نظام ِعدالت:کسی پر قیامت کسی پر عنایت

وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی اعظم خاں سے کینہ پروری بے مثال ہے۔پچھلے سال اعظم خان کو طویل عرصہ گزارنے کے بعد رہا توکیا گیا تھا لیکن ان کے خلاف مقدمات کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوا ۔ ایک کیس ختم نہیں ہوتا کہ اس سے پہلے دوسرا شروع ہوجاتا تھا یہاں تک کہ ایسی صورتحال پیدا کردی گئی وہ نہ تو الیکشن لڑ سکتے تھے اور نہ ہی ووٹ دے سکتے تھے۔اس کے علاوہ وہ صحت کے بھی کئی مسائل سے پریشان ہیں۔ ایسے میں اچانک ایک فرطِ مسرت کا جھونکا آیا۔ اعظم خان کو ایم پی-ایم ایل اے کورٹ (سیشن ٹرائل) نے نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام سے بری کر دیا ۔ یہ فیصلہ یوگی ادیتیہ ناتھ کے لیے ایک زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں تھا۔ اس معاملے میں، ایم پی-ایم ایل اے (مجسٹریٹ ٹرائل) کی عدالت نے اعظم خان کو 27 اکتوبر 2022 کو تین سال کی سزا سنائی تھی ۔اس کے بعد ان کو اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔اس فیصلے کے خلاف اعظم خان نے سیشن کورٹ میں اپیل کی تھی۔ اس معاملے میں 70 صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ایم پی-ایم ایل اے سیشن کورٹ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد کورٹ آف مجسٹریٹ ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اعظم خان کے خلاف یہ مقدمہ بڑے دلچسپ انداز میں ختم ہواکیونکہ نفرت انگیز تقریر کا مقدمہ درج کرنے والے شخص نے یہ کہتے ہوئے اپنی شکایت واپس لے لی ہے کہ میں نے یہ شکایت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انجنیا سنگھ کے دباؤ میں کی تھی۔ ایم پی ایم ایل اے کورٹ کے جج امیت ویر سنگھ نے شکایت کنندہ انیل کمار چوہان کا بیان ریکارڈ کیا اور اس کے بعد زیریں عدالت کے اس فیصلے کو پلٹ دیا جس میں ایس پی لیڈر کو سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ اعظم خان نے کوئی فرقہ وارانہ بیان نہیں دیا اور نہ ہی ان کا بیان تشدد کو بھڑکانے والا تھا۔ عدالت نے یہ بھی پایا کہ ڈی ایم اور اعظم خاندان کے تعلقات ناخوشگوار تھے۔اس متنازع فیصلے کے بعد رام پور صدر سیٹ کے ضمنی انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار آکاش سکسینہ نے عوامی نمائندگی ایکٹ کی مختلف دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے اعظم کے ووٹنگ کے حقوق کو چھیننے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھاتھا۔ اس کے بعد اعظم خان کی اسمبلی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ یہ ادھورا انصاف ہے عدالت کو چاہیے کہ دباو ڈال کر جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے انجنیا سنگھ اور آکاش سکسینہ کو بھی قرار واقعی سزا دے ۔ویسے رام پورضمنی انتخاب میں شکست خوردہ ایس پی امیدوار عاصم راجانے بی جے پی پر بدعنوانیوں کا الزام لگایا ہے اور ان کی عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے بی جے پی رکن اسمبلی آکاش سکسینہ کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس مقدمہ کی اگلی سماعت اگست کے پہلے ہفتہ میں کی جائے گی اگر وہاں بھی بی جے پی کو جوتا پڑجائے تو اس کے لیے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا۔

عدالت کےاس واضح فیصلے کے بعد بھی اعظم خان کی رکنیتِ قانون سازی کا بحال ہونا مشکوک ہے کیونکہ چھجلت کیس میں بھی مراد آباد کی عدالت نے اعظم خان اور ان کے بیٹے عبداللہ اعظم کو دو سال قید کی سزا سنائی تھی۔ پھر بھی یوگی کے لیےیہ بڑی شکست ہے کیونکہ انہوں نےاعظم خان کے خلاف رام پور کے مختلف تھانوں میں لوٹ، ڈکیتی، ڈرانے دھمکانے، چوری، زمین پر قبضے وغیرہ کے الزام میں 87 مقدمات درج کروائے۔ سال 2019 میں عظیم نگر پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف کسانوں کی زمین قبضہ کرنےاور ملک میں ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں مقدمات درج کیے گئے ۔ ان بے سروپامقدمات کی سماعت ایم پی-ایم ایل اے کورٹ (مجسٹریٹ ٹرائل) میں چل رہی ہے۔ اسی طرح کے مقدمات ان کی اہلیہ ڈاکٹر تزئین فاطمہ اور بیٹے عبداللہ اعظم کے خلاف درج کیے گئے۔ ایک زمانے میں وہ تینوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے لیکن اب سب ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔اعظم خاں کے بیٹے عبداللہ اعظم پردو پاسپورٹ رکھنے کا الزام لگا کر سال 2019 میں بی جے پی لیڈر آکاش سکسینہ نے مقدمہ درج کرایا تھا۔اس میں بھی عدالت نے عبداللہ اعظم کی ضمانت منظور کر لی تھی۔

وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ تو خیر اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کی خاطر عدلیہ کا استعمال کرتے ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اس معاملے میں ان سے بہت آگے ہیں۔ ان کے لیے وزارت انصاف سودے بازی کا وسیلہ ہے۔ اسی لیے پچھلے دنوں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے ذریعہ سابق وزیر قانون کرن رجیجو کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ صدر مملکت نےایک اعلامیہ جاری کرکےکہا کہ وزیر اعظم کے مشورے پر انہیں مرکزی وزراء کی کونسل میں محکموں کی تقسیم نو کی ہدایت کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔اس پیغامِ مسرت نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کو بھی خوش کردیا ہوگا کیونکہ لندن کے سفر کی تنقید میں کرن رجیجو اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے بھی آگے چین تک نکل گئے تھے۔ غیر متوقع طور پر ہونے والی اس وزارتی ردو بدل میں ارضیاتی سائنسز کی وزارت کا قلمدان کرن رجیجو کو تفویض کیا گیانیز ارجن رام میگھوال کو ان کی جگہ موجودہ محکموں کے ساتھ قانون اور انصاف کی وزارت میں وزیر مملکت کا آزادانہ چارج دے دیا گیا۔

اس فیصلے سے حکومت کی نظر میں وزارتِ قانون و انصاف کا قلمدان کی بے وقعتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کابینی وزیر کے بجائے ایک وزیر مملکت کو دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ اضافی طور تھما دینا اس عہدے کی توہین ہے۔ اس پر پہلے ارون جیٹلی فائز تھے اس کے بعد روی شنکر پرشاد اور کرن رجیجو آئے اور اب میگھوال جیسے ہلکے پھلکے سیاستداں کویہ قلمدان سونپنا اس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ سرکار کے نزدیک عدل و انصاف کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس فیصلے نے بی جے پی کے ایک فائر برانڈ ترجمان کو انصاف کے ترازو سے ڈھکیل کر دھول چٹا دی یعنی حشرات الارض کی مانند ارضیاتی سائنس کے شعبے کا ذمہ دار بنا دیا۔ اس فیصلے پر صدر مملکت کے علاوہ مودی جی تو خوش ہوئے ہوں گے مگر کرن رجیجو کے لیے یہ بہت بری خبرہے۔ ان کے اندر اس رسوائی کے خلاف بغاوت کرنےکی ہمت ہو تی تواستعفیٰ دے دیتے لیکن اس صورت میں پہلے تو ای ڈی یا سی بی آئی کا چھاپہ پڑتا اورپھر سابق وزیر قانون پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چکی پیسنے کی نوبت آجاتی ۔

مودی حکومت میں کرن رجیجو کو مختلف قلمدانوں پر فائز کرنے کے بعد وزارت قانون کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر اس سے انہیں محروم کرنے کے بعد جس ارجن رام میگھوال کو یہ کام سونپا گیاوہ پہلے ہی پارلیمانی امور کے علاوہ ثقافت کی وزارت سنبھال رہے ہیں۔ 2009 سے ایوانِ پارلیمان میں بیکانیر کی نمائندگی کرنے والے میگھوال ماضی میں راجستھان کیڈر کے آئی اے ایس افسر رہ چکے ہیں۔ انہیں ریاست میں درج فہرست ذات کا چہرا مانا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کو عنقریب راجستھان میں ہونے والے صوبائی انتخاب سے جوڑا جارہا ہے لیکن ایسی بات نہیں ہے کیونکہ میگھوال کو کوئی نئی ذمہ داری نہیں ملی اور نہ ترقی دے کر انہیں کابینی درجہ دیا گیا ۔ اس لیے ایک وزیر مملکت کے پاس اس اضافی ذمہ داری سے کوئی خاص سیاسی اثرات نہیں پڑیں گے الٹا اروناچل پردیش کے لوگ اس سے ناراض ہوسکتے ہیں کیونکہ وہاں سےکرن رجیجو 2014 میں کامیاب ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کو اپنی کابینہ میں وزیر مملکت برائے داخلہ بنایا ۔ مودی حکومت کے دوسرے دور میں (2019) میں درجہ گھٹا کر انہیں وزیر کھیل (آزادانہ چارج) مقرر کیا گیا۔ جولائی 2021 کے اندر کابینہ میں توسیع کے دوران انہیں ترقی دے کر روی شنکر پرساد کی جگہ وزیر قانون بنا دیا گیااور اب ارضی سائنس کا قلمدان ۔ یہ ایک کٹر بھگت کی توہین و تضحیک نہیں تو اور کیا ہے؟

کرن رجیجو کے عبرتناک انجام میں ان مودی بھگتوں کے لیے عبرت کا سامان ہے جو اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مودی جی کا کوئی قریبی سرمایہ دار مشکل میں پھنس جائے تو اسے بچانے کی خاطر ان کے عزت و وقار کو بہ آسانی بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کی رپورٹ میں موجودہ بحران کے لیے کئی سال محنت کرکے اڈانی کی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والے ادارےہنڈن برگ کو ہی الٹا قصور وار ٹھہرا کر اڈانی کو بالکل پاک صاف بتایا گیا ہے۔ اب تک کی تحقیقات میں سیبی کو اڈانی کی طرف سے کوئی گڑبڑی نہیں دکھائی پڑی اور نہ یہ پایا گیا کہ حصص کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے مصنوعی تجارت یا کوئی اور بددیانتی کا سہارا لیا گیا تھا۔رپورٹ یہ کہتی ہے کہ اس کے باوجود ہنڈن برگ جیسی کچھ تنظیموں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا نے کے لیے شارٹ پوزیشن لی اور بعد میں منافع کمایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسٹاک مارکیٹ کے موجودہ ریگولیٹری نظام میں کوئی جھول نہیں پایا جاتاتو وہ لوگ اس کا سے فائدہ اٹھانے میں کیونکر کامیاب ہوگئے؟ رپورٹ کہتی ہے کہ سیبی کو حاصل بے شمار اختیارات کے باوجود اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔یعنی سیبی جیسے صحتمند ادارے کو بھی دوا دارو درکار ہے۔ وطن عزیز میں اعظم خان جیسے سیاستدانوں کو پھنسانے اور اڈانی جیسے سرمایہ داروں کو بچانے کے لیے عدلیہ کا بے دریغ استعمال شرمناک ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.