معروف ادیب، ممتازافسانہ نگار،صحافی سعادت حسن منٹوکو
وفات پائے68سال ہو گئے مگر آج بھی ان کی تحریریں حسب حال نظر آتی ہیں۔انھوں
نے اردو ادب میں مختصر کہانیوں کے 22 مجموعے، ایک ناول، ریڈیو ڈراموں کی
پانچ سیریز، مضامین کے تین مجموعے اور ذاتی خاکوں کے دو مجموعے تصنیف کئے۔
ان کی بہترین مختصر کہانیوں کومصنفین اور نقاد بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے
ہیں۔ منٹو نے معاشرے کی ان تلخ سچائیوں کے بارے میں لکھا جن کے بارے میں
بات کرنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ان میں سے ایک’’ ٹیٹوال کا کتا ‘‘ہے۔
ٹیٹوال میں دریا کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ سب کچھ دیکھ اور سن سکتے ہیں۔
لیکن بولنا منع ہے۔ پرندے یہاں آزاد ہیں ، مگر انسان پنجرے میں ہیں۔ بے بس
اور محکوم۔ یہاں پہنچ کر منٹو صاحب بے ساختہ یا د آتے ہیں۔ اردوادب میں
منٹو صاحب کی کہانیاں، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، ٹوبہ ٹیک سنگھ کی اپنی اہمیت
ہے۔مگرمنٹو صاحب نے’’ ٹیٹوال کا کتا‘‘افسانے میں دلچسپ منظر کشی کی ہے۔
ایسا لگتا ہے یہ افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی لکھنے
والے خون دل سے لکھا کرتے تھے۔ کئی بار ٹیٹوال کے اس پار ٹھہرنے کا اتفاق
ہوا۔ ٹیٹوال کا نام برسوں قبل سنا تھا۔
ٹیٹوال ایک گاؤں نہیں ایک تاریخ ہے۔ یہ کشمیر کی جنگ بندی لائن پر واقع
ہے۔مقبوضہ کرناہ اور وادی نیلم میں منقسم۔ جغرافیہ اور لوگ دونوں
منقسم۔بوگنہ اور بور کی طرح یہ گاؤں بھی تین اطراف سے جنگ بندی لائن سے
جڑتا ہے۔ اس علاقے کو دریائے نیلم(کشن گنگا)دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
دریا کے ایک طرف ٹیٹوال ہے جو مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے ۔ دوسری جانب چلہانہ
ہے جو آزاد کشمیر کا حصہ ہے۔ ٹیٹوال کے دائیں بائیں بھی آزاد کشمیر کے گاؤں
ہیں۔ ایک طرف میر پورہ اور دوسری جانب وادی لیپہ۔ اب یہ علاقہ ٹیٹوال
چلہانہ کراسنگ پوائینٹ کی وجہ سے معروف ہے۔ 2003کی جنگ بندی معاہدے کے بعد
یہ کراسنگ پوائینٹ جنرل(ر)پرویز مشرف کے دور میں کھلا تھا۔ دریائے نیلم پر
پیدل چلنے کے لئے ایک پل تعمیر کیا گیا۔ پل کا ایک کنارہ آزاد کشمیر اور
دوسرا مقبوضہ کشمیر میں ہے۔ یہ خطہ کشمیریوں کی غیر انسانی اور غیر فطری ،
جبری تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس جنگ بندی لکیر نے دل ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہیں۔سرینگر سے 120اورمظفر آبادسے
تقریبا 40 کلو میٹر کے فاصلے پرٹیٹوال میں بھی پاکستان اور بھارت کی فوجیں
ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مورچہ بند ہیں۔ 1990سے 2003تک یہاں
فائرنگ اور گولہ باری کا مسلسل تبادلہ جاری رہا۔ معصوم لوگ شہید ہوئے۔ سیز
فائرکے بعد سے بھی یہاں بھارت نے جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔60سال بعد
کراسنگ پوائینٹ کھلا۔ کراسنگ پوائینٹ سے مخصوص ایام میں لوگ اپنے بچھڑے
عزیزوں سے ملاقات کے لئے آر پار آتے جاتے رہے۔ یہ پیدل سفر کسی پاسپورٹ یا
ویزے پر نہیں بلکہ پرمٹ پر ہوتا تھا۔ اس پرمٹ پر آپ جنگ بندی لائن کی دوسری
طرف اپنے رشتہ دار کے ہاں پندرہ سے ایک ماہ تک گزار سکتے تھے۔ لیکن واپسی
ضروری تھی۔ پرمٹ ڈپٹی کمشنر جاری کرتا ۔ آزاد کشمیر میں ٹریڈ اینڈ ٹریول
اتھارٹی بنی ۔ جس کی نگرانی میں جنگ بندی لائن کے آر پار تجارت اور سفر
ہوا۔ پرمٹ دونوں طرف کی ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بعد جاری ہوتا ۔ اس کا
ضابطہ سخت رہا۔مگر مودی حکومت نے جنگ بندی لائن پر بس سروسز، تجارت اور
کراسنگ پوائنٹس سب بند کر دیئے ۔جو گزشتہ کئی سال سے بند ہیں ۔ٹیٹوال کا
کتا میں کتے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا
تھا۔اس انسانی مسلے کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔
آج مصنوعی ذہانت کے دور میں دنیا میں روبوٹ فوج کی تشکیل ہو رہی ہے۔ جنگیں
سٹار وارز میں بدل چکی ہیں۔ کشمیریوں کو اب بھی زمانہ قدیم کی پابندیوں میں
جھکڑ کر رکھا جا رہا ہے۔ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحب بصیرت سیاسی اور
سکیورٹی سیٹ اپ ہی اس سٹیٹس کو کو ختم کر سکتا ہے۔ روایتی خانہ پری یوں ہی
رہی تو یہ سلسلہ آئیندہ نسل کو بھی منتقل ہو جائے گا۔ کوئی کچھ نہیں کر
سکتا ۔ ٹیٹوال کی کتے کی طرح بے بس کشمیری۔ بالآخر اس کتے کو ہرنام سنگھ نے
گولی مار کر مار ڈالا۔ پہلے اس کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے لنگڑا کیا گیا۔
جمعدار ہرنام سنگھ نے گولی چلائی لیکن صوبیدار ہمت خان اس کتے کو نہ بچا
سکا۔دونوں منٹو کے افسانے کے کردار ہیں۔ ایک پاکستان کا فوجی ہے ، دوسرا
بھارت کا۔ کسی نے اسے پاکستانی کتا سمجھا اور کسی نے بھارتی۔
بلا شبہ ٹیٹوال کو سعات حسن منٹو کے اس افسانے نے عالمی شہرت دی ہے۔ بلکہ
منٹو خاندان بھی سعادت حسن کے ہی مرہون منت ہے۔منٹونے ٹیٹوال کا کتا افسانہ
اکتوبر 1950میں لکھا ہے۔ یعنی پاکستان ہجرت کرنے کے صرف دو سال بعد۔ منٹو
لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ایک کشمیری خاندان میں۔ تعلیم کے لئے علی گڑھ گئے۔
ابتدا میں روسی اور فرانسیسی لکھاریوں کو پڑھا۔ پھر روسی افسانوں کا اردو
ترجمہ کیا۔ اخبارات میں بطور صحافی بھی کام کیا۔ 21سال کی عمر میں ادب کی
طرف رحجان ہونا غیر معمولی بات ہے۔ علی گڑھ سے لاہور اور پھر ممبئی گئے۔
بمبئی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ فلمی کہانیاں اور ڈائیلاگ لکھے۔
1948میں پاکستان ہجرت تک انھوں نے آتش پارے، چغد، منٹو کے افسانے، دھوں ،
افسانے اور ڈرامے تخلیق کئے۔ ہجرت کے بعد لذت سنگ، سیاہ حاشیئے، بادشاہت کا
خاتمہ، خالی باتیں، لاؤڈ سپیکر، گنجے فرشتے، منٹو کے مضامین، نمرود کی
خدائی، ٹھنڈا گوشت، یزید، پردے کے پیچھے، سڑک کے کنارے، بغیر عنوان کے،
بغیر اجازت، برقعے، سر کنڈوں کے پیچھے، شیطان، شکاری عورتیں، رتی، ماشہ ،
تولہ، کالی شلوار، منٹو کی بہترین کہانیاں، طاہرہ سے طاہران کا انمول کام
ہے۔
منٹو نے ٹیٹوال کا کتا لکھ کر کشمیریوں کی بے بسی کا رونا رویا ہے۔ اس
افسانے میں آمنے سامنے دو پہاڑوں کا منظر۔ ان پر مورچہ زن فوجیوں میں
فائرنگ کا تبادلہ۔ اور پھر بھارتی فوجی کے ہاتھوں مارے گئے کتے کو پاکستان
کی جانب سے شہید اور بھارتی فوجی کی جانب سے’’ وہی موت مرا جو کتے کی ہوتی
ہے‘‘کا جملہ بظاہر افسانوی لگتا ہے۔ لیکن اس کے اندر اس خطے کی حقیقی
صورتحال بیان ہوتی ہے۔
اس تحریر کے 70سال بعد بھی پاکستانی اور بھارت فوجی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ٹیٹوال ہی نہیں پورے جموں و کشمیر میں ہرنام سنگھ
کشمیریوں کو آج بھی شہید کر رہے ہیں جسے وہ کتے کی موت ہی قرار دیتے ہیں۔
ٹیٹوال کے اس پار کھڑے ہونا اور فوٹو اتارنا ہی آج ہمارا مشغلہ بن رہا ہے۔
درد، گھٹن، آہ کی شدت دل کی گہرائیوں میں ٹیسیں مارتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ
سعادت حسن منٹو مرحوم نے اسی مقام پر کھڑے ہو کر کشمیر کے درد کو محسوس کیا
اور اسے اپنے افسانے میں قلم بند کیا۔ منٹو مرحوم کے بغیر یہ کارنامہ شاید
کوئی دوسرا سر انجام دے ہی نہیں سکتا تھا۔ منٹو صاحب کو فوت ہوئے 68سال گزر
چکے ہیں۔ لیکن ان کا کام آج بھی زندہ ہے۔ جو ان کے نام کو امر کر رہا ہے۔
ٹیٹوال وادی نیلم میں واقع ہے لیکن یہ پورے خطے کی حقیقت بیان کر رہاہے۔
|