رجب طیب اردگان ان رہنما وں میں سےایک ہیں جن اچھے لگنے
کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی ۔ دنیا بھرکے انتخاب میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن
ان کے حوالے سےوہ تجسس ، دلچسپی اور فکر مندی نہیں ہوتی جو ترکیہ کے تعلق
سےہوتا ہے۔ اردگان کے انتخاب کی جانب ساری دنیا کے مسلمان متوجہ ہوجاتے
ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوجائیں۔ محبت اور
عقیدت کی بنیاد پر قائم ہونے والایہ قلبی تعلق مادی نفع نقصان سے سے پرے
ہے۔ اس لیے جب یہ خبر آئی کہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں صدر
اردگان نے اپنے مد مقابل کمال کلچدار اولو کو شکست دے دی تودنیا بھرکی امت
مسلمہ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔غزہ میں مٹھائی تقسیم ہوئی۔ 28 مئی کو
دوسری کوشش میں طیب اردگان نے 52.09 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی کامیابی کا
پرچم لہرایا۔ حزب اختلاف کے امیدوار کلچدار اولو 47.91 فیصد ووٹ حاصل کر
سکے۔ گوکہ فرق صرف چار فیصد کا ہے لیکن کامیابی تو کامیابی ہوتی ہے۔ رجب
طیب اردگان کی کامیابی نے اہل ایمان کوخوش کردیا ۔ بیس سال تک اقتدار میں
رہ کر عوام کی ناراضی سے بچے رہنا بے حد مشکل ہدف تھا لیکن بقول احمد
فراز(مع ترمیم)؎
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا تھا
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا تھا
رجب طیب اردگان کی جیت کی ایک نظریاتی تاریخ بھی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کی فوج
کے سابق کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک نے پورے سوسال قبل 1923 میں خلافت
عثمانیہ کا خاتمہ کرکے سیکولر زم کو بزور قوت ملک پرمسلط کر دیاتھا۔ اتاترک
اور ان کے جانشین فوجیوں نے چارمنتخبہ حکومتوں کومحض اس لیے گرادیا کہ ان
کے نزدیک عوام کی تائید سے قائم ہونے والی ان سرکاروں سے سیکولرازم کے
نظریے کو خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ اس طرح کئی دہائیوں تک ساری دنیا نے ترکیہ
میں سیکولر جمہوریت کےدیو استبداد کا ظلم و جبر دیکھا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ
موجودہ صدر رجب طیب اردگان کو بھی 1999 میں سیکولر ریاست پر تنقید کرنے کی
پاداش میں جیل جانا پڑا لیکن وہ حربہ نا کام ر ہا۔ چار سال بعد سنہ 2003
میں اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے قوم کو سخت گیر سیکولر طرز حکمرانی سے
نجات دلائی ۔ اس وقت ملک اور بیرونِ ملک میں لوگ باگ فوج کے حوالے سے مختلف
اندیشوں کا شکار تھے لیکن وہ سیل رواں رک نہیں سکا اور کامیابی کے ساتھ
دودہائیوں کا سفر پورا کیا۔ اس طرح گویا مصطفیٰ کمال اتاترک کے نظامِ جبر
کو ایک صدی کے بعد ٹھکانے لگا دیاگیا۔ رجب طیب اردگان کی مقبولیت کا راز اس
عظیم کارنامہ میں پنہاں ہے۔ اپنی حالیہ کامیابی کے بعد انہوں نے اعلان کیا
کہ ’آپ نے ہمیں دوبارہ یہ ذمہ داری دی ہے۔ ہم سب مل کر اسے ترکی کی صدی
بنائیں گے۔‘
بیس سال قبل اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد رجب طیب اردگاں نے نہایت
صبرو استقامت کے لادینیت کی بیخ کنی کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے مذہبی قوانین
نافذ کیے۔ گیارہ سالوں تک وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سنہ 2014 میں
انہوں نے آئینی ترمیم کرکے ملک میں صدارتی نظام رائج کیا ۔ پارلیمانی طرزِ
حکومت میں جوڑ توڑ کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں تیس پینتیس فیصد
ووٹ حاصل کرکے بھی سرکار بنا لیتی ہیں۔ ایسے میں ایک نہایت جرأتمندانہ
اقدام کے ذریعہ انہوں نے عوام کوبراہ راست اپنی رائے سے سربراہِ مملکت
منتخب کرنے کا موقع دیا ۔ اس میں یہ شرط بھی تھی کہ کامیاب امیدوار کے لیے
پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔ یہ فیصلہ اردگان کی خود
اعتمادی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اس کے بعد دو مرتبہ صدارتی انتخاب جیت کر
انہوں نے اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔ طیب اردگان کی جماعت کو 600 ؍ارکان
والی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل ہے ۔رجب طیب اردگان کی مقبولیت ملک
وبیرونِ ملک میں دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا بنی رہی۔ انتخابی میدان میں پے
درپے ناکامیوں کے بعد انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر سنہ 2016 میں
ایک فوجی بغاوت بھی کی گئی مگر اس پر قابو پانے کے بعد ان کی مقبولیت میں
چار چاند لگ گئے۔
ترک صدر طیب اردگان کے لیے دو دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد مسلسل
تیسری بار صدر منتخب ہونا نہایت مشکل چیلنج تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ایک
مصلح کے طور پر انسانی حقوق اور آزادیوں کو توسیع دےکر انہوں نے اکثریتی
مسلم ملک ہونے کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت کے لیے راہ ہموارکی مگر پھر
مغرب ان کے پیچھے پڑگیا۔ ان پر اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
کرنے اور میڈیا کا گلا گھونٹنے کے الزامات لگائے گئے۔ اس کے ساتھ انتخاب سے
قبل معاشی بدحالی، بلند افراط زر نے لوگوں کو پریشان کررکھاتھا۔ اس دوران
ملک کے حصے میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے معیشت کا بحران سے بڑھا دیا۔ اس
کے بعد تین ماہ کے اندر صدارتی اورپارلیمانی انتخابات کا سامنا کرنا آسان
نہیں تھا۔ وہ ملک کی خستہ حالی کا بہانہ بناکر انتخابات ملتوی کرسکتے تھے
لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا ایسا اقدام کمزوری کی علامت گردانا
جاتا اور ایردوان جیسے رہنما کے لیے بزدلانہ شبیہ سے زیادہ نقصان دہ کچھ
بھی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمت کے ساتھ پیش قدمی کا ارادہ کیا ۔
مثل مشہور ہے’ہمتَ مرداں مدد خدا‘ رجب طیب اردگان کے اس توکل پر نصرت الٰہی
شامل ہوئی اور کامیانی سے ہمکنار کردیا۔ اس نوید صبح پر شاعر کہتا ہے؎
لباس صبح میں ہے کوئی رہبر صادق
جگا رہی ہے اندھیرے کو روشنی کی پکار
27 مارچ 1994کورجب طیب اردگان نے اپنے سیاسی سفر کی ابتداء استنبول شہر کے
مئیر کی حیثیت سےکی تھی ۔ اگست 2001 میں انہوں نےجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(اے کے پی) کی بنیاد رکھی۔3 نومبر 2002کو اے کے پی نے عام انتخابات میں
اکثریت حاصل کر لی، تاہم سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے اردگان انتخابات میں حصہ
نہیں لے سکے تھے۔9 مارچ 2003 کو سیاسی پابندی ہٹائے جانے کے بعد ایک ضمنی
انتخاب میں وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور پانچ روز بعد وزیر اعظم کا
عہدہ سنبھال لیا۔اردگان نے اکتوبر 2005 میں ترکی کو یورپی یونین میں شامل
کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ 22 جولائی 2007کو
46.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے اردگان نے دوسری پارلیمانی جیت درج کرائی ۔اس طرح
ان کے اعتماد میں جو اضافہ ہوا تو انہوں 20 اکتوبر 2008کو حکومت کا تختہ
الٹنے کی سازش میں ملوث فوجی افسران اور دیگر عوامی شخصیات کے خلاف مقدمہ
چلا کر ان کو کمزور کردیا۔ 12 ستمبر 2010 کو ایردوان نے بڑے پیمانے پر
آئینی تبدیلیاں کرکے استصواب کرایا اور کامیابی حاصل کی۔ اس طرح عوام کی
منتخبہ حکومت کو ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری اور فوج کے اختیارات کم کرنے
کا اختیار مل گیا۔ یہ اصلاحات نہ ہوتیں تو عوامی حکومت پراس فوج اور عدلیہ
کی تلوار لٹکی رہتی جس نے ماضی میں چار مرتبہ بزور قوت اپنی آمریت قائم
کردی تھی۔
ان اصلاحات کے بعد 12 جون 2011کو منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں اے
کے پی نے 49.8 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ 28 مئی 2013 کو ترکی کے سب
سے بڑے شہر استنبول سے ان کے خلاف احتجاج شروع ہوا اور ملک بھر میں پھیل
گیا۔ اس طرح دنیا بھر میں یہ ماحول بنایا گیا کہ رجب طیب اردگان کے د ن لد
گئے ہیں مگرایک سال بعد 10 اگست 2014ایردوان نے براہ راست انتخاب کے ذریعے
ترکی کا پہلا صدراتی انتخاب جیت کر اس غبارے کی ہوا نکال دی۔اس کے بعد ہونے
والے پارلیمانی انتخاب میں 7 جون 2015کواے کے پی نے پارلیمان میں اپنی
اکثریت کھو دی لیکن جب نومبر میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو پارٹی نے اپنی
کھوئی ہوئی ساکھ پا لی۔16 اپریل، 2017 کو ایک اور ریفرنڈم کرایا گیا جس میں
ترک رائے دہندگان نے ملک کی پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی نظام میں بدل دیا۔
پچھلا صدارتی انتخاب 24 جون 2018 کو منعقد ہوا تھا۔ اس میں اردگان نے 52.59
فیصد ووٹ حاصل کیے۔حالیہ انتخاب سے قبل 6فروری 2023کو ایک طاقتور زلزلے نے
ترکی کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا۔ شام سمیت ترکی میں 50,000 سے زیادہ افراد
لقمۂ اجل بن گئے۔ اردگان حکومت پراس قدرتی آفت نمٹنے پر تنقید کی گئی۔ یہی
وجہ ہے غالباً کے اس بار اردگان کوکامیابی کے لیے دوسرے مرحلے کا انتظار
کرنا پڑا۔
یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ اس بار انتخابی نتائج کا اعلان 29 مئی کوہوا۔
1453میں اسی دن سات سو سال کی جدوجہد کے بعدمسلمانوں نے قسطنطنیہ کو فتح
کیا تھا۔اس واقعہ نے دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم کرکے نئے دور کی ابتدا
کی تھی۔ 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والا رومن سامراج 1480 برس کے بعد اپنے
انجام کو پہنچا تھا اور عثمانی سلطنت نے اگلی چار صدیوں تک ایشیا، یورپ اور
افریقہ میں اپنی شجاعت کے جھنڈے گاڑے۔29 مئی 1453 کو ارسطو، افلاطون،
بطلیموس، جالینوس اور دوسرے حکما و علما کےقرونِ وسطیٰ کا اختتام اور جدید
دور کا آغاز مانا جاتا ہے۔ یہیں سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کی داغ بیل پڑی
جوہنوز یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں غالب ہے۔ اس کے باوجود سقوطِ
قسطنطنیہ یوروپ کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا اور وہ اسے بھولنے سے قاصر
ہے۔ صدیوں پرانایہ صدمہ ہنوز یورپی یونین میں ترکیہ کی شمولیت پر سوالیہ
نشان لگادیتا ہے۔یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہےکیونکہ
29 مئی 1453 کو یہی دن تھا۔اردگان کی کامیابی اور عالمی تذبذب پر روش صدیقی
یہ شعر صادق آتا ہے؎
کہیں فسانۂ غم ہے کہیں خوشی کی پکار
سنے گا آج یہاں کون زندگی کی پکار
|