ججز کی چھٹیاں۔۔ انگریز چلے گئے روایات چھوڑ گئے

image
 
قیام پاکستان سے پہلے یہاں موجود برطانوی ججز موسم گرما میں موسم کی سختی سے بچنے کیلئے برطانیہ لوٹ جاتے یا کسی پرفضا مقام پر ڈیرہ لگا لیتے اور اس دوران عدالتیں بند رہتیں۔۔ پاکستان کے قیام کو 75 برس گزر جانے کے بعد گو کہ پاکستان میں برطانوی ججز تو نہیں رہے لیکن ان کا بنایا گیا طویل چھٹیوں کا نظام آج بھی قائم ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ۔۔۔سپریم کورٹ کی طویل چھٹیوں میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت بھی تقریباً تکمیل کو پہنچ جائیگی۔

آج ہم آپ کو پاکستان میں ججز کی طویل چھٹیوں اور ججز کی رخصت سے سیاسی ماحول میں ہونیوالی تبدیلی کے بارے میں بتائیں گے۔
 
 
ان دنوں گرما گرم سیاسی ماحوم میں سپریم کورٹ کا درجہ حرارت بھی کافی بڑھا ہوا ہے۔۔ انتہائی اہم نوعیت کے مقدمات اور ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان اور دیگر عدالتوں پر دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔۔

ایسے ماحول میں ججوں کی طویل چھٹیاں جہاں عدالتوں ماحول کو ٹھنڈا کریں گی وہیں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آجائیگا۔۔ اس حوالے سے بھی ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔۔۔۔۔

اب آپ کو پاکستان میں عدالتوں کی طویل چھٹیوں کی وجوہات بتاتے ہیں۔ 15 جون سے 11 ستمبر تک سپریم کورٹ کے ججز چھٹیوں پر چلے جائیں گے۔۔ ان چھٹیوں سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا۔۔ اس سے پہلے ہم آپ کو ان چھٹیوں کی تاریخ کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مختلف سرکاری و نجی اداروں میں سالانہ چھٹیوں کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ تاہم کوئی بھی ادارے بند کرکے ملازمین کو چھٹیاں نہیں دی جاتیں۔۔

سپریم کورٹ میں سالانہ تقریباً ڈھائی ماہ کی چھٹیوں میں اہم مقدمات زیر التوا چلے جاتے ہیں تاہم ڈیوٹی ججز فوری نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں تاہم چیف جسٹس و دیگر سینئر ججز دستیاب نہیں ہوتے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جس ملک میں لاکھوں کیسز زیر التوا اور انصاف کا نظام اتنا پیچیدہ ہو وہاں ڈھائی ماہ تک ججز کی چھٹیوں کی کیا لاجک ہے ؟۔

یہ نظام آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے پہلے سے جاری ہے۔۔ اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے قیام سے قبل یہاں موجود برطانوی حکام نے اس خطے میں گرم ترین مہینوں میں موسم کی سختی سے بچنے اور اپنی سہولت کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں کا شیڈول بنایا تھا۔

عام طور پر انگریز جج موسمِ گرما میں برصغیر سے واپس برطانیہ چلے جاتے تھے یا پھر کسی پرفضا پہاڑی مقام پر اپنا ڈیرہ لگاتے۔ انگریز جج تو چلے گئے مگر اپنی یہ روایت پاکستانی عدلیہ کے لیے چھوڑ گئے۔
 
image

آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سب سے زیادہ تنخواہ وصول کرنے میں پاکستان میں پہلے نمبر پر ہیں، یہ انکشاف پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کے اجلاس میں چند روز پہلے ہوا ۔

صدر مملکت کی تنخواہ 8 لاکھ 96 ہزار 550 روپے ہے، وزیراعظم کی تنخواہ 2 لاکھ 1 ہزار 574 روپے ہے، وفاقی وزیر کی تنخواہ 3 لاکھ 38 ہزار125 روپے ہے، ممبر قومی اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 88 ہزار روپے ہے جب کہ چیف جسٹس پاکستان کی تنخواہ 15 لاکھ 27 ہزار 399 روپے ہے۔سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 14 لاکھ 70 ہزار 711 روپے ہے۔

اب آپ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بارے میں بتائیں تو اس وقت حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان واضح تناؤ دیکھا جارہا ہے۔

عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری کشمکش میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے بھی واضح تفریق نظر آتی ہے۔۔

حکومت دھڑا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حامی ہے جبکہ پی ٹی آئی چیف جسٹس عطا بندیال سے نرم گوشے کی امید رکھتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ حکمران واضح طور پر چیف جسٹس پر جانبداری کے الزامات لگاتے نظر آتے ہیں ۔

موسم گرما کی 11 ستمبر کو ختم ہونے والی تعطیلات کے بعد صرف چند روز کیلئے جسٹس عمر عطا بندیال واپس اپنی کرسی سنبھالیں گے کیونکہ جسٹس عمر عطا بندیال کی ملازمت کی مدت 16 ستمبر 2023 کو مکمل ہوگی ۔

چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد چیف جسٹس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوگا اور وہ آخری ایام میں فیئرویل پارٹیاں اور دیگر امور نمٹانے میں مصروف ہونگے اس لئے شائد انہیں دوبارہ اہم مقدمات کی سماعت کا موقع نہ ملے اور 17 ستمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ججز کی چھٹیوں کے دوران ملک میں سیاسی منظر نامہ پوری طرح تبدیل ہوجائے اور حکومت کو چیف جسٹس کی عدم موجودگی میں کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے۔ تو چاہے انگریزوں جیسا انصاف بھلے نہ ملے لیکن انگریز دور کا نظام حکومت کے کام ضرور آسکتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: