فارسی کاایک شعر ہے۔
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم مے شود پرہیزگار
(اس کا مطلب ہے کہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے۔ بڑھاپے میں تو
ظالم بھیڑیا بھی پرہیز گار ہو جاتا ہے)۔
گذشتہ روز میں اپنے ایک مہر بان دوست کے پاس بیٹھا تھا۔ پوچھنے لگے کتنی
عمر ہو گئی ہے۔ میں نے بتایا کہ بہتر (72) پلس ہوں تو کہنے لگے اب تمہاری
عمر ایسی ہو گئی کہ زندگی کے بکھیڑوں کو چھوڑ کر روحانی علم کی جستجو
کرو۔اسے سیکھو، خود کو اس کی طرف مائل کرو اور یہ کام کوئی بہت مشکل نہیں ،
تھوڑی سی محنت سے سیکھ سکتے ہو۔ان کا کہنا اور میری بہتری کا سوچنا میرے
لئے ایک اعزاز تھا مگر کیا کروں، مومن خان مومن نے بہت خوب کہا ہے کہ
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
روحانی راستہ یا تصوف حقیقت میں خدا کی ذات کو جاننے کی سعی ہے۔یہ بڑا کٹھن
راستہ ہے جو بغیر استاد کے ، اور استاد بھی ایسا کہ جو ان منزلوں سے گزرا
ہو اور ایسا کامل کہ سلوک کی ساری منزلوں سے آشنا بھی ہو ۔ تقویٰ جس کا
لباس ہو اور بدترین گنہگار بھی جب اپنی اصلاع کے لئے اس کے پاس آئیں تو ان
کی کایا پلٹ جائے۔لاکھوں لوگ اس منزل کی طرف گامزن ہوتے ہیں مگر چند ہی
ایسے ہوتے ہیں جو آخری منزل تک پہنچتے ہیں۔ لیکن انسان اس علم کو سیکھنے کی
ابتدا کے بعد کسی بھی منزل تک پہنچ جائے وہ کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے۔اسے
ہر منزل پر ایک خاص لطف و سرور حاصل ہوتا ہے۔اس میں اخلاق حسنہ پیدا ہو
جاتا ہے، وہ عاجزی اور انکساری اپنا لیتا ہے اور خلق خدا کی بھلائی کا
سوچنے لگتا ہے۔
اس کٹھن راستے میں سلوک کی دو منزلیں یادو عالم طے کرنے ہوتے ہیں۔ پہلا
عالم خلق کا اور دوسرا عالم امر کا۔عالم خلق کی پانچ منزلیں ہیں، ناسوت ،
ملکوت، جبروت، لاہوت اور ہاہوت۔ تھوڑی سی محنت ، توجہ اور استاد کی صحیح
پیروی سے انسان پہلی دو منزلیں ناسوت اور ملکوت آسانی سے طے کر لیتا
ہے۔تیسری منزل جبروت ایک اعلیٰ اور مرتبے والا مقام ہے۔ یہاں انسان اپنے
غصے اوراپنی انا پرستی پر قابو پانا سیکھتا ہے ۔ اگر یہ چیزیں باقی رہیں تو
انسانی جلالی کیفیت میں آ جاتا اورراستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اگلی منزل لاہوت
ہے ۔ یہ بڑی اہم منزل ہے اور اسے عبور کرنے کے لئے انسان کو اپنی طبیعت میں
بے انتہا نرمی، لطافت اور شائستگی پیدا کرنی ہوتی ہے۔ انسان اس منزل پر
اپنی ساری اخلاقی کمزوریوں پر قابو پانا سیکھتا ہے۔اس منزل کو کامیابی سے
سر کرنے پر انسان اگلی یعنی ہاہوت کی منزل پر پہنچ جاتا ہے ۔ یہ عالم خلق
کی آخری منزل ہے ۔ یہاں سے آگے دوسرا عالم شروع ہو جاتا ہے جسے ہو کی منزل
کہتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان کے دل میں دنیا کی رغبت رائی کے دانے
جتنی بھی نہیں رہتی۔ یہ فنا کی منزل ہے جہاں انسان اپنی ذات رب کی ذات میں
کھو دیتا ہے۔ یہاں انسان دنیا کے بارے کم سوچتا اور اسے ذکر رب میں مزہ آتا
ہے۔مگر یہاں تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے اور یہاں تک آنے کے لئے بہت
کچھ کھونا پڑتا ہے۔کسی شاعرنے کہا ہے،
فقیرا فقیری دور ہے
جیسے اونچی کجھور ہے
چڑھ جائیں تو چوسیں پریم رس
گر جائیں تو چکنا چور ہے
چند سال پہلے مجھ پر بھی ایک کیفیت طاری تھی۔ میں تھوڑی بہت عبادت بھی کرتا
تھا۔ذکر بھی اک عادت تھی۔لگتا تھا کہ میں سلوک کی منزلوں کا مسافر ہو گیا
ہوں اس دوران مجھے کچھ ایسی چیزیں بھی ہوتی نظر آئیں جنہیں میں الفاظ میں
قلمبند نہیں کر سکتا۔حضور رسول کریم سے عقیدت کی انتہا تھی۔ ان دنوں میں
عمرے پر گیا۔ خانہ کعبہ میں اک جنون کی کیفیت تھی ۔ اک لگن تھی ،ایک ٹرپ
تھی کہ بس وہیں بیٹھا رب کے سامنے سجدہ ریز رہ کر بقیہ عمر گزار دوں۔ تین
چار دن وہاں گزارنے کے بعد میں روضہ رسول پر حاضری کے لئے مدینے کو چل پڑا۔
بڑا اشتیاق تھا۔ بڑے ذوق اور شوق سے دیار حبیب پر حاضری دی کہ ایک مسلمان
کی ساری زندگی کا بہترین سرمایہ ہی حضور کی عقیدت ہوتا ہے۔مگر چند گھنٹوں
بعد میں کچھ گم سم ہو گیا۔ایسے جیسے کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لگتا
تھا کوئی قوت مجھے پھر خانہ کعبہ کی طرف بلا رہی ہے۔ مکہ کی زیارت کے دوران
اک جوش اک ولولہ تھا مگر دربار رسول میں اک سکون تھا۔ پتہ نہیں مجھ سے کیا
غلط سرزد ہوا کہ میں جتنے چاؤ اور جتنی لگن سے مدینہ منورہ پہنچا تھا وہ سب
کھو سا گیا۔میں بڑے سکون سے بس روضہ رسول کے سامنے بیٹھا دعا کرتا رہاوہ
بھاگ دوڑ جو مکہ میں خانہ خدا کے سامنے تھی وہ نہیں تھی۔ شاید دونوں جگہوں
کا مزاج بھی مختلف ہے ۔خانہ کعبہ میں گرمی جذبات کا سامنا ہوتا ہے جب کہ
روضہ رسول پر ٹھنڈک اور سکون ہے۔ تین چار دن بعد میں واپس مکہ آ گیا۔مکہ
میں البتہ آخر تک اک جنون کی کیفیت طاری رہی۔وہاں سے آنے کو دل چاہ نہیں
رہا تھا مگر ویزے کی مجبوری تھیجو ختم ہوا چاہتا تھا۔ پھر یہاں پاکستان
واپس آکر میں آلام زمانہ میں ایسا الجھا کہ اب اس طرف توجہ ہی نہیں کی۔اب
تو نماز بھی کبھی کبھار ہی پڑھتا ہوں ۔ جس کے لئے روز شرم ساری میں رب سے
معذرت بھی کرتا ہوں ۔ لیکن سستی ہے ۔ میرے چند دوست بھی میری اس سستی کی
وجہ سے ناراض ہیں مگر کیا کروں۔یقین ہے کہ میرا رب رحیم ہے اور کریم ہے۔وہ
میری سستی کو نظر انداز کرے گا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں فلاں کام نہیں کر
رہا، شاید اﷲکی مرضی نہیں ۔ میں اس چیز کا کم قائل ہوں ۔ انسان کو اﷲکسی
چیز سے نہیں روکتا۔ انسان کے تمام مسائل کا نوے فیصد تک انسان خود ذمہ دار
ہوتا ہے۔ میں نصیحت کرنے والے تمام دوستوں کا مشکور ہوں کہ وہ میری بھلائی
کے طلب گار ہیں اور کوشش کروں گا کہ ان کی کہی ہوئی باتوں پر عمل کروں۔ |