ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی پہلی
کانفرنس کے بعد سے اب تک ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا
ہے،سابق صوبائی وزیر داخلہ سندھ کے انکشافات سے اٹھنے والے طوفان سے نہ صرف
متحدہ قومی موومنٹ بلکہ وفاقی وزیرداخلہ عبدا لرحمن ملک سمیت ایوان اقتدار
کی اہم شخصیات بھی پریشان ہیں ۔
ذوالفقار مرزا کا موقف ہے کہ کراچی میں قتل عام کا ذمہ دار الطاف حسین ہے ۔اس
کے کہنے پر قتل وغارت شروع اور اسی کے کہنے پر ختم ہوتی ہے ۔ان کا کہنا ہے
کہ متحدہ سے کوئی بھی معاہدہ ملک توڑنے کے مترادف ہوگا۔انہوں نے وفاقی وزیر
داخلہ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عبدا لرحمن ملک کو
وزارت داخلہ کا عہدہ دینا صدر زرداری کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
مرزا لیکس کے دھماکوں کے بعدایم کیو ایم نے فوری طورپر اپنا ردعمل ظاہر
نہیں کیا تاہم بعد میں جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو متحدہ کی جانب سے
پہلے فیصل سبزواری سامنے آئے پھر قدرے وقفہ سے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال
ذوالفقار مرزاکے لگائے الزامات کے جوابات دینے میدان میں آئے ۔بعد ازاں ایم
کیو ایم کے سربراہ بھی اپنی ساڑھے چارگھنٹے کی پریس کانفرنس میں ان الزامات
کا ٹھوس اور مدلل جواب دینے کی بجائے نظریہ پاکستان پر دشنام طرازی سمیت
دیگر سیاسی جماعتوں پر تنقید کر کے اپنی بھڑاس نکالتے رہے۔
الطاف حسین نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستان ایک اسلامی
ریاست کے طور پر نہیں بنایا گیا تھا،نہ ہی قائداعظم نے پاکستان کا مطلب کیا
؟ لاالٰہ الا اﷲ کا نعرہ لگایا تھا ۔لیکن یہ بات کرتے ہوئے شاید وہ بھول
گئے کہ بھارت بھی ایک سیکولر ریاست بننے جارہاتھا، ایسے میں ایک الگ ملک
اور وطن بنانے کی ضرورت کیا تھی؟پاکستان بنانے کے لیے ہمارے آباواجداد نے
جتنی قربانیاں دیں،اپنی جانیں قربان کیں اور ہجرت کے دوران شدید ترین
مشکلات سے دوچار رہے تو کیا یہ سب ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کیا گیا؟
اصل بات یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا کے انکشافات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ
بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔میڈیا ،سول سوسائٹی ،فوج اور عدلیہ کی تنقید سے
1985ءکو قائم ہونے والی متحدہ کو پہلی مرتبہ شدید ترین دباؤ کاسامنا ہے۔اس
کا اندازہ الطاف حسین کی پریس کانفرنس سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ایم کیو ایم
کے قائد کے خیالات پر مختلف سیاسی مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید رد عمل
سامنے آیا ہے۔جماعت اسلامی کے رہنما محمد حسین محنتی نے کہا کہ حق پرست کا
پول کھلنے والا ہے الطاف نے سپریم کورٹ کو دھمکی دینے کی کوشش کی۔
ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے پریس کانفرنس کو سیاسی ڈرامااور مرزا کے
الزامات کو درست قرار دیا ۔اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید نے کہا لگتا ہے
کہ متحدہ کو سپریم کورٹ سے اعمال نامہ ملنے والا ہے ،اس لیے وہ بوکھلاہٹ کا
شکار ہے۔ذوالفقار مرزا نے اپنے ردعمل میں کہا کہ الطاف حسین کے انٹرٹینمنٹ
شو کا شکر گزار ہوں، آج عوام نے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔
پہلے بھی اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ذوالفقار مرزا کے ایم کیو ایم
کے خلاف کھل کر سامنے آنے سے وہ ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں اوراس
کا ایک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ملک بھر کے متحدہ مخالف ووٹروں کی
ہمدردیاں سمیٹنے میں ضرور کامیاب ہوگئی ہے۔
ذوالفقار مرزا نے متحدہ کے خلاف جو پنڈورابکس کھولا ہے اس کی ٹائمنگ بڑی
معنی خیر ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک لارجر بینچ کراچی میں ہی بیٹھ کر کراچی
کامقدمہ سن رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین نے اپنی ویڈیو پریس کانفرنس
میں سانحہ 12 مئی کے واقعات میں متحدہ کے ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے
جماعت اسلامی،اے این پی اور مہاجر قومی موومنٹ پر الزام دھردیا۔اس سے محسوس
ہوتاہے کہ ایم کیو ایم کوسپریم کورٹ سے اپنے خلاف فیصلہ آنے کا خدشہ ہے۔اس
پورے منظر نامے میں متحدہ قومی موومنٹ سیاسی تنہائی کا شکار ہوتی نظر آرہی
ہے۔صدر زرداری کے سوا تمام سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کی قربت سے گریز اں
ہیں۔
عبدالرحمن ملک ،ذوالفقار مرزا کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔جبکہ بابر
اعوان نے بھی چپ سادھ لی ہے۔پیپلز پارٹی کے باقی رہنماؤں کی خاموش حمایت
ذوالفقارمرزا کے ساتھ ہے۔الطاف حسین کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والے
دنوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ،جب ہی انہوں نے کہا کہ اچھی طرح
جانتے ہیں ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔دوسری جانب انہوں نے پریس
کانفرنس کے دوران امریکا کوبھی ہدف تنقید بناکر یہ اشارہ دینے کی کوشش کی
کہ اس کھیل کے پیچھے امریکا ہے اور امریکی حمایت کے بغیر یہ سب کچھ ہونا
ناممکن ہے۔الطاف حسین نے امریکا پریہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان توڑنا
چاہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ بات موصوف کو ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس کے
بعد ہی کیوں یاد آئی؟اس سے قبل وہ کیوںخاموش رہے؟
یہ سب کچھ اپنی جگہ، مگر کراچی کے بگڑتے حالات پر پاک فوج کی تشویش نے بھی
خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس کا اظہار کورکمانڈرز کانفرنس کے علاوہ آئی ایس
پی آر کے ذریعے بھی سامنے آرہا ہے ۔حکمرانوں نے تو اپنے اقتدار کی خاطر
مارشل لاءکے اسباب پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کیا یہ کوئی معمولی
بات ہے کہ کراچی میں رواں سال کے دوران اب تک کم از کم چودہ سو افراد دہشت
گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اگر حالات
یہی رہے اور سیاسی قیادت نے اپنی ”مفاہمتی “پالیسی ختم نہ کی تو فوج کوا
پنے فرائض کی انجام دہی کے لیے آگے آنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔مسلح افواج
کی اب تک یہی کوشش رہی ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہ کر
اپنے فرائض سر انجام دیں اور سول معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔چنانچہ اب
بھی ان کی جانب سے یہی کہا گیا ہے کہ سیاسی قیادت دہشت گردوں ،قاتلوں اور
جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرے۔سپریم کورٹ
بھی اپنا کام شروع کرچکی ۔عدالت عظمیٰ نے بھی کراچی میں بلا امتیاز آپریشن
کرنے کا حکم دے دیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت پرجرائم پیشہ گروہوں کے
خلاف کاروائی کے حوالے سے دباؤ ہے اور وہ ان کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور
ہے۔
مبصرین اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آچکا ہے کہ ذوالفقار
مرزا کے الزامات پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ایسا کرنا اب اس لیے بھی
ضروری ہوگیا ہے کہ بات اب ملکی سلامتی تک پہنچ چکی ہے۔یہ کراچی میں رہنے
والے انسانی جانوں کے خون کا مسئلہ ہے ۔بدامنی کا خاتمہ اب ہماری پہلی قومی
ترجیح ہونا چاہیے ۔سیاسی جماعتیں اس نازک وقت میں ایک دوسرے کے خلاف الزام
تراشیوں کی بجائے عدل وانصاف کے تقاضوں کی تکمیل میں ایک دوسرے کے ساتھ
تعاون کریں۔یہ وقت صوبائیت ،لسانیت،یا علاقائیت کی بنیاد پر نفرت پھیلانے
کا ہر گز نہیں ۔دشمن چال چل رہا ہے اوراب ہماری سیاسی قیادت کو دشمن کے ہر
حربے اور ہتھکنڈے کوباہمی اتفاق واتحاد سے ناکام بنانا ہوگا۔اگر ہم اب بھی
نہ سنبھلے تو پھر یہ بات طے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری مشکلات میں
اضافہ ہوتا جائے گا۔ |