گذشتہ تقریبا تین دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہو
پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ بھی کئی سالوں سے کررہا ہوں سیاستدانوں سے دوستیاں
بھی ہیں علماء کرام سے بھی ملاقات رہتی ہے کئی بار سیاسی جماعتوں کا حصہ
بھی رہا اندر کی سیاست سے لیکر جلسے جلوس کی سیاست کو بھی سمجھتا ہوں پہلے
دن سے لیکر آج تک اسی شعبے کا حصہ رہا مشکل ترین حالات بھی دیکھے اور پھر
نہ جانے کیا کیا دیکھ ڈالا میں نے پنجاب اسمبلی کے ٹھنڈے ہال میں گرما گرم
تقریریں کرتے ہوئے بہت کم غریب لوگوں کو دیکھا 371اراکین پر مشتمل پنجاب
اسمبلی جو ٹوٹی ہوئی ہے اور اس سے پہلے والی اسمبلیوں میں بھی گنتی کے ایک
یا دو افراد ہی غربت کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان سے ہٹ کر جتنے بھی
معزز اراکین پارلیمنٹ آتے رہے وہ اربوں اور کھربوں کے مالک ہوتے ان میں سے
چند بے چارے کروڑ پتی بھی ہوتے تھے جبکہ اکثر نسل در نسل غریب لوگوں کی
تقدیر بدلنے اسمبلی میں آئے اور پھر جانے کا نام تک نہ لیاباپ کے بعد بیٹا
غریب لوگوں کی خدمت کے لیے موجود رہاانکے حلقوں کی حالت کا اندازہ لگائیں
کہ پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں صفائی جو نصف ایمان ہے وہ نہیں ہے سکولوں
کی حالت قابل رحم ہے بچے ہیں تو اساتذہ نہیں ہیں ہسپتال ہیں تو ڈاکٹر نہیں
دیہاتوں اور وہ بھی دور دراز کے دیہاتوں میں تو زندگی کسی عذاب سے کم نہیں
غریب کا بچہ اپنی چار کنال زمین بیچ کر ماسٹرڈگری بھی کرلے تو پھر بھی بے
روزگاری اسکا مقدر بن جاتی ہے اور جو انہی کے ووٹوں سے انکا مستقبل سنہری
بنانے کے وعدے کرکے اسمبلیوں میں آتے ہیں پھر انہی کا مستقبل داؤ پر لگائے
رکھتے ہیں میں بات کررہا تھا پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین کی کہ غریبوں کے
نام پر ووٹ کی بھیک مانگنے والے جیتنے کے بعد واپس پلٹ کر غریبوں کی بستی
میں نہیں جاتے بلکہ ان کے ڈیروں پر آنے والے غریب لوگ سارا دن وقت ضائع
کرنے کے بعد بھی خالی ہاتھ ہی لوٹ جاتے ہیں بڑی بڑی گاڑیوں پر پھرنے والے
غریبوں کے پاس سے جب گذرتے ہیں تو اتنی تیزی سے گذرتے ہیں کہ بعد میں انکا
ووٹر دھول اور مٹی میں سے رنگین ہوتی ہوئی اپنی شکل بھی نہیں پہچان پاتا
پچھلی اسمبلیوں میں پیپلز پارٹی کی سابقہ جیالی ساجدہ میر اور مسلم لیگ ن
سے بہاولپور کی حسینہ معین کا تعلق غریب خاندان سے تھا جو اسمبلی بھی رکشے
پر آتی تھیں اور واپسی بھی رکشے سے ہی کرتی رہی انکا گھر بھی غریب لوگوں کے
درمیان تھا اور اٹھنا بیٹھنا بھی عام لوگوں کے ساتھ تھا یہ بغیر کسی
پروٹوکول کے گھومتی پھرتی اپنے علاقے کے غریب لوگوں سے رابطے میں رہتی لیکن
بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے ساجدہ میر کو کوئی عہدہ دیا اور نہ ہی مسلم لیگ
ن نے حسینہ کو کسی قابل سمجھا یہی ان پر بڑا احسان تھا کہ انہیں مخصوص سیٹ
پر اسمبلی کا ممبر بنا دیا حسینہ نے تو اسمبلی میں آکر بھی کوئی بات نہیں
کی لیکن ساجدہ میر نے اپنی تقریروں کے زریعے اپنا حق اداکردیا جبکہ انکے
مقابلہ میں جاگیر دار اور سرمایہ دار ممبران اسمبلی بھی غریبوں کے نام پرہی
سیاست کرتے اسمبلی میں انکا رونا روتے جلسوں میں غریبوں کے لیے مگر مچھ کے
آنسو بہاتے اور پھر بند کمروں میں غریبوں کی ایسی تیسی پھیرتے ہوئے ٹیکسوں
کی بھر مار کرتے اور اپنے لیے ڈھیروں مراعات لے آتے عوامی مسلم والے شیخ
رشید کی ایک بات کبھی کبھی بہت یاد آتی ہے کہ اس ملک میں غریب ہی غریب کا
دشمن ہے جو کبھی بھی غریب کو ووٹ نہیں دیتا وہ ہمیشہ سرمایہ دار کوووٹ دیتا
ہے وہ جاگیر دار کو ووٹ دیتا ہے وہ کسی بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے والے کو
ووٹ دیتا وہ رسہ گیر کو ووٹ دیتا وہ قبضہ گروپ کو ووٹ دیتا ہے وہ بریانی کی
پلیٹ دیکھ کر ووٹ دیتا ہے وہ روٹی شوٹی اور مال پانی دیکھ کر ووٹ دیتا ہے
اور تو اور وہ الیکشن والے دن اپنے ووٹ کی قیمت لیکر اپنے ہی پاؤں پر
کلہاڑی مار لیتے ہیں کبھی کسی ووٹر نے اپنا ووٹ دیتے ہوئے سوچا کہ ہم جنہیں
اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں انکی کوئی چیز بھی ہم سے نہیں
ملتی انکا گھراور رہن سہن ہمارے جیسا نہیں انکا کھانا پینا ہمارے جیسا نہیں
انکی سواریاں ہمارے جیسی نہیں انکے بچوں کی تعلیم ہمارے بچوں جیسی نہیں
انکے بچوں کے کھلونے ہم نے زندگی میں نہیں دیکھے اورانکے ایک کھلونے کی
قیمت ہمارے پورے گھر کے ایک ماہ کے راشن سے بھی زیادہ ہے انکے علاج کروانے
کی سہولتیں ہماری طرح نہیں غریبوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کی کوئی ایک
عادت بھی غریبوں جیسی نہیں اور ہم پھر بھی انہیں ووٹ دینے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑتے بلکہ چند انکے مفادات کے تحفظ کے لیے ہم اپنے جیسے ہی غریب
لوگوں کو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ہماری خواتین انکی باندیاں ہمارے بچے
انکے مستقبل کے غلام اور ہم تو پیدا ہی ان لوگوں کی خدمت کے لیے ہوئے ہیں
یہ سب کیسے بدلے گا کیسے ختم ہو گی غربت اور کیسے ہم لوگ ترقی کرینگے اور
مزے کی بات یہ ہے کہ جو یہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں انہیں کوئی پرواہ ہی
نہیں ہے ننگ دھڑنگ انکے بچے ہوش سنبھالتے ہی کسی نہ کسی کے نوکر بن جاتے
ہیں انکی خوبصورت لڑکیاں امیر لوگوں کے گھروں میں نوکرانیاں بن کر زندگی
گذار دیتی ہیں انکے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ کبھی کبھی خبروں کی زینت بھی
بنتا رہتا ہے 23کروڑ کی آبادی میں اکژیت غلاموں کی ہے جو نسل در نسل غلام
ہی پیدا کرتے آرہے ہیں ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول اور بڑے پرائیوٹ
تعلیمی اداروں کا ماحول دیکھ لیں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا آپ باقی
علاقوں کو چھوڑیں لاہور کے شالامار کالج کو ایک نظر آکر دیکھ لیں بلکہ یہاں
کے مقامی اور خاص کر اس کالج کے ارد گرد رہنے والے لوگ اور اس کالج میں
پڑھنے والے بچے اپنے کالج کی صفائی ستھرائی کا جائزہ لیکر بتائیں کہ
کیاخامی ہے اس کالج میں نہیں پتا چلے گا کیونکہ آپ تو کئی سالوں سے اس کالج
میں آرہے ہو میں تو صرف ایک دن گیا تھا اور باتھ رومز کی حالت دیکھ ہی
اندازہ ہوگیا کہ یہ کالج کتنا گندہ ہے اور یہاں پڑھنے والوں پر بھی حیرت
ہوئی کہ وہ کیسے مستقبل کے معمار ہیں جو اپنی مادر علمی کو صاف رکھوانے میں
ناکام ہیں اور مستقبل میں انکا ملک کے لیے کیا رول ہوگا کیسا وہاں کا بے حس
سٹاف ہے اور کیسا پرنسپل ہوگا جو کبھی اپنے دفتر سے باہر نہیں نکلایہ شہر
اقتدار کے کالج کا حال ہے اور ملک کے باقی کالجز اور سکولوں کا حشر بھی
ہمارے سامنے ہے ہم لوگ اپنے حق کے لیے کھڑے نہیں ہوسکتے تو دوسروں کا خیال
خاک کرینگے ہم نے اگر پاکستان کو خوشحال بنانا ہے تو پھر غریبوں کو ایک
دوسرے کی دشمنی چھوڑکر متحد ہونا پڑے گا تب ہی ہماری قسمت بدلے گی علامہ
اقبال شائد ہمارے لیے ہی فرما کرگئے تھے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ |