مہاراشٹر میں فرقہ پرستوں کا نیا حربہ ' اورنگ زیب، شرپسندوں کوسرکاری سرپرستی!

مہاراشٹر میں جیسے فرقہ پرستوں کوایک نیا حربہ اورنگ زیب کی شکل میں مل گیا ہے اور شرپسندوں نے سرکاری سرپرستی میں کولہاپور اور احمد نگر میں تشدد برپا کیا حالانکہ پولیس نے بروقت کارروائی کی ہے،لیکن کیاجاتا ہے کہ ان شرپسندوں کو برسراقتدار بی جے پی کی آشیرواد حاصل ہے۔دراصل کشیدگی کے درمیان مبینہ طور پر جلوسوں کے شرکاء نے ٹیپو سلطان اور اورنگزیب کے پوسٹرلہرائے تھے۔ شیو سینا ادھو ٹھاکرے (یو بی ٹی) کے ترجمان اخبار 'سامنا' کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اورنگ زیب کی شکل میں مہاراشٹر کی سیاست میں نیا ٹول یا آلہ مل گیا ہے۔

اس طنز میں حقیقت پوشیدہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے کی زیرقیادت پارٹی نے کہا کہ بی جے پی کرناٹک میں گزشتہ ماہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں "بھگوان ہنومان کی گدی کا نام دینے" کے باوجود ہار گئی تھی،یعنی بجرنگ بلی کا نعرہ لگاتے ہوئے بھی اسے کامیابی نہیں ملی اور اس لیے پارٹی کو مہاراشٹر میں اورنگ زیب کی "ضرورت" محسوس ہورہی ہے۔اسے ہائی کمان کی طرف سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
اس طرح اورنگ زیب مہاراشٹر میں ایک نیا آلہ بن گیا ہے۔ بھگوان ہنومان کی گدی کا نشان لگانے کے باوجود بی جے پی (کرناٹک اسمبلی انتخابات میں) ہار گئی۔ اسی لیے انہیں یہاں اورنگ زیب کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ہندوتوا کو تباہی کے راستے پر لے جانے کے مترادف ہے۔"

گزشتہ ہفتے کولہاپور میں دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف سے کچھ لوگوں پر مبینہ طور پر میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کی تصویر کے ساتھ ان کے سوشل میڈیا سٹیٹس پر ایک جارحانہ آڈیو کلپ استعمال کرنے پر پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ احمد نگر ضلع کے سنگمنیر میں، ایک جلوس کے دوران مبینہ طور پر اورنگ زیب کی تصویریں اٹھانے کے الزام میں کچھ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیاہے ،لیکن اس کے باوجود زبردست سیاسی دائرہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔کچھ سیاسی جماعتیں اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اورنگزیب کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں حالانکہ وہ 300 سال سے زیادہ عرصے سے دفن ہیں۔

دراصل کسی کی اس غلطی پرکہ احمد نگر میں اورنگ زیب کی تصویر کولہرایا گیا اور پھر کسی نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ یہ پوری ریاست میں فسادات کو بھڑکانے کے لیے سوچا سمجھا اقدام تھا۔ کولہاپور اور احمد نگر دونوں میں سماجی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ہیں۔اگر یہ سب منصوبہ بند نہیں ہوتا تو چند منٹوں میں، ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج کیسےکیا اور دیویندر فڑنویس کے ارادوں کو ظاہر کیا، جن کے پاس محکمہ داخلہ کا قلم دان ہے، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے لوگ کولہاپور کے نہیں تھے۔اس کی تصدیق صحافیوں اور دیگر ذرائع نے کی ہے۔

ریاست مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے گروپ اور بی جے پی میں نشستوں کی تقسیم پر اور دیگر کئی امور پر اختلاف پیدا ہورہے ہیں،اس لیے انہوں نے اورنگ زیب کے معاملے سے حالات کو گرمانے کی کوشش کی ہے،لیکن کواس "بے جان" حکومت کو زندگی نہیں ملے گی۔واضح رہے کہ ایکناتھ شنڈے دھڑے سے تعلق رکھنے والے ایک لیڈر نے کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر کو اورنگ آباد سے اورنگ زیب کی قبر کو ہٹانے کے بارے میں لکھیں گے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملہ کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے ۔دراصل سپریم کورٹ کی تنقید کے بعد ریاستی حکومت کو "کمزور" قرار دیا جارہا ہے بلکہ غیر قانونی مانا جاتا ہے۔لیکن۔یہ جانتے نہیں ہیں کہ اورنگ زیب کا سہارا لینا "مہنگا ثابت" ہوگابلکہ۔اس کے جلد گرنے کی بھی پیش گوئی کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اورنگ زیب اور لو جہاد کا سہارا لے رہے ہیں۔
کولہاپور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) مہندرا پنڈت نے کہا کہ فسادات میں مبینہ طور پر ملوث 51 لوگوں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے 44 کو ضمانت دی گئی جبکہ چھ کو عدالتی حراست میں اور ایک کو پولیس کی تحویل میں بھیج دیا گیا۔ایس پی نے کہا کہ بدھ کے احتجاج میں دیگر لوگوں کے ملوث ہونے کا پتہ لگانے کے لیے پولیس مختلف سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کر رہی ہے۔کولہاپور اور دیگر شہروں میں فرقہ پرستوں کو منظم کیا جارہا ہے،خود نائب وزیراعلی فڑنویس کی زبان بے لگام نظر آرہی ہے۔

حالانکہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے جسٹس جوزف نے سخت الفاظ میں پولیس کو حکم دیاتھا کہ وہ ازخود شرپسندوں کے خلاف کیس درج کرے اور کارروائی کرے،لیکن ارباب اقتدار کی درپردہ حمایت کی وجہ سے رام نومی سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

مہاراشٹر میں پچاس سے زائد ریلیوں میں جو اشتعال انگیزی کی گئی اس نے 2مہینوں میں_10 9شہرفساد کی لپیٹ میں لے لیا جبکہ کئی شہروں میں کشیدگی پائی جاتی ہے،پولیس کے رویہ سے بھی اقلیتی اور سیکولر پارٹیوں کو شکایت ہے۔اور یہ۔مطالبہ زور پکڑ رہا ہےکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پولیس بروقت کارروائی کرے اور اس غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے کہ پولیس فورس سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے۔عام طورپرالزام ہے کہ اس طرح حکمراں جماعت اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔
مہاراشٹر میں آئندہ سواسال بعد اسمبلی الیکشن ہیں اور اگر ادھواور شندے گروپ کے درمیان عدالتی لڑائی میں ادھو گروپ کا پلڑا بھاری ہوگیا تو انتخابات وقت سے پہلے ہونےکا بھرپور فائدہ پہنچےگا۔پچھلے دو مہینے میں اورنگ ،پربھنی ،جالنہ،اکولہ،احمدنگرسمیت وغیرہ میں فسادات برپا کئے گئے ہیں اور حال میں ناسک اور اب احمد نگر اور کولہاپور کو بھی تشدد کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ریاست مہاراشٹرملک بھر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جانا جاتا ہے ،لیکن یہاں منصوبہ بند طریقہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی سازش رچی جارہی ہے جوکہ تشویش ناک امر ہے۔ کرناٹک نتائج کے بعد یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، پولیس امن وامان کا ماحول بنانے میں ناکام نظرآرہی ہے۔آیا وہ حکمراں جماعت کے دباؤ میں تو کام نہیں کررہی ہے۔

حالانکہ ممبئی اور مہاراشٹر پولیس کے کام کے بارے میں ستائش کی جاتی تھی ،لیکن اس کی وجہ سے اس کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے۔

عام شکایت ہے کہ منصوبہ بند طریقہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی سازش رچی گئی ہے،جس سے عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ مہاراشٹر قومی آہنگی گہوارہ رہا ہے ،لیکن چند ماہ سے ریاست میں ماحول بگاڑنے کی کوشش ایک منصوبہ بند سازش کے تحت کی جارہی ہے۔

 
Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 33432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.