قوم کی بیٹی اور ہم۔

ایسے دردناک موضوع پر لکھنا نہایت مشکل ہی نہیں اذیت ناک بھی ہے۔ بہت دن سے سوچ رہی ہوں کہ لکھوں لیکن دماغ ماؤف اور قلم چلنے سے انکاری ہے۔ لیکن جو ہنر اللّٰہ نے عطا کیا ہو اُس کو حق کیلئے استعمال نہ کیا جائے تواس سے بڑی زیادتی اپنے ساتھ کیا ہو گی ۔

ہم بحیثیت ایک قوم انتہائی بے حس ہو چکے ہیں۔ ہمیں دکھ صرف ان کا ہوتا ہے جن سے قریبی رشتہ ہو۔ اگر کسی دوسرے کو غم میں مبتلا دیکھیں گے بھی تو کچھ دیر کیلئے غم میں شریک ہو کر پھر اپنے زندگی میں مگن ہو جائیں گے۔ لیکن کبھی کبھی ایسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں جیسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو ایسے روزن کھولنے کی کوشش کرتے ہیں جو صدیوں سے بند پڑے زنگ آلود ہو چکے ہوتے ہیں ۔ جن کو کھولنے میں ان کے ناصرف ہاتھ فگار ہوتے ہیں بلکہ روح تک چھلنی ہو جاتی ہے لیکن سلام ہے ان پر کہ وہ پھر بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔

ایسی ہی سالہا سال کی کوششوں کے بعد بالآخر ایک روزن کھلا ہے۔قوم کی بیٹی جو برسوں سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی تھی، قید خانے میں نجانے کس کس طرح کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی ۔ وہ ہماری ہونہار عافیہ جو اپنوں سے دور، ایک تشدد بھری زندگی کاٹ رہی ہے آج اس کی اپنی بہن سے ملاقات ہوئی۔ لیکن یہ ملاقات بھی کیسی ملاقات تھی۔ نا جی بھر کر دیکھنا ہوا ہوگا. لیکن کیا اس کو دیکھنے کی ہمت بھی ہو گی۔وہ بہن جس نے کتنے نازوں سے اپنی چھوٹی کو پالا ہو گا اس سمے اس کی کیاحالت ہوئی ہو گی جب اس نے زنجیروں میں جکڑی اپنی بہن کی جھلک دیکھی ہو گی ۔

آہ! میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور حقیقتاََ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں بالکل اس طرح جس طرح آج سے پندرہ سال پہلے فوزیہ صدیقی سے ان کی بہن عافیہ صدیقی کے بارے میں باتیں سنتے جاری تھے۔ مجھے آج بھی وہ لمحات یاد ہیں جب فوزیہ صدیقی اپنی بہن کا نام لیتی تھیں تو ان کے لہجے سے کیسے محبت ٹپکتی تھی اور جدائی کا ذکر کرتے کیسے آواز میں درد کی کاٹ ہوتی تھی کہ پنڈال میں بیٹھا ہر شخص ان کے ساتھ بے آواز رو رہا تھا۔

لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ آج اتنے برسوں بعد عافیہ صدیقی اپنی بہن کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے ان کی حالت دیکھ کر اور غمگین ہوں گی۔ ہاں اگر اللّٰہ کوئی معجزہ دکھا دے اور ان کی رہائی کا کوئی سبب بن جاۓ تو یقیناً اس بہن کی ساری ریاضتیں قبول ہو جائیں۔ اللہ تو بہترین مسبب الاسباب ہے کوئی بہترین سبب بنا دے کہ ہماری قوم کی بیٹی اپنے گھر آ سکے۔ اپنی بہن اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنی بقایا زندگی گزار سکے۔ اور میرے رب! یہاں آنے پر بھی اس کی حفاظت کرنا کہ غیروں سے زیادہ تو اپنے اس سب میں ملوث رہے ہیں۔ اسلئے اپنوں کے درمیان آنے پر بھی اس کی حفاظت فرمانا یا ربی۔

 

Unaiza Uzair
About the Author: Unaiza Uzair Read More Articles by Unaiza Uzair: 2 Articles with 779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.