ سکتی تھی، ’’کیونکہ میں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنی دادی امی کی سانسوں کو چیک کیا کرتی تھی۔‘‘
میں نے اپنی دادی امی کو زندہ ہی رخصت کیا تھا، میں انہیں بے جان نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اُس رات میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں روئی۔اگلے روز صبح ہوتے ہی میری دادی امی کے جنازے کی رسومات کا آغاز ہوگیا۔ میں تب بھی اپنی دادی امی کے پاس نہیں گئی۔ جب انہیں دفنانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا مجھے بہت بار کہا گیا کہ تم آخری بار اپنی دادی امی کا دیدار کر لو، پھر وہ کبھی بھی نہیں دکھائی دیں گی،میں تب بھی اپنی دادی امی کے پاس نہیں گئی۔ وہ دنیا کے لیے مرسکتی تھیں لیکن میرے لیے وہ زندہ تھیں،میرے دل میں زندہ تھیں،میری روح میں زندہ تھیں۔اور آخر کار میری دادی امی اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جاچکی تھیں۔
جب میری دادی امی کو قبرستان لے جایا جا رہا تھا اُس وقت میں اپنے گھر پر تھی اور صوفے پر بیٹھے ہوئے میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میری دادی امی مجھ سے خفا ہیں کہ میں نے اُن کا آخری دیدار کیوں نہیں کیا۔
لیکن اگر میں اُن کی سانسوں کا بند ہوتا دیکھ لیتی تو میں خود بھی مر جاتی۔میں یہ صدمہ برداشت نہ کر پاتی۔
’’کبھی کبھی ہمیں خود کو مضبوط بنانے کے لیے، حالات کا سامنا کرنے کے لیے، وقت سے لڑنے کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں کیونکہ یہ فیصلے ہی ہمیں حوصلہ دیتے ہیں اور ہمیں غلط فیصلہ کرنے سے روک لیتے ہیں۔‘‘
کیونکہ اگر میں اپنی دادی امی کا آخری دیدار کر لیتی تو آج میں اس دنیا میں نہ ہوتی اور اپنی اور اپنی پیاری دادی امی کی محبت سے لپٹی کہانی کو نہ لکھ رہی ہوتی۔
میری دادی امی کو جس دن سپرد خاک کیا گیا، اُس کے اگلے دن میں نے جاگتے ذہن سے محسوس کیا کہ میری دادی امی میرے پیچھے بیٹھی ہوئی ہیں اور میرے کندھے کو سہلا رہی ہیں۔ میں خود کو اس غم سے دور لے جانے کے لیے نیند کا سہارا لے رہی تھی۔ میں نے پھر محسوس کیا کہ میری دادی امی نے میرے ماتھے کو چوما اور مجھے بہت پیار کیا۔
انہی دنوں میں ایک رات میں اپنے بستر پر سوئی ہوئی تھی کہ اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ایک سفید روشنی اُتری ہے جس میں میری دادی امی کھڑی تھیں۔ اُن کے چہرے پر مجھے اپنے لیے بے لوث محبت دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے دیکھا وہ میرے پاس آتی ہیں اور میرے پاس آکر بیٹھی ہیں، اور پھر میں نے دیکھا کہ انھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور میرے ہاتھ کو چوما، بالکل ویسے ہی جیسے جب وہ اس دنیا میں تھیں اور مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ اسی دوران میں نے اپنی آنکھیں جھٹکیں اور وہ محبت سے بھرا روحانی منظر غائب ہو گیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب ہمارے اپنے اس دنیا کو چھوڑ کر جاتے ہیں تو چالیس دن تک اُن کی روحیں زمین پر ہی رہتی ہیں۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری دادی امی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے پورے چالیس دن ہوگئے اور چالیسویں دن کی رات کو میں نے خواب دیکھا کہ میری دادی امی کو ایک ٹرین لینے آئی ہے اور میری دادی امی اُس ٹرین پر چڑھتی ہیں۔میں اُن کے سامنے کھڑی ہوں اور وہ ٹرین کی سیڑھی پر کھڑی ہو کر اپنا داہنا ہاتھ اُٹھا کر ہلاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے مجھے الوداعی خدا حافظ کہہ رہی ہیں۔ ٹرین چلتی جا رہی ہے اور میری دادی امی مجھے اپنا داہنا ہاتھ ہلاتے ہوئے خدا حافظ کرتی جارہی ہیں۔ جب تک وہ ٹرین غائب نہیں ہوتی،تب تک وہ مجھے اپنا داہنا ہاتھ ہلا کر الوداع کہتی جا رہی تھیں۔ پھر دیکھتی ہوں کہ اچانک وہ ٹرین غائب ہو جاتی ہے اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
اُس روز میرے دل نے قدرت کی جانب سے یہ قبول کر لیا کہ میری دادی امی خدا کے مبارک ہاتھوں میں ہیں جہاں انہیں کوئی تکلیف، کوئی اذیت، کوئی دکھ نہیں ملے گا۔
محبت صرف ساتھ رہنا اور پالینے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی محبت کے لیے سکون چاہنے کا نام ہے۔ اُس کی خوشی میں خوش ہونے کا نام ہے۔
اور اس خواب کے ذریعے سے مجھے میری دادی امی اس دنیا کے جھنجٹوں، بیماریوں، دکھوں سے آزاد ہو کر بہت خوش دکھائی دیں اور اُن کی خوشی میں مَیں خوش ہوں۔
’’محبت صرف ہیر رانجھا، سسی پنوں، مرزا صاحباں حتیٰ کہ ماں بیٹی کی ہی نہیں بلکہ دادی پوتی کی محبت بھی امر ہو سکتی ہے،داستان بن سکتی ہے۔اس کا تعلق صرف اور صرف دل سے ہے، روح کی گہرائی سے ہے، قدرت کے منصوبوں سے ہے۔جن دو دلوں میں خدا کی محبت بستی ہے وہ دو دل محبت کی داستان بنتے ہیں۔‘‘
میری دادی امی کی قبر پر میرا نام لکھا ہوا ہے جو قدرت کی منظوری سے ممکن ہوا اور خدا نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں اپنی دادی امی کو اُن کی مجھ سے بے لوث محبت کرنے پر اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کر سکوں۔
مجھے میرے شہر نے میری دادی امی سے بے لوث محبت کرنے پر بہت زیادہ سراہا۔ آج بہت لوگ مجھے میری دادی امی کے نام سے جانتے ہیں۔ لوگ جب بھی مجھے رابعہ انعم کہتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ کہیں گئی ہی نہیں بلکہ مجھ میں سانسیں لے رہی ہیں۔ ہر وقت میرے ساتھ ہیں، میری پر چھائی بن کر۔میری ہر وقت حفاظت کر رہی ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت سادہ ہوں۔ سادہ کیوں نہ ہوں گی، یہ سادگی میں نے اپنی دادی امی سے سیکھی۔
وہ مجھ سے ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ خدا روکھے، مغرور دلوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ خدا بھولے بھالے معصوم دلوں کو پسند کرتا ہے۔ میرے اساتذہ اکرام مجھے بہت معصوم کہتے ہیں۔ یہ معصومیت میری اور سے نہیں ہے بلکہ میری دادی امی سے بے لوث محبت کرنے کے باعث مجھے خدا کی طرف سے انعام ہے کیونکہ خدا معصوم دلوں میں بستا ہے۔
میرا ایمان ہے کہ روز حشر ہم پھر ملیں گے، کبھی نہ جدا ہونے کے لیے، کبھی نہ بچھڑنے کے لیے۔ جہاں کبھی نہ ختم ہونے والے محبت و قربت کے لمحات ہوں گے۔ جہاں خدا خود میری اور میری دادی امی کی روحانی محبت، لاثانی محبت کی مثال دے گا۔
٭٭

Rabia Anum
About the Author: Rabia Anum Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.