دمدار ستارے کی موت

فلکیاتی سائنس کا ایک محیر العقول واقعہ۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ جب سائنسدانوں نے دو اجرام فلکی کا ٹکراؤاپنی آنکھوں سے دیکھا

مشتری پر دمدار ستارے کے ٹکراؤ کے نشانات

فلکیاتی سائنس کا ایک محیر العقول واقعہ۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ جب سائنسدانوں نے دو اجرام فلکی کا ٹکراؤاپنی آنکھوں سے دیکھا -

اللہ رب العزت کی کائنات بہت وسیع ہے۔لاکھوں کروڑوں ستارے اور سیارے اس کائنات میں تیر رہے ہیں جن میں سے چند ایک تو ہم دیکھتے ہیں اور کروڑوں ایسے ہیں جن تک کسی انسانی آنکھ کی آج تک رسائی نہیں ہو سکی۔ ہمارا نظام شمسی آٹھ سیاروں اور ایک ستارے یعنی سورج پر مشتمل ہے۔اس پورے نظام شمسی کی حیثیت اس کائنات میں اتنی بھی نہیں جتنی پولو گراؤنڈ میں پڑے ہوئے مٹر کے ایک دانے کی ہوتی ہے۔ ہمارا پورا نظام شمسی جس کہکشاں کے بیرونی کنارے پر واقع ہے، اس کہکشاں کے مرکز سے ہمارا سورج چھبیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ روشنی ایک لاکھ چھبیس ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے اسے ایک نوری سال کہتے ہیں۔ اس کہکشاں کی لمبائی ایک اندازے کے مطابق اسی ہزار نوری سال سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال ہے۔اگر ہمارا سورج اس کہکشاں کے گرد صرف ایک چکر لگانا چاہے تو اسے دو سو سے دوسوپچاس ملین سال درکار ہوں گے۔ اس کہکشاں کے مدار میں ہمارا پورا نظام شمسی دو سو پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگا جا رہا ہے۔یہ کہکشاں دو سو بلین ستاروں پر مشتمل ہے۔ ہارلو شیپلے نامی ایک امریکی سائنسدان نے اس کہکشاں کے بارے میں معلومات انیس سو اٹھارہ میں جمع کی تھیں۔

یہ تو ایک کہکشاں کی بات ہے اس جیسی لاکھوں کہکشائیں اور ہمارے سورج جیسے لاکھوں سورج رب ذوالجلال کی اس وسیع وعریض کائنات میں کسی انجانی منزل کی طرف سفر کر رہے ہیں۔اب ذرا تصور کریں کہ اتنی بڑی کائنات میں ہماری کہکشاں کی کیا حیثیت ہے؟ پھر اس کہکشاں کے ایک سرے پر موجود ہمارا نظام شمسی ، اس کا دیو ہیکل سور ج اور بڑے بڑے سیارے۔ پھر اس پورے نظام شمسی میں جسامت کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہماری زمین۔ پھر زمین کی وسعتیں، اس کے پہاڑ وں اور سمندروں سے ہوتے ہوئے اپنے وجود پر نگاہ دوڑائی جائے تو انسان اس رب کریم کی عظمتوں کا قائل ہو کر رہ جاتا ہے۔ تمام تعریفیں اسی مالک کو سزاورہیں جس نے اتنی بڑی کائنات کا مالک ہوتے ہوئے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔اس وحدہ لا شریک رب کا فرمان ہے کہ جب آدم کا بیٹا اپنا سر زمین پر رکھ کر میرے بلند رتبے کا عتراف کرتا ہے تو مجھے اچھا لگتا ہے۔

خیر! بات ہورہی تھی ستاروں اور سیاروں کی کہ ہر ستارہ اور سیارہ اپنے اپنے دائرے میں تیر رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ستارہ کسی دوسرے ستارے سے ٹکرا گیا ہو لیکن انیس سو چورانوے میں یہ ریکارڈ ٹوٹ گیا اور آسمان کی وسعتوں میں دو اجرام فلکی کے ٹکرا جانے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ اس تصادم کے تصور نے سائنسدانوں کو دم بخود کر کے رکھ دیا۔ ہوا یہ کہ ایک دمدار ستارہ نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کی کشش ثقل کی زد میں آ کر ٹوٹ گیااور اس کے اکیس ٹکڑے ساٹھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے مشتری کی طرف بڑھنے لگے۔ دو خلائی اجسام کے اس ٹکراؤ کے دو پہلو تھے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ سائنسدان زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا تصادم مختلف دوربینوں کی مدد سے اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھےلیکن محرومی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ یہ منظر عام آدمی کسی صورت نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس ٹکراؤ کی تفصیل میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ دونوں اجرام فلکی کی الگ الگ حیثیت اور اہمیت کا اندازہ لگالیں تاکہ بات آسانی سے سمجھ آسکے۔

مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا اور سورج چاند اور وینس کے بعد آسمان دنیا کا سب سے روشن سیارہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے ارد گرد موجود مختلف رنگوں کی پٹیاں اور سرخ رنگ کا ایک بیضوی نشان ہے جو درحقیقت گیسوں کا طوفان ہے۔ یہ نشان بارہ ہزارکلومیٹر چوڑا اور پچیس ہزار کلومیٹر لمبا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ یہ نشان اتنا بڑا ہے کہ اس میں دو زمینیں باآسانی رکھی جا سکتی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق گیسوں سے بنے ہوئے کسی سیارے پر اس نشان کا سینکڑوں سال تک موجود رہنا ایک حیران کن امر ہے۔ آپ یہ بات پڑھ کربھی حیران ہوں گے کہ فروری دو ہزار چار تک مشتری کے تریسٹھ چاند دریافت ہو چکے ہیں۔سن سولہ سو دس میں سب سے پہلے گیلیلیو نے اس کے چار چاند دریافت کیے تھے جنہیں گیلیلیو کے چاند بھی کہاجاتا ہے۔ مشتری زیادہ تر گیسوں پر مشتمل ہے جن میں نوے فیصد ہائیڈروجن اور دس فیصد ہیلیم گیس شامل ہے۔

یہ جس قدر حرارت سورج سے حاصل کرتا ہے اس سے دوگنا حرارت خارج کر دیتا ہے۔ اس کی سطح پر ایک غیر معمولی طور پر ایک طاقتور مقناطیسی میدان موجود ہے۔ اس کی کشش ثقل زمین کی کشش ثقل سے دو سو چون فیصد زیادہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ اگر سو پاؤنڈ وزنی شخص کو مشتری پر کھڑا کیا جائے تو اس کا وزن اس کی کشش ثقل کی وجہ سے دو سو چون پاؤنڈ ہو جائے گا۔اس کی یہی کشش ثقل اس ٹکراؤ کا سبب بنی جس کا آگے چل کر ہم ذکر کریں گے۔ مشتری کا وجود اتنا بڑا ہے کہ اگر یہ اندر سے کھوکھلا ہوتا تو نظام شمسی کے سارے سیارے اس میں سما جاتے ۔ اس کا قطر ایک لاکھ بیالیس ہزار آٹھ سو کلومیٹر ہے۔ اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ اگر گیارہ زمینیں اکٹھی کی جائیں تو مشتری قطر کے لحاظ پھر بھی ان سے بڑا ہوگا۔ یہ زمین کے نو اعشاریہ آٹھ گھنٹوں میں اپنے محور کے گرد اپنی گردش مکمل کرتا ہے جبکہ اس کا ایک سال زمین کے گیارہ اعشاریہ چھیاسی سالوں کے برابر ہے۔ سورج سے اس کا فاصلہ زمین کی نسبت پانچ اعشاریہ دو گنا زیادہ ہے۔ یہ سورج سے ستتر کروڑ تراسی لاکھ تیس ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تحقیقات کی غرض سے اس کی طرف بھیجا جانے والا خلائی سیارہ پائینئر دس تھا جو انیس سو تہتر میں بھیجا گیا تھا۔اس کے بعد مختلف سیارے اسی غرض سے بھیجے جاتے رہی جن میں گیلیلیو نامی سیارہ مشتری کے گرد آٹھ سال تک گردش کرتا رہا۔

یہ تو تھی نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کی کیفیت! اب ہم آتے ہیں اس دمدار ستارے کی طرف جو اس سے ٹکرایا۔پچیس مارچ انیس سو ترانوے کو دو امریکی سائنسدان کیرولین شومیکر اور ڈیوڈ لیوی امریکی ریاست کیلی فورنیا کی پہاڑی ماؤنٹ پلومر پر بنی رصد گاہ میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔ وہ دونوں ایک طاقتور کیمرے کی مدد سے آسمان کی تصویریں بنا رہے تھے۔ دراصل وہ ایسے خلائی اجسام کی تلاش میں تھے جن کا زمین سے ٹکراؤ ہو سکتا تھا۔انہوں نے آسمان کے ایک بڑے حصے کی تصویر بنائی ۔ پینتالیس منٹ بعد جب انہوں نے دوبارہ اسی حصے کی تصویر بنائی تو دونوں تصویروں کے موازنے کے دوران انہیں دوسری تصویر میں یہ دمدار ستارہ نظر آیا۔ اس طرح اس ستارے کا نام ان ہی دو سائنسدانوں کے نام پر شومیکر لیوی نائن رکھا گیا۔ اس کی دریافت کے چند دن بعد یہ انکشاف ہوا کہ یہ ستارہ سورج کی بجائے مشتری کے محور پر گھوم رہا ہے ۔یہ ایک ایسا عجیب و غریب دمدار ستارہ تھا جس کا وجود آپس میں جڑے ہوئے اکیس مختلف ٹکڑوں پر مشتمل تھا۔ اس کی لمبائی تقریباً دس کلو میٹر تھی۔ سات جولائی انیس سو بانوے کو یہ دمدار ستارہ جب مشتری کے محور پر گھومتا ہوا اس سے ایک لاکھ بیس ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا تو مشتری کی بے پناہ کشش ثقل کی زد میں آکر ٹو ٹ گیا اور اس کا وجود اکیس چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا جن میں سے ہر ٹکڑے کا قطر دو سے چار کلومیٹر تھا۔ یہ ٹکڑے ساٹھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے مشتری کی طرف بڑھنے لگے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب فلکیاتی سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ پوری دنیا کے سائنسدانوں کی توجہ مشتری کی طرف ہو گئی۔ سائنسدانوں کا اندازہ تھا کہ دمدار ستارے کے یہ ٹکڑے جولائی انیس سو چورانوے کے تیسرے ہفتے میں مشتری سے ٹکرا جائیں گے۔ یہ اندازہ درست ثابت ہوا اور سولہ جولائی انیس سو چورانوے میں اس کا پہلا ٹکڑا مشتری سے ٹکرایا۔ یہ ٹکراؤ اس قدر ہولناک تھا کہ اس کے نتیجے میں آگ اور گیس کا جو طوفان اٹھا اس کے تصور سے ہی رونگٹے گھڑے ہو جاتے ہیں۔ پہلے ٹکڑے کے ٹکرانے سے جو شعلے بلند ہوئے ان کی بلندی چھ ہزار کلومیٹر تھی لیکن جب اس کا دوسرا ٹکڑا مشتری سے ٹکرایا تو شعلوں کی بلندی بارہ ہزار کلومیٹر تک جا پہنچی۔ذرا تصور کریں کہ جس آگ کے شعلے بارہ ہزار کلومیٹر بلند تھے اس آگ کی کیفیت اور ہیبت کیا ہو گی؟چھ دن تک اس کے مختلف ٹکڑے مشترے سے ٹکراتے رہے۔ چونکہ مشتری اپنے محور پر تیزی سے گھوم رہا تھا اس لیے ٹوٹے ہوئے دمدار ستارے کے ٹکڑے اس کی سطح پر کسی ایک جگہ نہیں ٹکرائےبلکہ وقفے وقفے سے مختلف جگہوں پر ٹکراتے رہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں جو توانائی پیدا ہوئی وہ ساٹھ لاکھ میگا ٹن تھی۔ اس حقیقت کو یوں سمجھ لیں کہ دنیا کی ساتوں ایٹمی قوتوں کے پاس جتنے بھی ایٹم بم موجودہیں اگر سارے کے سارے بیک وقت چلا دیے جائیں تو جوتوانائی پیدا ہو گی ، مشتری کی سطح پر اٹھنے والے طوفان کی قوت اس سے بھی ساڑھے سات سو گنا زیادہ تھی۔ اس ٹکراؤ کے نشانات اب بھی مشتری کی سطح پر موجود ہیں۔ یہ ٹکراؤ اتنا خوفناک تھا کہ اس سے اڑنے والے آگ کے بلبلے اور سیاہ نشان ایک سال تک مشتری کی سطح پر دکھائی دیتے رہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر ہمارے اور مشتری کے درمیان خلا واقع نہ ہوتی اور آواز کے سفر کرنے کا کوئی ذریعہ موجود ہوتا تو اس ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی گونج ہی دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھی۔
 
Tariq Mahmood Talib
About the Author: Tariq Mahmood Talib Read More Articles by Tariq Mahmood Talib: 2 Articles with 931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.