پلاسٹک خور پاکستانی​

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے زیراہتمام سن 1973 سے ہر سال 5 جون کو تحفظ ماحولیا ت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس سال ماحولیات کا عالمی دن منانے کے پچاس سال مکمل ہونے کا جشن بھی منایا جارہا ہے جس کی میزبانی افریقہ کامغربی ساحلی ملک”کوٹ ڈیوائر“ کر رہا ہے۔اس جشن میں دنیا بھر سے لاکھوں لوگ شرکت کریں گے۔ماہرین کے مطابق ماحولیات پر سب سے زیادہ برا اثر پلاسٹک کا ہورہا ہے جس کی وجہ سے موجودہ ماحولیاتی تحفظ کے عالمی دن کا تھیم ہے ”BeatPlasticPollution“۔اسی تھیم کے تحت پلاسٹک کی روک تھام کے لئے عالمی یوم ماحولیات 2023 کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے#BeatPlasticPollution موومنٹ میں شمولیت کے لئے دنیا بھر کے افراد کو دعوت دی گئی ہے۔

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 400 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار ہوتا ہے، جس میں سے نصف کو صرف ایک بار استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیاجاتا ہے جبکہ اس میں سے 10 فیصد سے بھی کم پلاسٹک کوری سائیکل کیا جاتا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سالانہ 19 سے23 ملین ٹن تک پلاسٹک جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرجھیلوں،دریاوں اورسمندروں میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کو اکٹھا کرکے اس کا وزن کیا جائے تو یہ دو ہزار سے زائد آئفل ٹاورز کے وزن کے برابر ہوگا۔

ماحولیات کا سب سے بڑا خطرہ مائیکرو پلاسٹک ہے۔مائیکرو پلاسٹک 5 ملی میٹر قطر تک پلاسٹک کے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو خوراک، پانی اور ہوا میں باآسانی شامل ہوجاتے ہیں اور ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتاکہ ہم اپنی خوراک،ہوا اور پانی کے ذریعے ہر وقت پلاسٹک کھارہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کرہ ارض پر رہنے والاہر فرد سالانہ 50,000 سے زیادہ پلاسٹک کے ذرات کھاجاتا ہے اور اگر سانس کے ذریعے پلاسٹک انسانی جسم کے اندر داخل ہونے کا اندازہ لگایا جائے تو اس کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

جب ہم استعمال شدہ پلاسٹک کوپھینک دیتے ہیں یا اس کو جلادیتے ہیں تو انسانی صحت اور حیاتیاتی تنوع کواس سے شدیدنقصان پہنچتا ہے اس عمل کا اثر پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر سمندر کی گہرائی تک پڑتا ہے اورماحولیاتی نظام مکمل طور پرآلودہوجاتا ہے۔پلاسٹک سمندری گندگی کا سب سے بڑا مستقل حصہ ہے جو سمندری فضلہ کا کم از کم 85فیصد بنتاہے۔موجودہ صدی میں گلوبل وارمنگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے انسانی صحت کو گلوبل وارمنگ کے نقصانات سے بچانے کے لئے اسے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنا ضروری ہے جس کے لیے سن 2030 تک سالانہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو آدھا کرنا ہوگا اگر بروقت حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے تو فضائی آلودگی ایک دہائی کے اندر 50 فیصد تک بڑھ جائے گی اور آبی ماحولیاتی نظاموں میں بہنے والا پلاسٹک کا فضلہ تقریباً تین گنا بڑھ جائے گا۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ سموگ ہے۔سموگ کی وجہ سے کئی مرتبہ لاہور عالمی رینکنگ میں نمبر ون پر آچکا ہے۔سموگ دھویں اور دھند کے مرکب کو کہا جاتا ہے جب یہ اجزا ملتے ہیں تو سموگ پیدا ہوتی ہے۔ اس دھویں میں کاربن مونو آکسائید، نائٹروجن آکسائیڈ میتھن جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔گاڑیوں کے دھویں کے علاوہ دیگر ذرائع مثلا بھٹوں،فیکٹریوں اور فصلوں کی باقیات کو جلانے سے جو ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے وہ سموگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 7532 بھٹوں میں سے ابھی تک صرف 695 زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوسکے جبکہ فیکٹریوں اور بھٹوں سے نکلنے والا دھواں 23فیصد جبکہ فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا آلودگی کا تناسب 12فیصد قرار دیا گیا ہے،اس آلودگی کی وجہ سے ایئر کوالٹی کا انڈیکس بڑھ جاتا ہے۔ماحولیات کے تحفظ کے لئے سن 2040 تک ان اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

Dr Jamshed Nazar
About the Author: Dr Jamshed Nazar Read More Articles by Dr Jamshed Nazar: 48 Articles with 22724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.