کیا پاکستان میں ہمیشہ سے دھاندلی الیکشن ہوتے رہے

پاکستان کی 75 سالہ کی تاریخ میں جاؤ تو ہمیشہ سے ہر الیکشن دھاندلی نما رہے پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ہمیشہ سے یہ شکایتیں جمہوری حکمرانوں ، آمریت یا نگراں حکمرانوں سے رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور متحدہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیتی آئی ہیں . اور یہ اپنے اپنے علاقوں میں برتری حاصل کرلیتی ہیں. پاکستان کا ہر زئی شعور باشندہ نہ انتخابات میں دھاندلی کو پسند کرتا ہےاور نہ ہی دھاندلی کروانے والی جماعت کو پسند کرتا ہے. اس حوالے سے جماعت اسلامی ہو یا تحریک انصاف اگر پیپلز پارٹی پر الزام لگاتی ہیں تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن ) کو الیکشن میں دھاندلی سے روک دیا جائے اور اس کے مبینہ دھاندلی ونگ کو ختم کردیا جائے تو پاکستان میں کچھ حد تک عوام کا الیکشن کمیشن اور انتخابات پر اعتماد آجائیگا. جس طرح سے حالیہ سندھ کہ بلدیاتی الیکشن اور بالخصوص کراچی میں بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی اور انتظامیہ نے کُھل کر فرنٹ فٹ پر آکر دھاندلی اور دھاندلی کرنے والے ونگ کی ہر طرح سے مدد کی اور مئیر شپ کے الیکشن میں پیپلزپارٹی، سندھ الیکشن کمیشن اور انتیظامیہ نے مل کر سب حدیں توڑ کر مُرتضی وہاب کو جس طرح جتوایا گیا اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے جمہوری کلچر کی جس طرح سے جگ ہنسائی ہوئی اس سے سوائے پیپلز پارٹی اور حکمرانوں نے اپنے آپ کو پاکستان اور دنیا بھر سوائے بدنامی سمیٹنے کے کچھ حاصل نہیں کیا. پیپلزپارٹی اور سندھ کے حکمرانوں نے پاکستان اور بالخصوص کراچی کے نوجوانوں میں اپنی جماعت کی ساکھ کو زمین بوس دفن کردیا کیونکہ اس وقت کراچی اور حیدرآباد کے شہری علاقوں میں جو سیاسی خلا جس طرح سے اُبھر کر آرہا تھا اس کو پورا کرنے کے لیے جماعت اسلامی اپنا بیانیہ لیکر نکلی مگر جماعت کو وہ پزیرائی نہیں ملی جو اس جماعت کے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کو مل رہی تھی. اگر پیپلز پارٹی اپنے وڈیرہ شاہی اور جاگیر دارانہ کلچر سے نکل کر حیدرآباد اور کراچی کے شہری علاقوں میں سُلجھے ہوئے عہدیداروں کو لیکر نکلتی شائد حافظ نعیم کو اتنی پزیرائی نہیں ملتی مگر پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ان شہروں میں وہی کلچر جو اس نے اندرون سندھ میں قائم کررکھا ہے وہ زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جس میں اسے شہری عوام نے بُری طرح ناکامی و نامرادی میں بدل دیا . پیپزپارٹی اور سندھ حکمرانوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کرکے جمہوریت کے چہر ے پر ایک سیاہ نما داغ مل دیا ہے . پیپزپارٹی کو اسے ہر حال میں ختم کرنا پڑئیگا ۔ ہمارے ملک پاکستان میں انتخابی دھاندلی علاقائی ہے نہ صوبائی بلکہ یہ ایک قومی بیماری بنتی جارہی ہے اور اس بیماری میں عام سیاسی جماعتیں ہی مبتلا نہیں بلکہ صالحین کی جماعتیں بھی مبتلا ہوتیں جارہی ہیں۔ انتخابی دھاندلی ہمارے ملک، ہمارے معاشرے ، ہماری سیاست، ہماری جمہوریت کے لیے اس قدر مہلک ہیں کہ اس کے قومی سطح پر خاتمے کی ہر کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ہر اوّل دستہ اس کی روک تھام کے لیے اپنے اپنے عہدیداران اور کارکنان کو تربیت نشست کرائی جائیں دھاندلی نما الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا چاہیے. پاکستانی عوام کو اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں بیماریاں نئی نہیں ہیں عشروں پرانی ہیں اور ان بیماریوں کے پھیلاؤ اور استحکام کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے جماعتی مفادات کی خاطر ان بیماریوں کو نظرانداز بھی کرتی رہی ہے اور ان بیماریوں میں خود بھی مبتلا رہی ہے۔

اگر ہمارا حکمران طبقہ اپنی سیاسی مصلحتوں سیاسی ضرورتوں کے تحت ان بیماریوں کی حوصلہ افزائی نہ کرتا تو آج ہمارے ملک کا یہ حال نہیں ہوتا ان مہلک بیماریوں سے پاک رہتا اور پاکستان کا پہیہ ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں نمایاں پوزیشن میں ہوتا. اس حوالے سے اہل علم اور اہل دانش کی تشخیص یہ ہے کہ ہمارے قومی جسم سے جتنی بیماریاں لپٹی ہوئی ہیں اس کی اصل وجہ 75 سالہ اسٹیٹس کو ہے جب تک یہ ہمارے ملک میں موجود ہے ہمارا قومی جسم بیماریوں کی آماجگاہ بنا رہے گا۔ اس ملک کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اسٹیٹس کو (حسب حال) برقرار رہنا ہے یا اسے ختم ہو کر کسی نئے سیاسی اور سماجی نظام کو آنا ہے . جبکہ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت اس جمہوریت کلچر اور اس گلا سڑا نظام حکومت سے تنگ آ چکی ہے، جس کے گیت الاپنے والا ہمارا حکمران طبقہ زندہ ہے، لیکن شرمندہ نہیں۔ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کوئی بھی اصلاحات نتیجہ خیز اس لئے ثابت نہیں ہوں گی کہ پاکستان میں اب کارپوریٹ طرز کی سیاسی جماعتیں سیاست پر حاوی ہیں۔ کسی پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح کم از کم دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے شیئر ہولڈر رشتہ داروں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ خاندانوں کی اجارہ داری کے دوران ایک بار نہیں، ایک سو بار بھی الیکشن کرائے جائیں تو یہ ہی حکمران طبقہ اقتدار پر قابض رہے گا۔ وسائل ان کے قبضے میں ہیں، اختیارات ان کے پاس ہیں، ریاست کے اہم اداروں پر ان ہی کا قبضہ ہے ۔ ایسی صورت میں صرف چہرے تبدیل ہوں گے، نظام تبدیل نہیں ہو گا، جبکہ عام لوگ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والے عناصر ترجیحات کا تعین اپنی ضروریات کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ یہ ہی جھگڑے کی بنیاد بنتا ہے۔ اسی لئے دنیا بھر میں لوگ اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کے لئے نبر آزما رہتے ہیں۔ کہیں کامیابی جلدی مل جاتی ہے اور کہیں پاکستان کی طرح تاخیر ہوتی جاتی ہے اور جب بھی اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کے لئے کوئی جدوجہد کی جاتی ہے، تو اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں ایسے برقرار رکھنے کے لئے اپنا زور آزماتی ہیں، جس سے پاکستان ایک بار پھر دوچار ہے۔

سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں سے نجات  حاصل کرکے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اسٹیٹس کو کو توڑنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہو جائیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا رسمی یا سیاسی جواب اسٹیٹس کو توڑنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا مُلک میں اگر کوئی سیاسی جماعت جو اسٹیٹس کو توڑنے می ہر اوّل دستہ کا کردار ادا کرسکتی تھیں . اس وقت مُلک میں تین چار جماعتیں تھیں جن کے پاس مڈل کلاس اور پڑھا لکھا طبقہ اُن کا ووٹر اور سپورٹر تھا وہ تحریک انصاف، متحدہ پاکستان اور جماعت اسلامی ہی نظر آتیں ہیں مگر ان جماعتوں پر ایک ہر عرصہ دراز سے اور دوسری پر حالیہ آپریشن سے توڑ پھوڑ کا شکار سے گزر رہی ہیں . ان جماعتوں کے بعد تو پاکستان میں سوائے جماعت اسلامی کہ کوئی ایسی پاور فل جماعت کا دور دور تک ظہور پزیر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے.جو مُلک کے غریب و مڈل کلاس پڑھے لکھے طبقہ کی عوام کی رہنمائی کرسکے اور مُلک و قوم کے جسم سے 75 سالوں سے جونک کی طرح چمٹی اس بیماری سے نجات دلائے اور مُلک سے یہ گلا سڑا نظام حکومت سے نجات دلائے اور غریب و مڈل کلاس پڑھا لکھا طبقہ کے لوگوں کو بھی اقتدار میں شریک سفر کارواں میں لیکر چلے.

اللہ تعالی سے دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالی اس مُلک پاکستان کی حفاظت کرئے اور اس کو دنیا میں ترقی کی منزل طے کرنے میں مدد فرمائے ایسے ہر مُشکل لمحوں سے نکال کر دنیا میں سُرخرو کرئے . آمین
 
انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 274 Articles with 85209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.