محاسبہ

تحریر:سجل ملک اسلام آباد
کوفہ ایک بار پھر فتح ہوا، معصوم ابن زبیر تخت پر براجمان ہوا۔اس کے سامنے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا۔اس نے فرمان جاری کیا جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا، دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا مسکرا دیا۔معصب نے دریافت کیا کیوں ہنستا ہے بڈھے۔بوڑھے نے کہا ماضی یاد آ گیا، حال سامنے ہے، مستقبل ادھا دیکھائی دے رہا ہے۔معصب نے کہا تفصیل سے بتایا جائے۔
بوڑھے نے بتانا شروع کیا کہ یہی دربار تھا عبداﷲ ابن زیاد تخت پر بیٹھا تھا۔حسین ابن علی کا سر لایا گیا،ابن زیاد نے کہا جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا۔ہم نے جشن منایا۔ایک بار پھر یہی دربار ہے، مختار ثقفی کا سر تیرے تخت کے نیچے پڑا ہے یہ اسی تخت پہ بیٹھا تھا ابن زیاد کا سر کاٹ کے لایا گیا، مختار ثقفی نے فرمان جاری کیا جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا اور ہم نے جشن منایا۔آج وہی دربار ہے تو تخت نشین ہے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا ہے اور تیرا حکم ہے کہ جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا.ہم آج بھی جشن منائے گے۔کل بھی یہی دربار ہو گا یہ تو نہیں جانتا کہ تخت پر کون ہو گا لیکن اتنا پتہ ہے کہ سر تیرا ہو گا اور فرمان جاری کیا جائے گا کہ جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا اور ہم جشن منائے گے۔
بوڑھے کی پشین گوئی کے عین مطابق کوفہ کے دربار میں عبدالملک بن مروان کے سامنے معصب بن زبیر کا سر پیش کیا گیا اور اس نے جشن منانے کا حکم دیا۔
کسی نے بوڑھے کی بات کا عبدالملک بن مروان کو زکر کیا تو عبدالملک بن مروان نے فورا دربار کی عمارت کو گرانے اور دربار کوفہ کو کسی آور علاقے میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
مجھے سیاست کی سمجھ تو نہیں ہے اور نہ مجھے یہ پتہ ہے کہ سیاسی ایوانوں میں کیا ہوتا ہے؟
عدلیہ کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہوتا ہے؟ یہ سب مجھے نہیں پتہ,ہاں یہ یاد ہے کہ بھٹو گیا اور ضیاء آیا ہم نے جشن منایا۔ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوا تو ہم نے جشن منایا۔بینظیر کی حکومت ختم ہوئی ہم نے جشن منایا نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا ہم نے جشن منایا مشرف آیا اور نواز شریف اور بینظیر دونوں کو جلا وطن کیا گیا تو ہم نے جشن منایا۔پھر دونوں واپس آئے ہم نے جشن منایا۔گیلانی کی حکومت ختم ہوئی ہم نے جشن منایا، نواز کی پھر حکومت ختم ہوئی ہم نے جشن منایا، اب ایک بار پھر ہم جشن منا رہے ہیں اب اگلا جشن بھی ہو گا سب کو معلوم ہے اگلی بار سر کس کا ہو گا یہ پتہ نہیں.
تو کہنا میں یہ چاہتی ہوں کہ ہم بحیثیت ایک قوم ہمارا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو کیا صرف جشن مناتے رہیں گے؟
کیا ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے؟ اگر ہے تو پھر ہم سوچتے کیوں نہیں۔
کیا صرف اندھی تقلید ہی ہی ہمارا مقدر ہے؟
ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہمیں چور اور کرپشن پر کوئی اعتراض نہیں ہے بس چور اور کرپٹ ہماری مرضی کا ہونا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ قوم بھی اب کسی عبدالملک کو تلاش کریں جو اس عمارت کو گرا کر کسی نئی عمارت کا حکم دے۔
ہمارے ملک میں کوئی بھی مرتا ہے یا کوئی نیا تخت نشین ہوتا ہے یا کوئی تخت سے گرایا جاتا ہے تو ہمارا کام صرف اور صرف جشن منانا رہ گیا ہے۔
تو اج ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ ہم سمجھ سکے کہ جشن منانے والے ہمیشہ نقصان میں رہیں ہیں۔ہمیں اس عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانا ہو گی تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، انسانوں کی یہ بستی جو اب ڈارونا جنگل بنتی جا رہی ہے اس میں جشن منانے کی بجائے ان وحشیوں کو جو دوسروں کا خون پیتے ہیں، گوشت کھاتے اور ہڈیاں چباتے ہیں اور برتری اور فوقیت کے مکانوں پر بیٹھ کر انسانیت کا شکار کر رہیں ہیں تو اب وقت آگیا ہے کہ یہ نہ اوپر چڑھیں اور نہ نیچے آئیں بلکہ ایک دوسرے سے نگاہیں ملا کر بات کریں کیونکہ اگر بلندی و پستی کا یہ فتنہ قائم رہا تو ادمیت اپنا گوشت خود ہی نوچ نوچ کر کھا جائے گی۔
سجل ملک اسلام آبادایک بار پھر فتح ہوا، معصوم ابن زبیر تخت پر براجمان ہوا۔اس کے سامنے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا۔اس نے فرمان جاری کیا جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا، دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا مسکرا دیا۔معصب نے دریافت کیا کیوں ہنستا ہے بڈھے۔بوڑھے نے کہا ماضی یاد آ گیا، حال سامنے ہے، مستقبل ادھا دیکھائی دے رہا ہے۔معصب نے کہا تفصیل سے بتایا جائے۔
بوڑھے نے بتانا شروع کیا کہ یہی دربار تھا عبداﷲ ابن زیاد تخت پر بیٹھا تھا۔حسین ابن علی کا سر لایا گیا،ابن زیاد نے کہا جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا۔ہم نے جشن منایا۔ایک بار پھر یہی دربار ہے، مختار ثقفی کا سر تیرے تخت کے نیچے پڑا ہے یہ اسی تخت پہ بیٹھا تھا ابن زیاد کا سر کاٹ کے لایا گیا، مختار ثقفی نے فرمان جاری کیا جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا اور ہم نے جشن منایا۔آج وہی دربار ہے تو تخت نشین ہے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا ہے اور تیرا حکم ہے کہ جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا.ہم آج بھی جشن منائے گے۔کل بھی یہی دربار ہو گا یہ تو نہیں جانتا کہ تخت پر کون ہو گا لیکن اتنا پتہ ہے کہ سر تیرا ہو گا اور فرمان جاری کیا جائے گا کہ جشن مناو دشمن اسلام مارا گیا اور ہم جشن منائے گے۔
بوڑھے کی پشین گوئی کے عین مطابق کوفہ کے دربار میں عبدالملک بن مروان کے سامنے معصب بن زبیر کا سر پیش کیا گیا اور اس نے جشن منانے کا حکم دیا۔
کسی نے بوڑھے کی بات کا عبدالملک بن مروان کو زکر کیا تو عبدالملک بن مروان نے فورا دربار کی عمارت کو گرانے اور دربار کوفہ کو کسی آور علاقے میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
مجھے سیاست کی سمجھ تو نہیں ہے اور نہ مجھے یہ پتہ ہے کہ سیاسی ایوانوں میں کیا ہوتا ہے؟
عدلیہ کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہوتا ہے؟ یہ سب مجھے نہیں پتہ,ہاں یہ یاد ہے کہ بھٹو گیا اور ضیاء آیا ہم نے جشن منایا۔ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوا تو ہم نے جشن منایا۔بینظیر کی حکومت ختم ہوئی ہم نے جشن منایا نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا ہم نے جشن منایا مشرف آیا اور نواز شریف اور بینظیر دونوں کو جلا وطن کیا گیا تو ہم نے جشن منایا۔پھر دونوں واپس آئے ہم نے جشن منایا۔گیلانی کی حکومت ختم ہوئی ہم نے جشن منایا، نواز کی پھر حکومت ختم ہوئی ہم نے جشن منایا، اب ایک بار پھر ہم جشن منا رہے ہیں اب اگلا جشن بھی ہو گا سب کو معلوم ہے اگلی بار سر کس کا ہو گا یہ پتہ نہیں.
تو کہنا میں یہ چاہتی ہوں کہ ہم بحیثیت ایک قوم ہمارا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو کیا صرف جشن مناتے رہیں گے؟
کیا ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے؟ اگر ہے تو پھر ہم سوچتے کیوں نہیں۔
کیا صرف اندھی تقلید ہی ہی ہمارا مقدر ہے؟
ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہمیں چور اور کرپشن پر کوئی اعتراض نہیں ہے بس چور اور کرپٹ ہماری مرضی کا ہونا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ قوم بھی اب کسی عبدالملک کو تلاش کریں جو اس عمارت کو گرا کر کسی نئی عمارت کا حکم دے۔
ہمارے ملک میں کوئی بھی مرتا ہے یا کوئی نیا تخت نشین ہوتا ہے یا کوئی تخت سے گرایا جاتا ہے تو ہمارا کام صرف اور صرف جشن منانا رہ گیا ہے۔
تو اج ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ ہم سمجھ سکے کہ جشن منانے والے ہمیشہ نقصان میں رہیں ہیں۔ہمیں اس عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانا ہو گی تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، انسانوں کی یہ بستی جو اب ڈارونا جنگل بنتی جا رہی ہے اس میں جشن منانے کی بجائے ان وحشیوں کو جو دوسروں کا خون پیتے ہیں، گوشت کھاتے اور ہڈیاں چباتے ہیں اور برتری اور فوقیت کے مچانوں پر بیٹھ کر انسانیت کا شکار کر رہیں ہیں تو اب وقت آگیا ہے کہ یہ نہ اوپر چڑھیں اور نہ نیچے آئیں بلکہ ایک دوسرے سے نگاہیں ملا کر بات کریں کیونکہ اگر بلندی و پستی کا یہ فتنہ قائم رہا تو ادمیت اپنا گوشت خود ہی نوچ نوچ کر کھا جائے گی۔

 

Attiya Rubbani
About the Author: Attiya Rubbani Read More Articles by Attiya Rubbani: 20 Articles with 14959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.