ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے رمضان کے
آخری عشرہ میں دھماکا خیز پریس کانفرنس کر تے ہوئے بہت سی تلخ حقیقتیں ایم
کیو ایم ، اے این پی اور اپنی ہی پارٹی کے چند سرکردہ لوگوں کی آشکارکر دی
ہیں اور وہ بھی قرآن مجید کو اپنے سرپر رکھ کر جس سے انکی مستند ہونے کی
تصدیق بھی ہو جاتی ہے، کیونکہ کوئی ذی شعور مسلمان قرآن مجید کو اپنے مذہوم
مفادات کی خاطرسرپر رکھ کر غلط باتوں کو درست قرار نہیں دے سکتا ہے۔اگرچہ
بعدازں ایم کیوایم کی جانب سے تین مرتبہ پریس کانفرنس کی گئی ہیں۔ لیکن
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی بھر پور طور صفائی
پیش نہیں کی گئی ہے جس سے کسی قدر شبہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ ان الزامات میں
بہت حد تک صداقت موجود ہے ؟ایک طرف توموجودہ سیاسی صورتحال کو مزید الجھایا
گیا ہے تو دوسری جانب میڈیا کو بھی خوب لتاڑہ گیا ہے۔حالانکہ میڈیا تو
حقائق عوام کے سامنے لا کر سب کا جھوٹ سچ سامنے لایا ہے۔ جس سے پہلے بھی
لوگ کسی حد تک واقف تھے اگرچہ چند صحافی حضرات اپنے مفادات کی خاطر بہت کچھ
کر جاتے ہیں، لیکن ایسے جانباز صحافی بھی ہیں جو اپنے مادر وطن کی بقا
کےلئے سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔اب اگر وہ حق بات سامنے لانے کے مرتکب ہوکر
دھمکیوں اورگولیوں کا نشانہ بنتے ہیں تو دوسروں کے لئے مثال بنتے ہیں؟تنقید
کرنے والے لوگ اپنے گریبان میں نہیں دیکھتے ہیں کہ کڑوا سچ کم کم ہی لوگ
اپنے بارے میں ہی برداشت کر پاتے ہیں۔کیونکہ انہیں تو اپنے مفادات کا حصول
چاہیے ہوتاہے چاہے اسکے لئے کچھ بھی کرنا کیوں نہ پڑے۔ابھی ایک چھوٹی سی
کہانی اس حوالے سے یاد آرہی ہے وہ آپ بھی سن لیجئے کیونکہ یہ ہمارے ملک کے
حالات وواقعات سے مماثلت رکھتی ہے۔
ایک تھا جادوگر۔وہ دشوارگزار پہاڑیوں اور گھنے جنگلوں میں رہا کر تا
تھا۔اُس نے ہزاروں بھیڑیں پال رکھی تھیں۔لیکن مشکل یہ تھی کہ تمام بھیڑیں
جادوگر سے خوفزدہ رہا کر تی تھیں ۔ کیونکہ وہ ہر روز مشاہدہ کر تی تھیں کہ
اُن میں سے ایک ناشتے کےلئے کاٹ لی جا تی ہے اور دوسری دوپہر کے کھانے
کےلئے چھری تلے آجا تی ہے ۔ اسی لئے آہستہ آہستہ وہ جا دوگر کے ہاں سے فرار
ہونے لگیں ۔ قرب وجودار میں پھیلے وسیع وعریض جنگل اور پہاڑی سلسلے میں فرا
رہوجانے والی بھیڑوں کی تلاش انتہائی مشکل اور جان لیواعمل تھا۔ بھیڑوں کا
مالک چونکہ جادوگر تھا لہذا اُس نے جادو کا استعمال کیا۔ اُس نے تمام
بھیڑوں کو ورغلایا اور ہر بھیڑ کے کان میں کچھ نہ کچھ پڑھ کر پھونک دیا ۔
کچھ بھیڑوں کو اُ س نے کہا کہ تم تو انسان ہو۔ تمہیں مجھ سے خوفزدہ ہونے کی
کیا ضرورت ہے ۔ کھانے کےلئے تو صرف بھیڑ ہی کاٹی جائے گی ، تمہیں اس سے کیا
غرض؟ کیونکہ تم تو میری طرح انسان ہو۔ کچھ اور بھیڑوں سے اُ س نے کہا کہ تم
تو شیرہو۔ بھیڑیں تو ڈرا ہی کر تی ہیں‘ڈرپوک ہوتی ہیں ‘بھاگ بھی جا تی ہیں۔
لیکن تم تو شیر ہو‘تمہیں تو فرار ہونے کی بجائے موت کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر بات کر نی چاہیے۔ کیونکہ شیرہونے کی باعث یہی رویہ اختیار کرنا
تمہاری بہادری اور قوت کا تقاضاہے۔ بھیڑوں کے طبقے سے تمہارا کوئی تعلق
نہیں ہے۔ لہذا اُ ن کا کٹ مرنا تمہارا مسئلہ نہیں ۔وہ تو بنائی ہی اس لئے
گئی ہیں کہ انہیں مارا جائے۔ لیکن تم تو اس جنگل میں میرے بہترین دوستوں
میں سے ہو۔
یوں اُ س نے تمام بھیڑوں کو مطمئن کر دیا۔اگلے ہی دن سے بھیڑوں کے فرار
ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح ہرروز کسی نہ کسی بھیڑ
کو چھری تلے گردن کٹواتے دیکھتیں لیکن اب انہیں اس عمل پر کوئی تشویش نہیں
ہوتی تھی ۔ کوئی شیرتھی، کوئی ببر شیر تھی، کوئی انسان تھی۔۔۔۔۔۔اُن میں
کوئی بھیڑ تو تھی ہی نہیں ، سوائے اُس کے جو ہر روز مر جاتی تھی۔ جو ماری
جاتی تھی صرف وہ ہی بھیڑ ہوتی تھی۔
اس طرح وہ جادو گر بغیرکسی کو ملازم رکھے ہزاروں بھیڑوں کو قابو میں رکھتا
تھا ۔ وہ بھوک مٹانے اور گھومنے پھرنے جنگلی چراگاہوں کو جاتیں اور یہی
اعتماد دل میں لئے واپس آجاتیں کہ ”وہ کوئی اور بھیڑ ہوگی جو تیز دھار چھری
تلے دم توڑ دے گی۔ہم نہیں ۔ ہم اس ہجوم کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم تو مطمئن
ہیں‘عزت اور احترام یافتہ ہیں اور اس عظیم جادوگر کی دوست“۔ یوں اُس جادوگر
کی تمام مشکلات حل ہوگئیں۔
جناب کچھ سمجھ میں آیا بالکل جادوگر کی طرح ہمارے سیاست دان بھی گذشتہ ساٹھ
سالوں سے عوام کو طرح طرح کے جھانسے دے کر اپنے دام میں پھنسائے بیٹھے ہیں
اورہم عوام روزی روٹی کے چکر میں پھنس کر رہ جانے کی وجہ سے کچھ بھی سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر یا یکسر فراموش اختیار کر کے بس اپنی ہی
دنیا میں مگن ہیں۔ آپ نے سرکس میں ”مداری“ کے کرتب تو دیکھے ہی ہونگے؟ لیکن
کیا آپ جانتے ہیں کہ اکثر وبیشتر سیاستدان بھی بہت بڑے ”مداری “ ہوتے ہیں
۔۔۔۔لفظوں کے مداری۔جی ہاں جو اپنے کھوکھلے بیان بازی پر مشتمل الفاظ کی
رسی کو سانپ بنا کر عوام کوکمال طریقے سے ڈستے رہتے ہیں۔یہ دھوکا بازی ،
چالاکی اورمفاد پرستی کا مظاہرہ کر تے ہوئے اپنے کاروبار سیاست کو چلاتے
ہیں ۔اب کوئی انکے گریبان سے پکڑ ے اور پوچھے یہ کیوں مذہبی ، نسلی اور
سیاسی اختلافات کے بیج بو کر ایک دوسرے کو مارنے پر اُکسا رہے ہیں۔ یہ ایک
کڑوا سچ ہے کہ ہر انسان اپنے ہی فائدہ کا سوچتا ہے دوسروں کا نہیں ؟اسی وجہ
سے ہمارا ملک اس قدر معاشی ابتری کا شکا رہو چکا ہے۔پی آئی اے، ریلوے
اوراسٹیل مل کا بیڑہ غرق کروا چکے ہیں مزید کی کوششیں جاری ہیں۔افسوس ناک
بات یہ ہے کہ حالیہ بارشوں سے بچاﺅ کی تدابیر تو بروقت اپنی نااہلی کی وجہ
سے نہ کر سکے ہیں لیکن بیرونی ممالک سے امداد کی خوب توقع لگائے ہوئے
ہیں؟حالیہ ہونے بارشوں نے کراچی میں جس قدر تباہی مچائی ہے اور دیگر سندھ
کے چند اضلاع میں کیا یہ چیز ہمیں خدا کے قہر ظاہر ہونے کا پتا تو نہیں دے
رہی ہے ؟آپ سب کے سامنے گذشتہ دو تین سالوں کے واقعات سامنے ہیں ذرا دل پر
ہا تھ رکھ کر سوچئے کیا یہ بات غلط ہے ؟ پتانہیں کیا سوچ کر ہمارے ملک کے
کر تا دھرتا چپ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا سب کچھ خود بخود درست ہو جائے
گایہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن تبدیلی اگرآئے گی تو عوام ہی لائے
گی ۔کیونکہ جنہوں نے ٹھیک ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکے ہوتے ۔ہمارے سامنے سب
سیاستدانوں کا ماضی و حال ہے اگر اب بھی ان کا مستقبل میں ساتھ عوام نے دیا
تو بہت برا ہوگا۔ملک اور اپنی تقدیرکو بدلنے کےلئے اگلے الیکشن میں مخلص
لوگوں کو اقتدار میں لانا ہوگا وگرنہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی اچھے
الفاظ میں یاد نہیں رکھیں گی۔ |