اس طرح کی واردات کرپشن کے زمرے میں آتی ہیں

حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنی رہائش گاہ پر حکومتی منصب داروں کے ساتھ سرکاری امور پر محو کلام تھے۔ حکومتی امور پر مکالمہ ختم ہوا تو ذاتی قسم کی گفتگو شروع ہوتے ہی امیر المومنین نے چراغ بجھا دیا۔ حاضرین نے وجہ پوچھی تو فرمایا ’’چراغ میں تیل بیت المال کا تھا، نجی گفتگو کے دوران اس تیل کا جلنا خیانت ہوگی‘‘۔

بطور گورنر اور ’’بانی‘‘ کے گورنر جنرل ہائوس کی بتیاں بجھاتے دیکھے گئے اور وہ بھی کرپشن ہی کی ایک قسم تھی یہ ہے کرپشن کی وہ قسم جو ہمارے بہت سے دانشوروں کو نہ سمجھ آتی ہے نہ آئے گی کیونکہ ان کے نزدیک سرکاری وسائل پر براہ راست ڈاکہ ہی کرپشن ہے۔

ہاکستان اور خاص کر سندھ صوبہ میں گزشتہ اور حالیہ ادوار میں کرپشن جس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سرکاری اداروں میں سول گزٹ جابس رشوت اور سفارش سے حاصل کرنے کے لیے بیشتر پاکستانی نوجوان یورپ اور امریکہ وغیرہ سے یہ سول گزٹ جابس کسی طریقے سے بھی حاصل کرنے کے لیے مغرب کو بھی چھوڑنے کا فیصلہ صرف اور صرف ادھر ان محکموں میں کرپشن کا بڑھتے ہوئے معیار اور کوئی ادارہ جوابدہ نہ ہونے کی وجہ سے بہتی گنگا میں اب تو ہاتھ کیا پورا نہانے کے لیے تیار ہیں ان میں سے تو کچھ نے حاصل کرلیں ہیں. اس ہی طرح نوجوان اپنی پروفیشنل تعلیمی کئرئیر کو جس پر حکومت کڑوڑوں روپیہ لگاتی ہے وہ بھی اس لائن میں لگے ہوئے ہیں کہ ہیں کہ بس کسی طرح سے بھی یہ سول گزٹ جابس مل جایں جب اس طرح کی سوچ آج کل کہ نوجوانوں میں ہوئیگی پھر وہ مُلک ترقی کی طرف قدم نہیں رکھتے بلکہ وہ مُلک پستی کی طرف اپنے قدم آگے بھڑا تا ہے. پاکستان میں سول اداروں اور خاص کر سندھ کے اداروں میں تو باقاعدہ اب تو اداروں کو دیے گئے فنڈ میں بندر بانٹ کی بولیاں عروج پر لگ رہی ہیں. ہر محکمہ کے افسران چمچہ گیری و خوشامدی میں اپنے ماتحت کے گھر و آفس میں آکر اس کی شان میں قصیدے پڑھ رہا ہے. کیونکہ میرٹ کو پامال کرتے ہوئے اپنے نا اہل پروردہ لوگوں کو پروموٹ کرنا اور پھر ان سے من مانی فیصلے کروانا علاقے کے ترقیاتی فنڈ دینے سے پہلے مختلف درجہ میں اپنے ووٹرز کے علاقہ میں تقسیم کرنا،

“ حضرت عمر بن خطابؓ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو کھجوروں کی تین ڈھیریاں لگائے بیچ رہا تھا۔ فاروق اعظمؓ نے اس سے ان تین ڈھیریوں بارے سوال کیا تو وہ بولا ’’امیر المومنین! ایک ڈھیری درجہ اول، دوسری درجہ دوم، تیسری درجہ سوم‘‘ آپ نے تینوں ڈھیریوں کو آپس میں ملاتے ہوئے کہا ’’ تم میری موجودگی میں حضورؐ کی امت کو تین حصوں میں تقسیم کررہے ہو؟ ان کی اوسط قیمت طے کرو‘‘...... یہ ہے رویہ!

اور ہمارے حکمران ہیں جو حضور کی اُمت کو تقسیم در تقسیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنا ووٹ بینک اپنے کوٹہ برقرار رہے دوسرے جائے بھاڑ میں یہ بھی ایک کرپشن کا بہترین طریقہ واردات ہے.

اس وقت بیڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان اور بالخصوص سندھ کا ہر ادارہ تباہ ہوچکا ہے۔ کرپشن نے سندھ کو اس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے. کہ ’ہائی لیول کی حکومتی سطح پر رہتے ہوئے عوامی بھلائی کے نام پر ریاستی پالیسیوں، رولز، پروسیچرز کو توڑ مروڑ کر اور وسائل کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی طاقت، رتبہ، دولت بڑھانا بھی کرپشن کا ایک بدنام نام کی قسم ہے ‘‘

ہمارے سیاسی اتحادوں کو ملک و قوم کی بھلائی اور ضرورت کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس کی تہہ پر نظر ڈالیں تو کرپشن ہی کرپشن نظر آئے گی۔ جس طرح سندھ کے حالیہ بلدیاتی الیکشن اور مئیر کے الیکشن میں پاکستان کے 23 کڑوڑ افراد سے زائد لوگوں نے کھلے عام جس طرح ایک جماعت نے الیکشن کمیشن، انتیظامیہ وغیرہ کے ساتھ مل کر ہاری ہوئی بازی کو اپنی فتح میں بدلا یہ جماعت جو جمہوریت کی چیمپین بنی پھرتی تھی اس کے جمہوری چہرہ سے نقاب بیچ چوراہے پراُترگیا.یہ اپنے آپ کو بڑھی ڈھٹائی سے جمہوریت کا چیمپین قرار دیا کرتی تھی . کیا یہ بدترین سیاسی کرپشن نہیں ہے؟

اس ہی طرح کیا ہمارے نظام میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کیا حد سے بڑھا ہوا منافع خواہ اس کا تعلق کسی تجارت سے ہو اسے کرپشن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ کرپشن صرف پیسوں کے لین دین کا نام نہیں اس مُلک پاکستان میں ہزاروں طریقوں سے کرپشن کی جاتی ہے اور ان میں سے بہت ساری کرپشن کو حلال کا نام دیا جاتا ہے جیسے منافع کی کمائی کو حلال کی کمائی کہا جاتا ہے اور ہمارے نظام میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اس ہی طرح اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک سے کوئی بھاری قیمت پر لین دین کرتی ہے تو اس میں سے اپنا حصہ طے کر لیتی ہے اور یہ حصہ اربوں تک پہنچ جاتا ہے۔اس کرپشن کا اصطلاحی نام کک بیک ہے۔ مُلک میں الیکشن سے پہلے جو اتحادی الائینس بنتے یا بنائے جاتے ہیں . اور وہ اتحادی الائینس ایک بڑا سرمایہ خرچ کرکے انتخابات جیتے ہیں یہ سرمایہ ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے خرچ نہیں کرتے بلکہ بمعہ سود کے ساتھ واپس لینے کے لیے اپنا جھکاؤ اُس پلڑے میں ڈالتے ہیں جو خرچ کیا گیا ہو وہ بغیر رُکاؤٹ کے جھولی میں آن گرئے، ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہموں پر جو اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہوتی ہے. وہ راہ اللہ نہیں بلکہ بھاری منافع کے ساتھ واپس لینے کے لیے کی گئی ہے یہ واپسی کیسے ہوگی؟ کیا اس واپسی کا کرپشن کے علاوہ کوئی اور راستہ عوام کی نظر میں آتا ہے؟ ایک صنعت کار مزدور کی محنت سے دس نئے کارخانے کھول لیتا ہے۔ ایک بڑا زمیندار کسان اور ہاری کی محنت سے اربوں روپے کماتا ہے۔ ایک بڑا تاجر منافع کے نام پر اربوں روپے کمالیتا ہے کیا اسے کرپشن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اس ہی طرح اپوزیشن کی ایک چھوٹی سی جماعت حکومت کا حصہ بننے کے لیے وزارتین مانگتی ہے صوبوں میں اتحادی حکومتیں قائم کرنے کے لیے چھوٹی جماعتوں کو وزارتوں وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدے پیش کش دی جاتیں اس پیشکش کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ کرپشن صرف پیسوں کے لین دین کا نام نہیں ہوتیں اس معاشرے میں ہزاروں طریقوں سے کرپشن کی جاتی ہیں اور ان میں سے بہت ساری کرپشن کو حلال کا نام دیا جاتا ہے. ہمارے سیاسی اتحادوں کو ملک و قوم کی بھلائی اور ضرورت کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس کی تہہ پر نظر ڈالیں تو کرپشن ہی کرپشن میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی جرنل الیکشن ہوئے انتخابات میں اشرافیہ کے خاندانوں کے ریلے کے ریلے وراثتی مختلف رشتہ داری کے بے دریغ تعلق سے نظر آئے جن میں بیٹے بیٹیاں، بھانجے بھانجیاں، بھائی بھتیجے منتخب ہوکر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں براجمان آگئے ہوتے ہیں . پرنٹ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ الیکشن میں خاندانی سیاست خاندانی حکمرانی کا نظام اور مستحکم ہورہا ہے کیا سیاسی خاندان اور پاکستان کی بڑی وراثتی سیاسی جماعت اس حقیقت کو جھٹلا سکتی ہیں؟ کیا یہ بدترین سیاسی کرپشن نہیں ہے؟

پاکستان میں 23 کروڑ عوام کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ ایماندار مخلص باصلاحیت اور عوام دوست اہل افراد جن کے “ آباوجداد نے 1947 میں لاکھوں قربانی دیکر اس ملُک پاکستان میں آکر اپنی انتھک محنت ، جدوجہد و قابلیت سے پاکستان کو 1964 میں ترقی یافتہ مُلکوں کی صف میں شامل کردیا “ بعد میں ان کی اولادوں کے ساتھ مختلف امتیازی اور جانبدارانہ انتخابی نظام کے ذریعے قانون ساز اداروں میں پہنچنے سے روکا جاتا رہا ہے اور نااہل کرپٹ بددیانت لوگوں کو قانون ساز اداروں میں پہنچنے کی تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں کیا یہ طبقاتی کرپشن نہیں ہے؟

پاکستان میں اگر کرپشن کو ختم کرنا ہے تو پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈروں کو بیٹھ کر 75 سالہ جمہوریت و آمریت کے دوران جو افراد جو خاندان برسر اقتدار رہے ہیں ان کے اثاثوں کی خواہ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر رقم کی شکل میں ہوں شیئر کی شکل میں انویسٹمنٹ کی شکل میں یا جائیداد کی شکل میں غیر جانبدارانہ آزادانہ تحقیق کرائی جائے اور معلوم کیا جائے کہ یہ دولت یہ اثاثے کس طرح بنائے گئے ہیں اور تمام ناجائز اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے جو جو لوگ ان کی نشاندہی کریں ان کو %10 ان اثاثوں سے کٹوتی کرکے ان کو فورا ادا کیا جائے اس سے کرپشن کو کسی حد تک ختم کرنے کا یہ ایک حقیقی اور منطقی طریقہ ہے کیا کرپشن کو ختم کرنے کے دعویدار اس طریقے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟
 
انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.