میں منصف، میں نظام عدل اور حرف آخر ہوں !
(M. Furqan Hanif, Karachi)
محض خیالی قصہ ہے اور حقیقت سے دور ہے۔ اسکا مقصد صرف طنز و تمثیلی تفریح فراہم ہے |
|
|
ایک دن، میرے سامنے ایک معصوم سیاسی خلاف ورز ی کا مقدمہ تھا۔ لیکن میرا دل چاہ رہا تھا کہ اسے بھیڑ بکریوں کی ایک سوچ سمجھ کے عدلتی نظام میں رہوں! میں تو عدلیہ کا بڑا بچہ ہوں، میں نہیں چاہتا کہ کوئی سیاستدان میرے سامنے مقدمے پر دباؤ ڈالے۔ تو میں نے درخواست گزار کو یہ کہا کہ "بھائی سب کچھ چھوڑو، میں تو قاضی ہوں، اب تمہیں مجرم قرار دیتا ہوں!" دل ہی دل میں یہ سوچ کر مزے لیتا رہا کہ ہوں تو میں قاضی مگر سیاستدانوں کی طرح سیاسی طاقت کو استعمال کرنا خوب سیکھ چکا ہوں۔
میرے عدلیہ کے کمرے میں ایک بار ایک سیاستی دھاندلی کا واقعہ ہوا تھا۔ ایک سیاسی شخص نے مجھے مقدمہ رفع کرنے کے لئے رشوت دی تھی۔ میں تو چپ نہیں بیٹھا سکتا تھا۔ تو میں نے سوچا "میں تو قاضی ہوں، میرا کچھ بھی ہو سکتا ہے!" تو میں نے اس رشوت کو قبول کیا اور مقدمے کے خارج کرنے کا شاہی حکم صادر کردیا، لیکن جہاں تک رشوت کی کی بات ہے، اس میں تو حد سے تجاوز ہو گئی تھی! انسانیت سسک رہی تھی، تو سسکتی رہے میں نے ٹھیکہ تو نہیں لیا لوگوں کے معاملات کو صحیح کرنے کا یہ کام تو حکومت کا ہے اور میں کوئی حکومت تھوڑا ہی ہوں۔ سیاسی دھاندلی کے فیصلے پر اپنی پسند سے احکامات جاری کرنا میرا صوابدیدی اختیار ہے اور خبردار جو میرے اختیارات میں کسی نے اپنا کوئی زور چلایا تو، یاد رکھنا ایسا کرنے سے میرے انصاف کے ادارے کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
میرا ایک مخصوص آزمودہ طریقہ کار ہوتا ہے جس میں درخواست گزار کو کچھ ایسا ویسا کرنے کو کہتا ہوں اور پھر قانونی موشگافیوں کا ماہرانہ استعمال کرتے ہوئے انصاف کے ترازو کے پلڑے کو ادھر یا ادھر کردیتا ہوں ظاہر کہ جو وزن زیادہ ڈالے گا پلڑا اسی کا بھاری رہے گا۔ مقدمے کے بعد میں اپنے ماہرانہ فن عدل پر خوب محظوظ ہوتا ہوں اور تقریبات اور دیگر مجالس میں بڑے فخر سے اپنے فن کا ڈنکہ بجوا کر خوب داد تحسین لیتا ہوں۔ اور اپنے شعبے کے فن کاروں کو سکھاتا ہوں کہ مت دیکھو کہ کوئی شخس کس قدر پریشان یا پرسکون ہے اور کس طرح میرے سامنے اپنے بے گناہی کا اظہار کرتا ہے، بس دیکھو یہ کہ میرے فن پاروں میں ایک اور نگینہ فٹ ہوگیا ہے اور کیا خوب ہوا ہے۔ |